13 سالہ امریکی لڑکا سوشل میڈیا کا چیلنج قبول کرکے مارا گیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک 13 سالہ لڑکے کی موت کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اُس نے سوشل میڈیا پر پیش کیا جانے والی ایک انتہائی خطرناک چیلنج قبول کیا۔ اِسے بلیک آؤٹ چیلنج کہا جاتا ہے۔
لڑکے کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ ایک خطرناک چیلنج قبول کرکے کامیابی کے لیے کوشش کر رہا تھا۔ غیر معمولی نگرانی کے باوجود نمدی گلین اوہائری جونیر نے اپنے بڑوں سے اس سوشل میڈیا چیلنج کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اس کا سامنا کرنے کی ٹھانی۔ اُس کی موت امریکا میں بچوں کی تربیت اور نگرانی کے حوالے سے ایک بار پھر تند و تیز بحث شروع کرنے کا باعث بنی ہے۔
نمدی 3 فروری کو اپنے بیڈ روم انتہائی تشویش ناک حالت میں ملا تھا۔ یہ گریمی ایوارڈز کے دو دن بعد کی بات ہے۔ نمدی چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔
نمدی کو تشویش ناک حالت میں پاکر والدین نے فورا ہنگامی طبی امداد کے لیے کال کی۔ طبی ٹیم کے آنے تک اُنہوں نے نمدی کا تنفس بحال کرنے کی بہت کوشش کی۔ اُن کی کوششیں ناکام رہیں اور کچھ ہی دیر بعد نمدی کو مُردہ قرار دے دیا گیا۔
ابتدا میں ایسا لگ رہا تھا کہ نمدی نے خود کشی کی ہے مگر تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ سوشل میڈیا پر مقبولیت حاصل کرنے والے بلیک آؤٹ چیلنج کو قبول کرکے کامیابی کی کوشش کر رہا تھا۔ اس چیلنج نے امریکا میں اب تک بہت سے بچوں کی جان لی ہے۔
بلیک آؤٹ چیلنج میں حصہ لینے والوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا سانس روک لیں اور بالکل بے سُدھ ہوجائیں کیونکہ جب وہ دوبارہ سانس لینا شروع کریں گے تو اُن کی روح کو بلندی ملے گی اور وہ ایک عجیب ہی طرح کی مسرت محسوس کریں گے۔ یہ چیلنج سب سے پہلے 2021 میں ٹِک ٹاک پر نمودار ہوا تھا اور اِس نے بہت تیزی سے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی تھی۔ اِسے چوکنگ چیلنج بھی کہا جاتا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سوشل میڈیا چیلنج انتہائی خطرناک اور جان لیوا ہے۔ سینٹرز فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق جب یہ چیلنج پہلے پہل سوشل میڈیا پر نمودار ہوا تھا تب 82 بچے اِس میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کے دوران دم توڑ گئے تھے۔ اِن بچوں کی اوسط عمر 13 سال تھی۔ سانس روکنے سے دماغ کو غیر معمولی اور جان لیوا حد تک نقصان پہنچتا ہے۔ نمدی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نہیں تھے اِس لیے سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔
نمدی کی آخری رسوم 14 فروری کو ادا کی گئیں۔ سوگوار خاندان نے گو فنڈ می کے ذریعے آخری رسوم کے لیے 75 ہزار ڈالر جمع کیے
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا
پڑھیں:
’اداکار کریں تو فن، ہم کریں تو جہنمی‘، زاہد احمد کے بیان پر کانٹینٹ کریئٹرز کا شدید ردِعمل
اداکار زاہد احمد کے سوشل میڈیا اور کانٹینٹ کریئیٹرز سے متعلق سخت ریمارکس نے نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے، جس پر معروف ٹک ٹاکرز اور انفلوئنسرز نے شدید ردعمل دیا ہے۔
حال ہی میں اداکار زاہد احمد نے ایک پوڈکاسٹ میں سوشل میڈیا اور کانٹینٹ کریئیٹرز پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ سوشل میڈیا کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ان کے بقول یہ انسانوں کی سب سے خطرناک اور شیطانی ایجاد ہے اور جو لوگ اس پر مواد تخلیق کر رہے ہیں وہ جہنم میں جائیں گے، سوشل میڈیا انسانیت کی حقیقی فطرت کے بالکل برعکس ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کے طرزِ زندگی کے منافی ہے۔
ان کے سوشل میڈیا اور مواد تخلیق کرنے والوں کے حوالے سے دیے گئے یہ بیانات سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں اور ان پر کنٹینٹ کریئیٹرز کی جانب سے شدید برہمی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
ٹک ٹاکر علشبہ انجم نے زاہد احمد کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے اداکار کی کچھ اداکاراؤں کے ساتھ تصاویر شیئر کیں اور لکھا کہ اسلام کی بات کسی اور کی بیوی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کی جا رہی ہے، اسٹیج پر رقص اور انٹرویو میں دین۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ کانٹینٹ کریئیٹرز کو جہنمی کہہ رہے ہیں وہ خود اداکاراؤں کے ساتھ گلے مل رہے ہیں، اسٹیج پر رقص کر رہے ہیں اور اپنی نئی ناک کی سرجری کا فخر کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا انفلوئنسر عدنان ظفر المعروف ’کین ڈول‘ نے بھی زاہد احمد کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اداکار اپنے گنج پن کو چھپانے کے لیے مصنوعی بال لگائیں تو وہ خوبصورتی میں اضافہ کہلاتا ہے، جب کہ جب انفلوئنسرز یا مواد تخلیق کرنے والے ایسا کریں تو وہ جعلی کہلاتے ہیں، اداکار اپنی ناک کی سرجری کروالیں تو وہ بہتری ہے مگر جب ہم کرواتے ہیں تو وہ پلاسٹک کہلاتی ہے، اداکار اگر اسٹیج پر کسی بھی قسم کا رقص کریں تو وہ کارکردگی اور فن کہلاتی ہے، لیکن اگر وہی ہم کریں تو ہمیں توہین آمیز القاب دیے جاتے ہیں۔
View this post on Instagram
A post shared by Pakistani.Celebrities ???????? (@pakistani.celebrities)
ان کے مطابق اداکار غیر محرم لڑکیوں کے ساتھ ڈرامے کریں، مختلف کردار ادا کریں اور حتیٰ کہ عورت کا روپ بھی اختیار کریں تو وہ فن ہے، جب کہ جب مواد تخلیق کرنے والے ایسا کریں تو انہیں دوزخی کہا جاتا ہے۔
کین ڈول نے استفسار کیا کہ آیا انڈسٹری کے اندر کوئی نیا مذہب دریافت ہو گیا ہے یا کچھ نیا آ گیا ہے۔
کاننٹینٹ کریئیٹر زرناب فاطمہ نے بھی اس بیان پر انسٹاگرام اسٹوری میں لکھا کہ وہ عام طور پر کسی کی ذاتی رائے پر بات کرنے کے حق میں نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ اداکار کر رہے ہیں کیا وہ اسلام کے مطابق ہے؟ کیا وہ لوگوں کو دین کی صحیح تعلیم دے رہے ہیں؟
ان کے مطابق خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا ایک بیماری ہے اور یہی اوصاف انہیں لاحق ہیں، انسان کو خود پر اتنا قابو ہونا چاہیے کہ اسے معلوم ہو کہ وہ دوسروں کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے۔
ٹک ٹاکر کنول آفتاب نے بھی انسٹاگرام اسٹوری پر زاہد احمد کے پوڈکاسٹ کا کلپ شیئر کرتے ہوئے ایسے لوگوں پر تنقید کی جو خود اپنے اعمال پر نظر نہیں ڈالتے اور دوسروں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔
اداکار اور کنٹینٹ کریئیٹر خاقان شاہنواز نے بھی زاہد احمد کے بيان پر ردعمل دیتے ہوئے انسٹاگرام پر ویڈیو شیئر کی، جس میں انہوں نے کہا کہ زاہد احمد نے کچھ حد تک ٹھیک کہا ہے کہ خدا انہیں پسند نہیں کرتا جو بہت زیادہ نمائش کرتے ہیں، یعنی وہ لوگ جو خود کو حد سے زیادہ ظاہر کرتے ہیں۔
View this post on Instagram
A post shared by Khaqan Shahnawaz (@khaqanshahnawaz)
تاہم ان کا مؤقف تھا کہ خدا کے فیصلے کے بغیر یہ طے کرنا کہ کون جہنم میں جائے گا اور کون جنت میں درست نہیں، کیونکہ اس کا فیصلہ صرف خدا ہی کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ بہتر یہ ہوتا کہ زاہد احمد اپنی بات کی مکمل وضاحت کرتے، یعنی یہ بتاتے کہ خدا خودنمائی یا نمائش کو کیوں پسند نہیں کرتا اور اس کے کیا نقصانات ہیں، نہ کہ عمومی الزام لگا دیا جائے کہ سارے کنٹینٹ کریئیٹرز جہنمی ہیں۔