افغانستان: 20 مرد و خواتین کو مختلف الزامات پر سرِ عام کوڑوں کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک — افغانستان میں طالبان حکومت نے مختلف جرائم میں ملوث 20 افراد کو سرِ عام کوڑے مارے ہیں۔ سزا پانے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔
صوبہ خوست میں مختلف جرائم میں ملوث 18 افراد کو کوڑ ے مارے گئے جب کہ ان کو قید کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔
صوبائی فوجداری عدالت کے فیصلے کے مطابق چار افراد کو ہم جنس پرستی جب کہ 14 افراد کو ناجائز تعلقات کے الزامات میں سزا دی گئی جن میں چار خواتین بھی شامل ہیں۔
سزاؤں کے نفاذ کے موقع پر صوبائی ثالثی عدالت کے چیئرمین الحاج مفتی امین اللہ، اربن کورٹ کے چیف مولوی نقیب اللہ اور عام شہری موجود تھے۔ بیان کے مطابق یہ سزائیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دی گئی ہیں۔
صوبہ خوست سے تعلق رکھنے والے صحافی یوسف منگل کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے دی جانے والی سزائیں کسی گراونڈ یا چوراہے پر نہیں بلکہ سرکاری عمارت کے احاطے میں دی گئی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے نذر الاسلام سے گفتگو میں یوسف منگل نے کہا کہ اس سرکاری عمارت کے احاطے میں عام شہریوں کا داخلہ منع تھا۔ وہاں جانے والے کسی بھی فرد کو کیمرا یا موبائل لانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نوعیت کے واقعات کی کوئی ویڈیو یا تصویر منظرِ عام پر نہیں آتی۔
یوسف منگل نے بتایا کہ اس سے قبل بھی خوست میں کوڑے مارنے کی سزائیں دی جا چکی ہیں۔ لیکن ان پر عمل درآمد کے وقت عوامی رسائی محدود رکھی جاتی ہے۔ تاہم ان واقعات کے بارے میں مقامی سطح پر بات چیت ضرور ہوتی ہے جس سے خوف و ہراس پھیل جاتا ہے۔
یوسف منگل کا کہنا تھا کہ طالبان کی شرعی سزاؤں کے درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کیوں کہ وہ خود بھی ان معاملات کو زیادہ نمایاں نہیں کرتے۔
صوبہ خوست کے ساتھ ساتھ صوبہ پروان میں دو افراد کو کوڑوں کی سزا دی گئی ہے جب کوڑوں کی سزا دی جا رہی تھی تو یہ منظر دیکھنے کے لیے مقامی آبادی، عدلیہ اور طالبان حکومت کے عہدیداران موجود تھے۔
جن افراد کو سرِ عام سزا دی گئی اُن پر زنا اور ناجائز یا غیر فطری تعلقات قائم کرنے کے الزامات تھے۔
افغان طالبان کی سپریم کورٹ کے مطابق تمام مجرموں کو 39، 39 کوڑوں کی سزا دی گئی ہے جب کہ ان افراد کو ایک سے سات برس کے درمیان قید کی سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔
طالبان نے 2021 میں افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سینکڑوں مردوں اور خواتین کو عوامی طور پر کوڑے مارنے کی سزا دی ہے جن میں زیادہ تر افراد پر زنا، بھاگ کر شادی کرنے، ناجائز تعلقات، چوری یا ڈکیتی جیسے جرائم کے الزامات تھے۔
افغان طالبان کی اعلیٰ عدالت کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق صرف فروری کے مہینے میں اب تک 86 شہریوں کو دی گئی کوڑوں کی سزا پر عمل ہوا ہے جن میں 17 خواتین بھی شامل ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے طالبان کی شہریوں کو جسمانی ایذا پہنچانے والی سزا کی مذمت کی ہے اور اس طرح کی سزاؤں کو بین الاقوامی قوانین اور انسانی وقار کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے طالبان سے اس عمل کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان اپنی حکومت کے نظامِ انصاف اور مجموعی طرزِ حکمرانی کا دفاع کرتے ہیں۔ طالبان کہتے ہیں کہ ان کی لاگو کردہ سزائیں اسلامی قوانین یا شریعت کے مطابق ہیں۔ وہ ان سزاؤں کے عمل درآمد پر تنقید کو غلط فہمی قرار دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افراد کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان کابل سمیت ملک بھر پر قابض ہو گئے تھے اور اس کے بعد انہوں نے وہاں عبوری حکومت قائم کی تھی۔
طالبان کی عبوری حکومت کو تاحال کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
طالبان نے خواتین کی تعلیم اور روزگار تک رسائی پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس سے وہ عوامی زندگی سے مکمل طور پر دور ہو گئی ہیں۔
افغانستان میں لڑکیوں کی چھٹی جماعت سےآگے تعلیم کے حصول پر پابندی عائد ہے جب کہ خواتین کے لیے روزگار کے مواقع بھی محدود کر دیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین کے تنہا پبلک پارکوں جانے پر بھی پابندی ہے جب کہ انہیں 70 کلومیٹر سے زائد سفر کے لیے محرم مرد کے ساتھ ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں طالبان کی ان پالیسیوں کو خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں۔ تاہم طالبان اسے اسلامی قوانین کے مطابق قرار دیتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے طالبان کے خواتین کے حوالے اسے اقدامات کو "جنسی امتیاز’ قرار دیا ہے۔ طالبان کی خواتین پر عائد ان پابندیوں کو ختم کرنے کے مسلسل مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: خواتین کے یوسف منگل طالبان کی کی سزا دی کے مطابق افراد کو گئی ہیں
پڑھیں:
طالبان افغانستان کو قبرستان بنائے رکھنا چاہتے ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251101-03-6
وجیہ احمد صدیقی
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخی طور پر پیچیدہ اور کشیدہ رہے ہیں، جن کی جڑیں دیرینہ سیاسی، جغرافیائی اور علاقائی مسائل میں ہیں۔ پاکستان نے اپنی خودمختاری اور قومی سلامتی کا دفاع کرتے ہوئے متعدد بار افغان سرزمین سے سرحد پار دہشت گردی کی کوششوں کی مذمت کی اور افغانستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس تنازعے میں بھارت کا کردار بھی نہایت منفی اور پراثر ہے جو طالبان کو پاکستان مخالف کارروائیوں کے لیے اُکساتا ہے۔ مگر افغانستان کا قیام اور اس کا مستقبل اقتصادی و جغرافیائی حوالے سے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات پر منحصر ہے کیونکہ یہ ایک لینڈ لاک ملک ہے جسے سمندر تک رسائی کے لیے پاکستان یا ایران کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
تاریخی تناظر یہ بتاتا ہے کہ سرحدی جھڑپیں اور ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ تنازع 1947 میں پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی ہے۔ افغانستان نے پاکستان کے مغربی سرحدی معاہدے ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکار کیا۔ حالانکہ اس معاہدے پر افغان حکومت کے دستخط ہیں۔ اس سرحد کو لے کر کئی مرتبہ دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپیں اور چھوٹے اور بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ 1949-50 میں افغان فوجیوں اور قبائلی ملیشیاؤں کی طرف سے بلوچستان میں مبینہ حملوں کے واقعات سامنے آئے، جس پر پاکستان نے سخت ردعمل دیا۔ اس کے بعد 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بھی متعدد بار کشیدگی بڑھی اور سرحد پر لڑائیاں ہوئیں۔ 2020 کی دہائی میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ 2024 اور 2025 میں بار بار سرحد پر فائرنگ، بمباری اور عسکری جھڑپوں کی خبریں آتی رہیں، جن میں دونوں ملکوں کے فوجی اہلکار اور غیر فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ ان جھڑپوں کا پس منظر مخصوص دہشت گرد گروہوں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی کا افغان سرزمین پر محفوظ ٹھکانے رکھنا ہے جو پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ اس دوران دونوں ملکوں نے کئی بار جنگ بندی کی کوشش کی لیکن دیرپا امن قائم نہیں ہو سکا۔ افغان طالبان کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ افغانستان بڑی طاقتوں کا قبرستان ہے۔ لیکن ان جنگوں نے سوویت یونین سے لے کر امریکا کی مداخلت تک افغانستان کو ہی قبرستان بنا دیا ہے۔ تو طالبان کیا افغانستان کو مسلسل قبرستان ہی کی حیثیت دیے رکھنا چاہتے ہیں یا وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوئی کام کریں گے یا محض اپنے سارے پڑوسیوں سے جھگڑے کرتے رہیں گے؟ ان کا کوئی بھی پڑوسی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ ان کا سرحدی یا پانی کا تنازع نہ ہو۔ طالبان دہشت گردوں کو پناہ دے کر اپنے لیے ہی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ اس لیے وقت کا تقاضا یہ ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی جمہوری حکومت آئے جو افغان عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے اور اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرے۔ طالبان کی موجودگی میں افغان عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی امکان نہیں ہے۔
دہشت گردی کی مذمت میں پاکستان کا واضح موقف ہے کہ سرحد پار دہشت گردی انتہائی ناقابل قبول ہے اور اس کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ پاکستان نے افغان طالبان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بنائیں۔ پاکستان کی فوج اور سیکورٹی ادارے مسلسل سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کر رہے ہیں تاکہ سرزمین کی حفاظت کی جا سکے۔ پاکستان کی یہ پالیسی ملکی سلامتی کے تناظر میں بالکل جواز رکھتی ہے اور عالمی قوانین کے مطابق بھی مستحسن ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی وجہ سے ہزاروں شہری اور فورسز کے اہلکار جان سے گئے۔ یہ حملے نہ صرف انسانی جانوں کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ملک کی معیشت اور ترقی کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کا احتجاج اور دفاعی اقدامات اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ناگزیر اور جائز ہیں۔
بھارت کا کردار خطے میں امن کے قیام کے بجائے دہشت گردی کی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے چاہے وہ غیر ریاستی دہشت گرد ہوں یا بھارت کی طرح ریاستی دہشت گردی۔ طالبان کو پاکستان مخالف اُکسانا افغانستان کے تنازعے میں بھارت کا کردار منفی اور خطرناک ہے۔ بھارت طالبان سے قطع تعلق کے باوجود گزشتہ کچھ عرصے میں انہیں پاکستان کے خلاف اُکسانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ بھارت طالبان کو مالی اور عسکری حمایت فراہم کر کے انہیں پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے براہِ راست یا بالواسطہ مدد دے رہا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا اور خطے میں اپنی جغرافیائی اور سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنا ہے۔ بھارت کی افغانستان سے کوئی سرحد نہیں ہے، اس لیے وہ افغانستان کو سمندر تک رسائی دینے والے راستوں کو مشکلات میں ڈال کر افغان معیشت کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں بھارت کی سیاست کو ’’بی جمالو‘‘ کے کردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یعنی جو اپنی ملکیت میں آنے والے دوسرے ملکوں کے لیے مشکلات پیدا کرے۔ اس کی وجہ سے افغانستان کے مسائل مزید گہرے اور پیچیدہ ہو رہے ہیں جبکہ یہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے خلاف سازش ہے۔
افغانستان کا مفاد پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں ہی مضمر ہے۔ افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے اور سمندر تک رسائی کے لیے اسے پاکستان یا ایران کے راستے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو افغانستان کو سمندری راستوں تک بہت آسانی سے رسائی فراہم کر سکتا ہے، لہٰذا افغانستان کے مفادات میں شامل ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات قائم رکھے۔ دوستی کی راہ اپنانے سے افغانستان نہ صرف اپنی معیشت بہتر بنا سکتا ہے بلکہ سرحدی تحفظ میں بھی بہتری آسکتی ہے۔ دہشت گردی کی حمایت چھوڑ کر افغانستان پاکستان کے ساتھ تعاون کرے تو دونوں ممالک کی سلامتی میں بہتری آئے گی اور خطے میں امن قائم ہو گا۔ پاکستان نے متعدد مواقع پر افغان طالبان سے مذاکرات کیے ہیں تاکہ سرحدی مسائل کو حل اور امن قائم کیا جا سکے، مگر بھارت کے اثرات اور دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں اس سلسلے میں رکاوٹ ہیں۔
اکتوبر 2025 میں دونوں ملکوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں کئی پاکستانی فوجی اور طالبان جنگجو ہلاک ہوئے۔ پاکستان نے افغان علاقوں میں دہشت گرد ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جبکہ افغان طالبان نے بھی سرحدی چوکیوں پر حملے کیے۔ ان جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکی کی ثالثی میں ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت مختصر مدت کے لیے جنگ بندی ہوئی لیکن یہ مکمل طور پر برقرار نہ رہ سکی۔ یہ بات واضح ہے کہ دونوں طرف سے دہشت گردی کی سرگرمیاں ختم کیے بغیر دیرپا امن مشکل ہے۔ اس لیے خطے کے تمام فریقوں کو امن کے لیے سنجیدہ اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ جنگ نہ بڑھے اور عام شہری محفوظ رہیں۔
پاکستان کا موقف منطقی، درست اور تحفظ پر مبنی ہے کہ کسی بھی صورت میں دہشت گردی کو سرزمین پر پروان نہیں چڑھنے دیا جائے گا۔ افغانستان کے ساتھ دوستی خطے کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے، کیونکہ افغانستان کو سمندری راستہ پاکستان یا ایران کے ذریعے ملتا ہے۔ بھارت کی طالبان کو پاکستان مخالفت پر اُکسانا اور افغانستان میں مداخلت خطے میں عدم استحکام میں اضافہ کر رہی ہے، جسے روکا جانا چاہیے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے شمار قربانیاں دی ہیں اور امن کے لیے مذاکرات کی راہ اپنائی ہوئی ہے، امید ہے کہ افغانستان بھی اپنے مفادات کو سمجھتے ہوئے تعاون کرے گا تاکہ خطے میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔