حفیظ کا سوال، شعیب اختر کی شعیب ملک کو شرمندہ نہ کرنے کی درخواست
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
پاکستان کے سابق کپتان محمد حفیظ نے پی ٹی وی کی ایک براڈکاسٹ میں ایک اور سابق کپتان شعیب ملک سے سخت سوال کر کے ان کو پریشان کر دیا۔ شعیب ملک کے جواب دینے سے قبل ان کو بچانے کے لیے شعیب اختر کو بیچ میں آنا پڑا۔
پاکستان ٹیم کے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہوجانےکی وجہ سے پاکستان ٹیم کو مداحوں سمیت سابق کھلاڑیوں کی جانب سے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز بنگلادیش کے خلاف نیوزی لینڈ کی فتح کے بعد پاکستان کے ایونٹ سے باہر ہوجانے کے بعد پی ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک پروگرام میں سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد حفیظ نے کرکٹ بورڈ پر شدید تنقید کرتے ہوئے شعیب ملک سے پوچھا کہ ملک بطور مینٹور پاکستان کے لیے کام کر رہے ہیں، ابھی تک کتنی اتھارٹی ان کو ملی ہے۔
شعیب ملک جواب دینے کے لیے الفاظ ڈھونڈ ہی رہے تھے شعیب اختر نے مداخلت کرتے ہوئے محمد حفیظ سے درخواست کی کہ شعیب ملک کو شرمندہ نہ کریں۔
جس پر محمد حفیظ نے کہا کہ وہ شعیب سے مشکل سوال نہیں پوچھ رہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔