علی حیدر کو پاکستان چھوڑ کر کیوں جانا پڑا؟ گلوکار نے وجہ بتا دی
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
گلوکار علی حیدر کا کہنا ہے کہ ان کیلئے پاکستان میں رہنا غیر محفوظ ہوگیا تھا اس لئے انہیں ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔
علی حیدر حال ہی میں احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں شریک ہوئے جہاں انہوں نے موسیقی سے دور ہونے اور اپنی نجی زندگی کے حوالے سے کھل کر گفتگو کی۔
گلوکار نے بتایا کہ انہوں نے پاپ میوزک چھوڑ کر نعتیں، حمد و ثنا اور منتقبت پڑھنا شروع کردی تھی گانوں کی طرف ان کا رجحان کم ہوگیا تھا جس کے بعد ان کیلئے حالات مشکلات سے بھر گئے اور انہیں دھمکیاں موصول ہونے لگیں۔
علی حیدر نے بتایا کہ ان کے والد کا پرنٹنگ پریس تھا جو ان کو بند کرنا پڑا اور وہ گھر بیٹھ گئے کیونکہ دھمکیوں کی وجہ سے وہ بھی غیر محفوظ اور ان کے اہل خانہ بھی جس کے بعد ان کی والدہ نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ملک چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔
گلوکار نے بتایا کہ ایک پرانے دوست جن کے ہمراہ وہ کئی کنسرٹسٹ کر چکے تھے، نے انہیں امریکہ بُلا لیا اور وہ کام کیلئے وہاں گئے تاہم بیوی بچوں کے ساتھ وہیں سیٹل ہوگئے اور اب وہ وہاں ریڈیو شوز کرتے ہیں۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔