ڈیڑھ ارب ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ کیلئے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات شروع WhatsAppFacebookTwitter 0 24 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس )پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ڈیڑھ ارب ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ کے نئے قرضے کیلئے مذاکرات شروع ہوگئے۔ کلائمیٹ فنانسنگ کے نئے قرضے پر مذاکرات کیلئے آئی ایم ایف کا تکنیکی وفد پیر کو پاکستان پہنچا، آئی ایم ایف وفد 28 فروری تک پاکستان میں قیام کرے گا، کلائمیٹ فنانسنگ کی مد میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے ڈیڑھ ارب ڈالرتک ملنے کی توقع ہے۔

ذرائع کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تکنیکی وفد نے گرین بجٹنگ کے بارے میں وفاق کے اقدامات پر اطمینان کا اظہارکیا۔ذرائع کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی وفد کے درمیان کلائمیٹ فنانسنگ پر مذاکرات ہوئے۔ آئی ایم ایف نے گرین بجٹنگ کی ٹیگنگ، ٹریکنگ اور مانیٹرنگ پر مذاکرات کیے، آئی ایم ایف کو وفاقی اور صوبائی حکام نے گرین بجٹنگ پر بریفنگ دی۔

ذرائع نے بتایا کہ وفد کو وفاق، صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا نے کلائمیٹ اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا جبکہ صوبہ پنجاب اور بلوچستان کے حکام کل آئی ایم ایف کو بریفنگ دیں گے۔دوسری جانب ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف تکنیکی وفد نے صوبوں کو وفاق کے اقدامات پر عمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ گرین بجٹنگ پر وفاق کے اقدامات پر مطمئن ہے۔

دریں اثنا آئی ایم ایف کی جانب سے اگلے مالی سال کے دوران بجٹ میں کاربن لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے۔ آئی ایم ایف وفد سے کاربن لیوی عائد کرنے، الیکٹریکل وہیکلز اور سبسڈی پر بھی بات چیت متوقع ہے اس کے بعد آئی ایم ایف کا جائزہ مشن اگلے ماہ کے وسط تک پاکستان آئے گا۔ جائزہ مشن کے ساتھ سات ارب ڈالر کے ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلیٹی پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط حاصل کرنے کیلئے پہلے اقتصادی جائزہ پر بھی مذاکرات ہوں گے

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان کلائمیٹ فنانسنگ ڈیڑھ ارب ڈالر ارب ڈالر کی

پڑھیں:

کیا پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا احتساب شروع ہو گیا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اگست 2025ء) حال ہی میں پاکستان کے انسداد بدعنوانی کے ادارے 'نیب‘ نے ملک کے بڑے ہاؤسنگ منصوبوں کے مالک ہیں ملک ریاض کے ایک ایک قریبی رشتہ دار کی کچھ جائیدادیں نیلام کی ہیں۔ یہ نیلامی اس لیے کی گئی کیونکہ ملک ریاض اور ان کے رشتہ دار 190 ملین پاؤنڈز کے کیس میں پلی بارگین معاہدے کی رقم ادا کرنے میں ناکام رہے۔

اب تک گروپ کی دو جائیدادیں نیلام ہو چکی ہیں جبکہ مزید نیلامی کے لیے تیار ہیں۔ نیب میں ملک ریاض اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں قائم علی شاہ اور شرجیل میمن کے خلاف مقدمہ بھی درج ہے، جس کے مطابق وہ کراچی، راولپنڈی اور جنگلات کی زمینوں پر قبضے میں ملوث رہے۔
بحریہ ٹاؤن کے خلاف نیب ریفرنس، کرپشن کے خلاف جنگ یا ایک اور سیاسی محاذ
القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ قانونی تقاضے پورے کرتا ہے؟

زمینوں پر قبضے کے کیس میں پیش نہ ہونے پر جنوری میں احتساب عدالت نے ملک ریاض کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

(جاری ہے)

وہ اس وقت متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں اور حکومتِ پاکستان نے ان کی حوالگی کے لیے یو اے ای حکومت سے رابطے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں ملک ریاض، عمران خانکے شریک ملزم ہیں، جس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ملک ریاض سے زمین تحفے میں لینے اور 190 ملین پاؤنڈز کے مالی معاملے میں سہولت دینے پر بالترتیب 14 اور 10 سال قید کی سزا ملی۔

یہ رقم سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی، حالانکہ اسے حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع ہونا چاہیے تھا۔

اسی طرح، زمین پر قبضے کے ایک کیس میں ملک ریاض نے سپریم کورٹ سے معاہدہ کیا کہ وہ کراچی کے ضلع ملیر میں بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں موجود زمین کے عوض 460 ارب روپے ادا کریں گے۔ عدالت نے 2019ء میں یہ معاہدہ منظور کیا اور رقم کے لیے الگ اکاؤنٹ کھولا گیا، مگر بعد میں انہوں نے رقم ادا نہیں کی۔

کیا دیگر ہاؤسنگ سوسائٹیز کے خلاف بھی آپریشن ہو رہا ہے؟

ان تمام کارروائیوں کے دوران یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں ہاؤسنگ سیکٹر کی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کوئی وسیع آپریشن شروع ہو چکا ہے یا یہ کارروائی صرف بحریہ ٹاؤن تک محدود ہے؟

معروف وکیل اور نیب کے سابق اسپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کی جائیدادوں کی نیلامی نیب کے قوانین کے حساب سے قانونی ہے کیونکہ انہوں نے ایک معاہدہ کیا تھا جس پر بعد میں عمل نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا، ’’یہ ایک الگ سوال ہے کہ کیا حکام کی یہ کارروائی تمام مالی بے ضابطگیوں میں ملوث اسکیموں کے خلاف بلا امتیاز ہو رہی ہے یا صرف ملک ریاض کے خلاف۔‘‘

یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ ڈی ایچ اے ویلی، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور بحریہ ٹاؤن کا مشترکہ منصوبہ تھا، جس کے زیادہ تر متاثرین آج تک پلاٹوں کے منتظر ہیں۔ نیب نے اس معاملے پر 2018ء میں انکوائری شروع کی، مگر نتیجہ تاحال سامنے نہیں آیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے 2021ء میں ڈی ایچ اے کو لینڈ گریبنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ اس نے ہائیکورٹ کی زمین پر بھی قبضہ کیا ہے۔

پاکستان کے آڈیٹر جنرل کی 2022ء کی رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے کراچی-حیدرآباد (ایم-نائن) موٹروے کے ساتھ 785 کنال سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، جن میں بحریہ ٹاؤن کی 491 اور ڈی ایچ اے سٹی کی 294 کنال زمین شامل ہے۔

بظاہر صرف ملک ریاض کے خلاف کارروائی کی ایک وجہ ان کا القادر ٹرسٹ کیس میں شریک ملزم ہونا بھی بتائی جاتی ہے۔ بریگیڈیئر حارث نواز، سابق نگران وزیرِ داخلہ سندھ، کا کہنا ہے کہ دیگر ہاؤسنگ منصوبوں میں کرپشن ہو تو ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں، مگر موجودہ کارروائی ایک خاص کیس ہے کیونکہ وہ عمران خان کے ساتھ شریک ملزم ہیں۔ ان کے بقول، ’’ملک ریاض کو القادر ٹرسٹ کیس میں پیش ہونا چاہیے تھا۔

‘‘ پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیز میں کس طرح کی بے ضابطگیاں ہیں؟

پاکستان میں یہ عام تصور ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں اپنے وعدے پورے نہیں کرتیں۔ ہزارہا لوگ ایسی سوسائٹیوں سے متاثر ہیں جو عوام کو مالی نقصان پہنچا رہی ہیں، کچھ غیر موجود پلاٹ بیچ کر اور کئی وہ پلاٹ بیچ کر جن کی ترقیاتی کام مکمل نہیں کیے گئے۔ یہ مسئلہ صرف نجی سوسائٹیوں تک محدود نہیں بلکہ سرکاری اسکیمیں بھی غیر ضروری تاخیر کا شکار ہیں۔

اسلام آباد کے کئی سی ڈی اے سیکٹرز سالہا سال سے مکمل نہیں ہوئے اور پلاٹ مالکان کئی دہائیوں سے قبضے کے منتظر ہیں۔ ان میں ای-12، سی-14، سی-15 اور آئی-12 شامل ہیں، جبکہ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن بھی کچھ اسکیمیں ترقی دینے میں ناکام رہی ہے، حالانکہ انہیں 10 سال سے زیادہ عرصہ پہلے فروخت کیا جا چکا ہے، جیسے اسلام آباد کے مضافات میں گرین انکلیو منصوبہ۔

کئی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز ایسی ہیں جنہیں سی ڈی اے کے مطابق غیر قانونی قرار دیا گیا ہے لیکن وہ اب بھی کام کر رہی ہیں۔ سی ڈی اے نے حال ہی میں 99 سوسائٹیز کی ایک فہرست جاری کی ہے جنہیں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، اور یہ فہرست سی ڈی اے کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ غوری ٹاؤن اور فیصل ٹاؤن بھی اس فہرست میں شامل ہیں، اس کے باوجود ان میں تعمیراتی کام جاری ہے اور لوگ ان سوسائٹیز میں مکانات بھی بنا رہے ہیں۔

ریئل اسٹیٹ کے بزنس سے تعلق رکھنے والے اور کمیونٹی کے ایک نمائندہ سردار طاہر محمود کہتے ہیں، ''صرف لسٹ جاری کرنا اداروں کا کام نہیں بلکہ وہ ان ہاؤسنگ سوسائٹیز کو پنپنے کیوں دیتے ہیں کہ وہ لوگوں کا نقصان کر سکیں۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا امکان، اسپیکر نے شیخ وقاص کیخلاف کارروائی روک دی
  • کیا پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا احتساب شروع ہو گیا ہے؟
  • داتا دربارکے 982 ویں سالانہ عرس کی 3 روز تقریبات شروع
  • باجوڑ میں آپریشن شروع ہوچکا، یہ آپریشنز خیبرپختونخوا کی معدنیات پر قبضے کیلئے ہو رہے ہیں، رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر
  • برکینا فاسو پاکستان کیلئے افریقہ کی وسیع ترین مارکیٹ تک رسائی کا موثر ذریعہ بن سکتا ہے،عاطف اکرام شیخ
  • نئی جدید اور ہائی ٹیک صنعتوں کیلئے ہنر مند افرادی قوت کی تیاری کےلئے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں، عاصم منیر
  • حکومت اور زائرین کمیٹی کے درمیان اہم اجلاس، زائرین کو روانہ کرنے کیلئے فوری اقدامات کا فیصلہ
  • عوام کی آواز نہیں سنیں گے تو ملک اور جمہوریت کیلئے سنگین خطرات ہوں گے، بیرسٹر گوہر
  • نیشنل بینک کی شاندار آفر، گھرمیں سولر سسٹم لگائیں کم ترین فکسڈ ریٹ پر
  • خیبر پختونخوا: جرگے کی ناکامی کے بعد باجوڑ میں آپریشن شروع، لیکن جرگہ ناکام کیوں ہوا؟