لاہور ہائی کورٹ نے قبضہ مافیا کے ملزمان کی ضمانت مسترد کر دی
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
ملتان:
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر محکمہ جنگلات کی جانب سے قبضہ مافیا کے خلاف جاری آپریشن میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ نے مظفر گڑھ میں محکمہ جنگلات کی اراضی پر غیر قانونی قابض ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔
تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلات کی 82 ایکڑ اراضی 1947 سے جرائم پیشہ عناصر کے قبضے میں تھی، جسے 14 دسمبر 2024 کو ایک گرینڈ آپریشن کے دوران واگزار کروا لیا گیا۔ آپریشن کے دوران شدید مزاحمت کے باعث محکمہ جنگلات کے پانچ اہلکار زخمی ہوئے۔
محکمہ جنگلات نے واقعے کے بعد تھانہ محمود کوٹ میں 24 نامزد اور 15 نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرایا، جس کے نتیجے میں 22 ملزمان گرفتار ہوئے۔ ملزمان نے اپنی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ سے رجوع کیا، تاہم عدالت نے 18 فروری 2025 کو کیس کی سماعت کے بعد ملزمان کی ضمانت مسترد کر دی اور گرفتاری کا فیصلہ برقرار رکھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سرکاری اراضی کو ناجائز قبضے سے واگزار کروانے کا عمل جاری رہے گا اور ملزمان کو کسی قسم کی قانونی رعایت نہیں دی جائے گی۔
دوسری جانب سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشن کے تحت قبضہ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن مزید تیز کیا جائے گا تاکہ سرکاری زمینوں کو ہر صورت واگزار کروایا جا سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: محکمہ جنگلات
پڑھیں:
پنجاب میں قبضہ مافیا، دھوکا دہی اور جعلسازوں کو سخت سزائیں کیلیے قوانین تیار
پنجاب حکومت نے قبضہ مافیا، دھوکا دہی اور جعلسازوں کیخلاف سخت قوانین تیار کرلیے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب حکومت نے قبضہ مافیا،دھوکا اور جعلسازوں کیخلاف سخت سزاوں کے قوانین تیار کر لیے، جس کے آرڈیننس کی تفصیلات سامنے آگئیں ہیں۔
پنجاب پروٹیکشن آف اونرشپ آف امووایبل پراپرٹی آرڈیننس 2025 وزیر اعلیٰ کی منظوری کے بعد پنجاب اسمبلی کو ارسال کر دیا۔ جس کو آج منظوری کیلیے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی قبضہ، جعلسازی، دھوکہ یا زبردستی جائیداد ہتھیانے پر 5 سے 10 سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے جبکہ جائیداد پر غیرقانونی قبضہ دلانے یا فروخت میں معاونت پر 1 سے 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔
آرڈیننس کے مطابق کمپنی، سوسائٹی یا ادارے کی جانب سے جرم ثابت ہونے پر ذمہ دار افسران بھی سزا کے مستحق ہوں گے، جائیداد کے مالک کو شکایت براہِ راست متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے پاس جمع کرانی ہوگی۔
آرڈیننس کے مطابق ہر ضلع میں تنازعات کے حل کے لیے ڈسٹرکٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی قائم کی جائے گی، جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کرے گا جبکہ ممبران میں ڈی پی او، اے ڈی سی ریونیو اور متعلقہ افسران شامل ہوں گے۔
کمیٹی کو ریکارڈ طلبی، سماعت، اور جائیداد کے تحفظ کے لیے فوری انتظامی کارروائی کا اختیار حاصل ہوگا جبکہ کمیٹی 90 دن میں شکایت نمٹانے کی پابند ہوگی، کمشنر کی منظوری سے مزید 90 دن کی توسیع ممکن ہوسکے گی۔
آرڈیننس کے مطابق فریقین کو کمیٹی کے سامنے خود پیش ہونا لازمیہ ہوگیا، وکیل کے ذریعے نمائندگی عام طور پر منظور نہیں ہوگی، کمیٹی کی رپورٹ یا سمجھوتہ تحریری طور پر پراپرٹی ٹریبونل کو بھیجا جائے گا۔
آرڈیننس کے مطابق تنازع حل نہ ہونے کی صورت میں کمیٹی 30 دن کے اندر کیس ٹریبونل کو ریفر کرے گی، جھوٹی یا بدنیتی پر مبنی شکایت پر 1 سے 5 سال قید اور جائیداد کی ویلیو کے 25 فیصد تک جرمانہ ہوگا۔
آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ صوبے بھر میں پراپرٹی ٹریبونلز قائم کیے جائیں گے، ہر ضلع میں کم از کم ایک ٹریبونل ہوگا، ٹریبونل کے سربراہ ہائی کورٹ یا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رہ چکے افسران ہوں گے۔
آرڈیننس کے تحت ٹریبونل کو سول کورٹ اور سیشن کورٹ کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے۔ ٹریبونل غیرقانونی قبضے کے مقدمات 90 دن میں نمٹانے کا پابند ہوگا۔
آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ ٹریبونل جائیداد کی واپسی، منافع اور معاوضہ ادا کرنے کے احکامات جاری کر سکے گا، قبضہ چھڑانے کے لیے پولیس یا سرکاری اداروں کی مدد سے زبردستی کارروائی کی جا سکے گی۔
آرڈیننس کے مطابق ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دو رکنی بینچ کے سامنے اپیل دائر کی جا سکے گی جبکہ آرڈیننس کا مقصد شہریوں کی جائیداد کے قانونی مالکانہ حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔