آل پارٹیز حریت کانفرنس جموں و کشمیر کے کنونیئر غلام محمد صفی نے کہا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قراردیا تھا۔ انسان آنکھوں کے بغیر اورمعذوری کی حالت میں بھی زندہ رہ سکتا ہے لیکن شہ رگ کٹنے کی صورت میں کوئی شخص زندہ نہیں رہ سکتا، کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔

جامعہ کراچی میں ’نوآبادیاتی نظام کے اثرات، کشمیر کی شناخت اور علاقائی تنازع‘ کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پارٹیشن پلان کے تحت اگرچہ مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان بننا تھا اور غیرمسلم اکثریتی علاقوں کو ہندوستان بننا چاہیے تھا لیکن ایسانہیں ہونے دیا گیا کیونکہ ہندو اور انگریز قائداعظم کے دو قومی نظریے کے فلسفہ کو مات دینا چاہتے تھے اور اس کے برعکس وہ یہ بار آور کرانا چاہتے تھے کہ مسلم اکثریتی والا یہ علاقہ جموں و کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے اور دو قومی نظریہ کی نفی کرنا چاہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں ہندوتوا کے ماننے والے کبھی مذاکرات سے مسئلہ کشمیر حل نہیں کریں گے، حافظ نعیم الرحمان

انہوں نے کہاکہ 1947 سے لے کر آج تک مسئلہ کشمیر پر 5 لاکھ سے زیادہ لوگ شہید ہوچکے ہیں لیکن یہ مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا جس کی وجہ ہندوستان کی ہٹ دھرمی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک سے جتنی بھی تجاویز آئیں اسے ہندوستان ماننے کو تیار نہیں اور وہ کہتا ہے کہ میرا قبضہ ہے بس اتنا کافی ہے۔

غلام محمد صفی نے مزید کہاکہ پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے لیکن مسئلہ کشمیر کے اب تک حل نہ ہونے کی ایک وجہ حکومت پاکستان کی پالیسیوں میں تسلسل کا نہ ہونا بھی ہے جبکہ ہندوستان کی پالیسیوں میں تسلسل ہے۔ ہندوستان غلط بیانی کرتا ہے کہ جموں و کشمیر میرا اٹوٹ انگ ہے لیکن شروع سے لے کراب تک ایک ہی بیانیہ پر قائم ہے ان کا صدر، وزیراعظم جب بھی بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے اور غلط پر جمے ہوئے ہیں جبکہ ہمارا بالکل واضح اور صحیح مؤقف کہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا جائے، اگروہ رائے شماری میں پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہماری سر آنکھوں پر۔

انہوں نے کہاکہ 1989 کے بعد ہم نے ہندوستان کو ٹف ٹائم دینا شروع کردیا۔ جس کے لیے وہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کے اس کے پیچھے پاکستان ہے۔ ہماری جدوجہد حق خودارادیت کی جدوجہد ہے جبکہ ہندوستان جموں و کشمیرمیں قبرستان جیسی خاموشی چاہتاہے۔

انہوں نے طلبا و طالبات کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح لوگ فلسطین کے لیے نکلتے ہیں اور فلسطینیوں کی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، اسی طرح دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی انصاف پسند افراد موجود ہیں وہ کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کریں، یہ ان پر فرض بھی اور ان کے اوپر ایک قرض بھی ہے۔

غلام محمد صفی نے کہاکہ ہندوستان کا طریقہ واردات جموں و کشمیرکے نوجوانوں کو قتل، خواتین کو بے آبرو کرنا اور لوگوں کو کشمیر سے دھکے دے کے کر باہر نکالنا ہے، انہیں ہجرت پر مجبور کرنا اور ان کی زمینوں کو اسی طرح چھیننا ہے جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمینوں کو چھینا اور انہیں بے گھر اور دربدر کردیا۔

انہوں نے کہاکہ ہندوستان کا مقصد جموں و کشمیر میں مسلمانوں کو نہیں بلکہ ہندوؤں اور اُردو کی جگہ ہندی دیکھنا چاہتاہے۔ وہ کشمیر میں پاکستان کا نہیں بلکہ ہندوستان کا پرچم دیکھنا چاہتے ہیں۔

آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کے سینیئر رہنما الطاف حسین وانی نے کہاکہ جموں و کشمیراس وقت کشمیر میں بھارتی حکومت کا کشمیر کو نوآبادی بنانے کا حربہ عوام کو بے زمین، بے روزگار اور بے گھر کرنا ہے تاکہ وہ بھارتی تسلط کے سامنے سر تسلیم خم کرسکیں۔ جب پاکستان میں سی پیک کا آغاز ہوا تو یہ ابھی شروع ہونا باقی تھا لیکن ہندوستان اور مختلف یونیورسٹیوں میں انہوں نے سی پیک پر پی ایچ ڈی شروع کی تاکہ مغرب کو یہ تصور دیا جا سکے کہ یہ سب آپ کے خلاف ہے اوریہ اقتصادی راہداری امریکی اور مغربی مفاد ات کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہاکہ یہ ہر پاکستانی اور ماہر تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کی فالٹ لائنز پر سوچیں اور ایک فالٹ لائن کشمیر ہے اور کشمیر کے حقیقی سبب پر پاکستان کی ہر جامعہ میں بحث ہونی چاہیے اور اس پر لکھنا چاہیے اور ان کا کشمیر پر ریسرچ سینٹر ہونا چاہیے۔

الطاف حسین وانی نے مزید کہاکہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ الیکشن کو ہم تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ الیکشن 10 لاکھ فوج کی موجودگی میں بندوق کے سائے میں لڑے گئے۔ بھارت نے 5 اگست 2019 کو قلم کے ایک جھٹکے سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور کشمیری عوام کو ان کی شناخت سے محروم کیا۔

انہوں نے کہاکہ ہم سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور بھارت بھی یہ جانتا ہے کہ کشمیر میں جدوجہد جاری رہے گی۔ ان کی تمام فوجی طاقت کشمیر میں جدوجہد آزادی کو روکنے میں ناکام رہی ہے اور ہندوستان نے جھوٹ کا ایک پورا مجموعہ پھیلایا ہوا ہے۔

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہاکہ کشمیر کا مسئلہ زمین یا خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ 10 ملین لوگوں کا مسئلہ ہے، ان کے حقوق، حق خودارادیت اور آزادی کا مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے بین الاقوامی اسٹینڈرز نظر نہیں آتے۔ ہمیں نتائج کی پرواہ کیے بغیر حق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ میں کشمیری ماؤں کو سلام پیش کرتا ہوں جو آزادی کے حصول کے لیے اپنے جگر کے ٹکڑوں کے نذارنے پیش کرتے کرتے نہیں تھکتی۔ اپنی اولاد کی جان کے نذرانے پیش کرنا آسان کام نہیں لیکن کشمیری مائیں اس پر فخرکرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی پہلی قرارداد کے 76 سال، کچھ بھی تو نہ بدلا

ڈاکٹر خالد عراقی نے مزید کہاکہ بھارت نے کشمیر پر جو مظالم ڈھائے ہوئے ہیں وہ انسانیت کے لیے شرمندگی ہے، کشمیر کا مسئلہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو جموں و کشمیر کی تاریخ اور اس کی پاکستان کے لیے اسٹرٹیجک اہمیت کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ناگزیر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بھارت پاکستان جامعہ کراچی غلام محمد صفی کشمیر سیمینار مسئلہ کشمیر وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارت پاکستان جامعہ کراچی غلام محمد صفی مسئلہ کشمیر وی نیوز انہوں نے کہاکہ غلام محمد صفی مسئلہ کشمیر ہندوستان کا کشمیر کے کہ کشمیر کا مسئلہ اور ان ہے اور کے لیے

پڑھیں:

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان

ڈاکٹر سلیم خان

اسرائیل کے وزیر اعظم نے قطر میں حملہ کرکے ہمام الحیہ سمیت پانچ لوگوں کو شہید تو کردیا مگر اپنے مقصد کی حصولیابی میں ناکام رہا کیونکہ اس کا اصل ہدف تو حماس رہنما خلیل الحیہ تھے جو اپنے ساتھیوں سمیت زندہ بچ گئے لیکن اس حماقت نے نیتن یاہو سمیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رسوا کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ آخرنیتن یاہو پر اچانک اس خودکش حملے کا جنون کیوں سوار ہوا؟ اسرائیل کے اندر ہونے والے احتجاج کا دباؤ کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے پہلے دن 9ستمبر کو اس حرکت کے لیے منتخب کیا گیا ۔امسال کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے تمام 193رکن ممالک کی نمائندگی ہو رہی ہے جنہیں ایک ملک، ایک ووٹ” کی بنیاد پر برابر کا حق حاصل ہے ۔جنرل اسمبلی کے علاوہ سلامتی کونسل میں سبھی اراکین کو قراردادوں پر ووٹ دینے کے یکساں اختیارات حاصل نہیں ہے اور سب برابر بھی نہیں ہیں۔ چند مستقل ارکان ممالک کے پاس ویٹو کا حق ہے جس استعمال کرکے وہ سارے لوگوں کی آواز دبا دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اجلاس کا اس سال موضوع ہے :بہتر ساتھ:امن، ترقی اور انسانی حقوق کے لیے 80 سال اور اس سے بھی زیادہ۔یہ غیر معمولی اجلاس 29 ستمبر تک جاری رہے گا۔12 ستمبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے ‘نیویارک ڈیکلیئریشن’ کی منظوری دی تاکہ ‘مقررہ مدت کے اندر، ٹھوس، ناقابل واپسی اقدامات’ کیے جاسکیں ۔اجلاس میں اس قراراداد کے حق میں 142 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت 10 ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیا ۔ یہ خوش آئند ہے کہ بڑے دنوں کے بعد ہندوستان نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ۔ 22ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران غزہ کے معاملے پر عالمی رہنماؤں کا اجلاس ہو گا جس میں امکان ہے کہ برطانیہ فلسطین کو بطورِ ریاست تسلیم کر لے گا۔فرانس سمیت برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک نے اس دوران فلسطین کو تسلیم کرکے دو ریاستی حل پر زور دینے کا فیصلہ کیا تھا اور چونکہ دو تہائی اکثریت سے قرارداد منظور ہوئی ہے اس لیے فلسطین کو مبصر سے رکن کا درجہ مل جائے گا۔
اسرائیل قطر میں حماس پر حملہ کرکے فلسطین کی رکنیت کو اور بھی زیادہ اہم اور آسان بنادیا ہے ۔پچھلے سال یعنی 2024 میں اقوام متحدہ
کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو نئے "حقوق اور مراعات دینے کے لیے ووٹ دے کر سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسے اقوام متحدہ کا 194 واں رکن بنائے ۔اس قرارداد کو 143 بمقابلہ 9 ووٹوں کے فرق سے منظور کیا گیا جبکہ 25 ارکان غیر حاضر تھے ۔ مخالفین میں صرف امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ارجنٹینا، چیکیا، ہنگری، مائیکرونیشیا، ناؤرو، پلاوو اور پاپوا نیو گنی جیسے ممالک تھے لیکن اس ایک سال کے اندر غیر حاضر ممالک کی تعداد میں بڑی کمی ہوئی ہے اور اس میں فرانس و برطانیہ جیسے ویٹو والے ممالک ہوں گے ۔اسی طرح دو سال قبل 27 اکتوبر کو جنرل اسمبلی کی غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کے حق میں 120کے خلاف صرف 14 ووٹ پڑے تھے لیکن 45کی غیر حاضری بڑی رکاوٹ تھی یہ اعدادو شمار فلسطین کے حق میں رائے عامہ کی ہمواری کا ثبوت ہیں۔
امریکہ نے فلسطین کی رکنیت کو روکنے کے لیے اسے اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی براہِ راست بات چیت ، سرحدوں پر امن و سلامتی اور
یروشلم کے مستقبل سمیت اہم مسائل کے حل سے جوڑ دیا ۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے ‘نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی’ اس طرح کی شرائط لگا کر
تو روس اور یوکرین کی رکنیت بھی ختم کردینی چاہیے لیکن اس کا تو تصور بھی محال ہے کیونکہ روس ویٹو کی طاقت رکھنے والا ملک ہے اور یوکرین
مغرب کا حلیف یا آلۂ کار ہے ۔ اس لیے ان پر امریکہ بہاد ر یہ شرائط نہیں رکھے گا۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت اسرائیل کی علامتی
شکست ہونے کے سبب اہمیت کی حامل ہے ۔ اسی لیے امریکہ نے 18اپریل کو وسیع پیمانے پر حمایت یافتہ کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا ۔
سلامتی کونسل کی اس ووٹنگ میں، فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے بہت زیادہ حمایت ملی تھی ۔ اس کے حق میں 12ووٹ پڑے تھے مگر برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے حصہ نہیں لیا تھا اور ریاستہائے متحدہ نے قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔اس لیے کہنا پڑے گا کہ اقوام متحدہ کی ماں جمعیت اقوام کے بارے میں علامہ اقبال نے جو کہا تھا وہ اب بیٹی پر بھی صادق آتا ہے
بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے
یہ عجیب منافقت ہے کہ 144ممالک فلسطین کی ریاست کو تسلیم تو کرتے ہیں مگر اقوام متحدہ میں رکنیت کی حمایت نہیں کرتے ۔ اس سے قبل امریکی اتحادیوں میں سے فرانس، جاپان، جنوبی کوریا، اسپین، آسٹریلیا، ایسٹونیا اور ناروے نے فلسطین حمایت کی تھی مگر یورپی ممالک اس پر آمادہ نہیں تھے ۔ یہ فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کے روس اور چین، اس لیے بھی حامی ہیں کیونکہ اس طرح روس کے لئے کوسوو اور چین کے لئے تائیوان کو رکن بنانے میں آسانی ہوگی ۔ اس بار یوروپ کی برف پگھلی ہے ۔ جولائی میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس اقوام متحدہ کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ فرانس کے وزیر خارجہ جین نول باروٹ نے اقوام متحدہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے سیاسی حل کا وقت آ گیا ہے لیکن اس کے لیے عالمی طاقتوں کو کام کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا تھا کہ ، ”یوروپی یونین کی جانب سے یوروپی کمیشن کو اپنی توقعات کا اظہار کرنا ہو گا۔ اسے یہ بھی دکھانا ہو گا کہ ہم اسرائیلی حکومت کی اس اپیل کو سننے کے لیے کس طرح حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔
جولائی کے اواخر میں اقوام متحدہ کے فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے منعقدہ مشترکہ اجلاس میں کی گئی تھی۔ عشروں پرانے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ملکی حل پر اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے پہلے دن پرفرانسیسی وزیر خارجہ باروٹ نے مندجہ بالابیان دیا تھا ۔ اس اجلاس کی صدارت کرنے والے فرانس نے یوروپی یونین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل پر فلسطینیوں کے ساتھ دو ملکی حل پر رضامندی کے لیے دباؤ ڈالے ۔ یہ فرانس کی طرف سے ایک تیز حملہ تھا کیونکہ وہ فلسطین کو ایک قوم کے طور پر تسلیم کرنے کے وعدے کے چند دن بعد ہی غزہ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہاہے ۔ فرانس کی جانب سے اس صدائے امن کے جواب میں ایک درجن سے زیادہ دیگر مغربی ممالک نے
دوسرے ملکوں سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بیلجیئم نے امسال 9 ستمبر سے شروع ہو رہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے خلاف سخت پابندیاں بھی عائد کردی ۔ بیلجیئم کے وزیر خارجہ پریوٹ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ غزہ میں رونما ہونے والے انسانی المیے کے پیش نظر کیا گیا ہے ، جہاں اسرائیلی جارحیت زیادہ تر آبادی کو کم از کم ایک بار بے گھر کر چکی ہے اور اقوام متحدہ نے قحط اور بھکمری کو تسلیم کیا ہے ۔
بیلجیئم کے وزیر خارجہ پریوٹ نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا، ”اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نسل کشی کے کسی بھی خطرے کو روکنے کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بیلجیئم کو اسرائیلی حکومت اور حماس کے ‘دہشت گردوں’ پر دباؤ بڑھانے کے لیے سخت فیصلے لینے پڑے ۔یہ اسرائیلی عوام کو سزا دینے کے بارے میں نہیں ہے ، بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے بارے میں ہے کہ ان کی حکومت بین الاقوامی اور انسانی قانون کا احترام اور پاسداری کرے جو اس کے برعکس زمینی صورت حال کو تبدیل کرنے کی کارروائیوں میں مصروف ہے ۔امسال 31جولائی (2025)کو فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشروط اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مالٹا نے طویل عرصے سے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کی ہے اور ”ذمہ دار ملک کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ ہم دو ریاستی حل کے تصور کو نظریہ سے عملی شکل دینے کے لیے کام کریں۔ کینیڈا کے صدر میک کارنی نے کہا کہ ”کینیڈا اس حقیقت کی مذمت کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں تباہی پھیلانے کی اجازت دے رکھی ہے ۔ اس پر اسرائیل کو ایسی مرچی لگی کہ اس کے وزارت خارجہ نے لکھا ”کینیڈین حکومت کی پوزیشن میں تبدیلی حماس کے لیے انعام ہے اور غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے ۔
امریکہ کی موجودہ ٹرمپ انتظامیہ نے بھی مغربی ممالک کے ان اعلانات کے خلاف اسرائیلی موقف کو اختیار کرتے ہوئے اسے حماس کے لیے انعام قرار دیا، نیز اسے غلط وقت میں اٹھایا گیا قدم بتایا۔ اپنے بین الاقوامی حلیفوں کے پیٹھ پھیر لینے سے بے چین ہوکربن یامین نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کی ابتداء میں ہی قطر کے اندر یہ ناکام حملہ کرکے مغربی ہمدردوں کواور بھی دور کردیا ہے ۔ فرانس اور سعودی عرب کے مشترکہ صدارت سے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ملکی حل پر اقوام متحدہ کے نیویارک دفتر میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس نے اسرائیل کے ہوش اڑا دئیے ہیں ۔برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جرمنی اور فرانس میں اپنے ہم منصبوں سے لڑائی کو روکنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے ۔ انہوں نے کہا تھاکہ جنگ بندی ”ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے راستے پر ڈالے گی۔ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے ناقدعالمی رہنما مل کر نیتن یاہو کے ذریعہ تباہ کرنے کی کوشش کا مقابلہ دو ریاستی حل سے کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • امیر مقام کا پروفیسر عبد الغنی بٹ کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان
  • جنگ میں 6 جہاز گرنے کے بعد بھارت کھیل کے میدان میں اپنی خفت مٹا رہا ہے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • ریاست کے خلاف کوئی جہاد نہیں ہو سکتا، پیغام پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے ،عطاء تارڑ
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار
  • مظفر آباد، آل پارٹیز حریت کانفرنس کے زیراہتمام سیمینار
  • سید علی گیلانی کی چوتھی برسی، آل پارٹیز حریت کانفرنس کا سیمینار
  • اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان
  • اسرائیل کو کھلی جارحیت اور مجرمانہ اقدامات پر کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی: ترک صدر