اسلام آباد:سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمرباجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیے۔
دوران سماعت سابق آرمی چیف جنرل قمر باوجوہ توسیع کے جسٹس منصور شاہ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ سلمان راجہ نے دلائل میں بھارت کا حوالہ دیا، سلمان راجہ نے کہا بھارت میں ملٹری ٹرائل کیخلاف آزادانہ ٹربیونل میں اپیل جاتی ہے، بھارت میں اپیل کا حق پارلیمنٹ نے قانون سازی کے زریعے خود دیا یا عدالتی ہدایات تھیں۔
عزیر بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے کلبھوشن یادیو کی مثال موجود ہے، کلبھوشن کو خصوصی قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق دیا گیا، اپیل کا حق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سبب دیا گیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ میں نے ماتحت عدلیہ کے ججز سے متعلق ایک فیصلے میں تجویز دی، میری تجویز پر ہائیکورٹ کے ججز کی کمیٹی بنی اور ماتحت عدلیہ کے ججز کے ٹیسٹ انٹرویو شروع ہوئے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس بھی موجود ہے، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون نہیں تھا، سپریم کورٹ کی ہدایات پر پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی توسیع کیلئے قانون سازی کی۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس وقت ایک نوٹیفکیشن کیلئے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے، یہ تو ہماری حالت تھی۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایف بھی علی کیس میں اعتزاز احسن صاحب نے آپ کو بتایا کہ ٹرائل کیسے ہوتا تھا، فئیر ٹرائل تو دور کی بات، جیل ٹرائل میں کاغذ کا ٹکڑا تک نہیں لے جانے دیا جاتا اس پرجسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں لے کے جانے دیتے تو خط کہاں سے آجاتے ہیں؟
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ہاں ہاں آج کل تو خطوں کا تنازع بھی چل رہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ صرف بنیادی حقوق کے معاملے پر دلائل دیں۔
عزیر بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ کورٹ مارشل میں تو موت کی سزا بھی سنائی جاتی ہے، نہ جج کی کوئی معیاد، نہ ٹریننگ اور نہ ہی قانونی سمجھ بوجھ ہوتی ہے، سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا جاتا، صرف آرمی چیف سے رحم کی اپیل کی جاسکتی ہے، ہائیکورٹ میں رٹ کے دائرہ اختیار کو استعمال کیا جاسکتا ہے مگر وہ محدود ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کی مدت ملازمت میں توسیع جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ عزیر بھنڈاری نے سپریم کورٹ اپیل کا حق ا رمی چیف دیا گیا نے کہا

پڑھیں:

نور مقدم قتل کیس، ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا تحریری فیصلہ جاری

سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

سپریم کورٹ کا تفصیلی تحریری فیصلہ 13 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا کہ سائلنٹ وِٹنس تھیوری کے مطابق بغیر عینی گواہ کے ویڈیو ثبوت قابلِ قبول ہیں، مستند فوٹیج خود اپنے حق میں ثبوت بن سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ریکارڈ شدہ ویڈیو یا تصاویر بطور شہادت پیش کی جاسکتی ہیں، قابلِ اعتماد نظام سے لی گئی فوٹیج خود بخود شہادت بن سکتی ہے، ایک بینک ڈکیتی کیس میں ویڈیو فوٹیج بغیر گواہ کے قبول کی گئی۔

عدالتی فیصلے کے مطابق امریکی عدالتوں میں سائلنٹ وِٹنس اصول کو وسیع پیمانے پر تسلیم کرلیا گیا ہے، ملزم ظاہر جعفر ہمدردی کے قابل نہیں، وہ نور مقدم کا بےرحم قاتل ہے، دونوں نچلی عدالتوں کے فیصلے متفقہ طور پر درست قرار دیے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے نور مقدم قتل کیس، مجرم ظاہر جعفر کی اپیل مسترد، سزائے موت برقرار نور مقدم قتل کیس، مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت کیخلاف اپیل پر سماعت 19 مئی تک ملتوی

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم کی جانب سے نور مقدم پر جسمانی تشدد کی ویڈیو ثبوت کے طور پر پیش کی گئی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج، ڈی وی آر اور ہارڈ ڈسک قابلِ قبول شہادت ہیں، ویڈیو ریکارڈنگ میں کوئی ترمیم ثابت نہیں ہوئی اور ملزم کی شناخت صحیح نکلی، ڈی این اے رپورٹ سے زیادتی کی تصدیق ہوئی اور آلہ قتل پر مقتولہ کا خون موجود ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم نور مقدم کی موجودگی کی کوئی وضاحت نہ دے سکا، ڈیجیٹل شواہد اب بنیادی شہادت تصور کیے جاتے ہیں، اگر سی سی ٹی وی فوٹیج مقررہ معیار پر پوری اترے تو تصدیق کی ضرورت نہیں، ظاہر جعفر کی قتل میں سزائے موت برقرار جبکہ زیادتی کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوئی۔

مرکزی مجرم ظاہر جعفر کو اغواء کے الزام سے بری قرار دیا گیا ہے جبکہ نور مقدم کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھنے پر ظاہر جعفر کی سزا برقرار رکھی گئی ہے، شریک ملزمان محمد افتخار اور محمد جان کی سزا برقرار ہیں۔

علاوہ ازیں عدالت نے شریک ملزمان سے نرمی برتتے ہوئے جتنی قید کاٹ لی اس کے بعد رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جسٹس علی باقر نجفی فیصلے کے حوالے سے اپنا اضافی نوٹ دینگے۔

متعلقہ مضامین

  • فوجی عدالتوں کا دائرہ کار متنازع، لاہور ہائیکورٹ بار نے نظرثانی کی اپیل دائر کر دی
  • میرا کوئی سیاسی مقصد ہے نہ کسی کیساتھ ناانصافی ہونی چاہئے: قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
  • وفاقی بجٹ دکھاوا ہے، عوام کو ریلیف نہیں ملا، صدر سپریم کورٹ بار
  • بجٹ میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا اب مزید مہنگائی ہوگی، سپریم کورٹ بار
  • نور مقدم قتل کیس، ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا تحریری فیصلہ جاری
  • یہی تو دکھ ہے ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگوں کی قدر نہیں، جج سپریم کورٹ کے ریمارکس
  • اسسٹنٹ پروفیسر اصغر علی پر سندھ ہائیکورٹ کے جرمانے کا فیصلہ کالعدم قرار
  • پشاور‘ سپریم کورٹ پولیس کے زیر استعمال مال مقدمہ گاڑیوں پر برہم، تفصیلات طلب
  • پشاور: سپریم کورٹ پولیس کے زیر استعمال مال مقدمہ گاڑیوں پر برہم، تفصیلات طلب
  • سپریم کورٹ: قائد عوام یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر کا جرمانہ ختم، مضمون کی تبدیلی پر اعتراض مسترد