دو ٹکے کی نوکرانی چاکلیٹ کھائے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 فروری 2025ء) چاکلیٹ اور وہ بھی امپورٹڈ! ایک دو ٹکے کی ملازمہ کی یہ ہمت کہ مالکن کی بچی کی چاکلیٹ چرا کر کھائے؟ بچی تھی تو کیا؟ تھی تو کام والی نا! چاکلیٹ کھانے کے لیے ایک ملازمہ کا دل کیسے مچل سکتا ہے؟ اپنے گھروں میں انھیں ایک وقت کی روٹی نہیں ملتی نہ کہ یہ چاکلیٹ کھائیں؟ آج چاکلیٹ چرائی تھی کل نہ جانے گھر سے کیا کیا چرا لیتی؟ سزا تو دینی تھی۔
وہ تو تیسرا راڈ سر پر پڑتے ہی بے دم ہو کر گر پڑی تھی ورنہ مالکن کا پارہ تو آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔کمسن ملازمین پر تشدد کرنے والے مالکان کی اکثریت اپنی وحشیانہ کارروائیوں کو ایسے ہی جواز مہیا کرتے ہیں.
چند روز قبل راولپنڈی کے رہائشی راشد قریشی اور اس کی بیوی کے ہاتھوں ایک 13 سالہ کمسن ملازمہ اقراء اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
(جاری ہے)
لیکن یہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں اس سے قبلراول پنڈی میں 7 سالہ زہرہ طوطے کا پنجرہ کھولنے پر ماری گئی!
لاہور میں معمولی غلطی سرزد ہونے پر سولہ سالہ عظمی بی بی کی لاش نہر برد کی گئی۔
لاہور ڈیفینس میں فریج سے کھانا نکال کر کھانے کی پاداش میں 6 سالہ رضوان کو شدید زخمی اور 12 سالہ کامران کو جان سے مار دیا گیا تھا۔
خیرپور کے علاقے رانی پور کی نو سالہ کمسن ملازمہ کے ساتھ آستانے کا پیر اسـ وقت تک آبروریزی کرتا رہا جب تک وہ اپنے خالق حقیقی سے نہ جاملی۔ جب کہ اسی دوران پیر کی بیوی بچی پر بہیمانہ تشدد بھی کرتی رہی تھی۔
لاہور کی غالب مارکیٹ میں مالک نے اپنے 14 سالہ گھریلو ملازم سنی کو کسی غلطی کی سزا پہلے بدفعلی اور پھر اسے قتل کر کے دی۔
اس کے علاوہ مالکان کے بہیمانہ تشدد کے باوجود زندہ بچ جانے والی طیبہ، رضوانہ، مہرین اور عطیہ جیسی نہ جانے کتنی کمسن بچیاں اور بچے اور ہوں گی جو اپنے بے حس اور ظالم مالکان کے ہاتھوں دن رات ظلم و بربریت سہتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور نہ ہی عوام تک ایسی گھناؤنی وارداتوں کی خبریں پہنچتی ہے ـ
ہر نیا پیش آنے والا واقعہ پچھلے سے زیادہ گھناؤنا اور رونگھٹے کھڑے کردیتا ہے اور تشویش ناک بات یہ ہے۔
ظلم و بربریت کی داستان رقم کرنے میں مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں بلکہ اکثر ایسے اندوہناک واقعات میں خواتین مالکان زیادہ جابر اور بے درد نظر آتی ہیں۔ دراصل ایسے صاحب استطاعت گھرانوں کی نظر میں نوعمر ملازمین کے یہ معمولی غلطیاں ناقابل معافی جرائم ہیں جن کی سزا کبھی سر مونڈھ کر، جسم داغ کر، جلا کر، سر پھاڑ کر اور بس چلے تو جان لے کر، دی جاتی ہے۔کمسن ملازمین پر تشدد کے واقعات ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہے جس کے نتیجے میں غربت کا عفریت ازخود بے قابو ہو جاتا ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیں جہاں آٹھ دس بچے ہوں اور کمانے والا ایک شخص ہو تو پھر غربت کا راج کیسے نہ ہو؟ یہ مظلوم بچے اپنے اور اپنے خاندان کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے ملازمت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
غربت کے باعث جب والدین بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو انھیں لا محالہ اپنے بچوں کو کم عمری میں ہی کام پر لگانا پڑتا ہے۔ مالکان کے گھر کا ماحول کمسن بچے بچیوں کے لیے غیر محفوظ ہوتا ہے جہاں ان کا استحصال بھی آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان بچوں اور ان کے والدین کو عمر بھر اپنے ساتھ ہونے والے اس استحصال کا ادراک ہی نہیں ہوپاتا۔ گو کہ اس کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ تاہم بھوک و افلاس کے مارے معاشرے میں تعلیم کی عدم دستیابی ایک لازمی امر ہے۔ جہاں پیٹ بھر کھانا اور تن ڈھانپنا ہی مشکل ہو وہاں تعلیم کی افادیت پر بھاشن دینا چہ معنی دارد۔ تعلیم سے دوری کی بنا پر شعور کی کمی اور اپنے حقوق سے نابلد ہونا بچوں کو مزدوری کی طرف مائل کرتا ہے۔ اسکول جانے کی عمر میں اگر بچے اپنے خاندان کی کفالت کی ذمہ داریاں اٹھانے میں لگ جائیں گے تو انھیں اپنے حقوق سے آگاہی کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ لیکن یہ حکمت عملی ہماری اشرافیہ کے مفاد میں جاتی ہے اور وہ پوری شدومد سے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کے سدباب کے لیے کبھی سنجیدہ قدم نہیں اٹھاتے۔دوسری جانب ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر شدت پسند ہے۔ ملک میں عمومی طور پر پرتشدد واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے سماجی رویے اور ہماری بیمار ذہنیت کمزور طبقے کو دبانے میں کافی معاون بھی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن جب یہ مالکان اپنے گھناؤنے کرتوت پر پکڑے جاتے ہیں تو کیمرہ دیکھ کر منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرے کے ایسے وحشی مرد و زن کی تصاویر سر عام میڈیا پر دکھائی جانی چاہیے تاکہ ان کا کڑا احتساب کیا جائے۔
لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔کچھ عرصہ تو میڈیا پر زوروشور سے ایسے گھناؤنے کرداروں کے خلاف مہم شروع ہوتی ہے تو ادارے بھی وقتی طور پر حرکت میں آجاتے ہیں۔ لیکن جہاں ذرا معاملہ ٹھنڈا پڑتا ہے مالکان اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے سزا سے بچ نکلتے ہیں۔کمسن اور نوعمر ملازمین رکھنے کا رجحان اور پھر ان پر ہولناک تشدد کے واقعات کی تفصیلات دیکھ اور پڑھ کر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ بظاہر یہ صاحب استطاعت اور پڑھے لکھے گھرانے نارمل ہرگز نہیں بلکہ کسی شدید نفسیاتی عارضہ کا شکار ہیں۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے سماج میں یہ تاثر عام ہے کہ گھریلو ملازمین کمتر ہوتے ہیں۔ جہاں ملازمین کے گلاس، کپ ساسر اور پلیٹیں الگ تھلگ رکھنا، باسی کھانا دینا اور بات بے بات گالم گلوچ کرنا معمول کی بات سمجھی جاتی ہو وہاں اقراء جیسے کمسن ملازمین پر تشدد کے واقعات کا پیش آنا کوئی اچھنبے کی بات کیسے ہو سکتی ہے؟
اکثر کہا جاتا ہے کہ ملازمین کے والدین بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
بالکل بجا! لیکن غربت تعلیم اور شعور کی کمی کے باعث ہم انھیں پوری طرح مورود الزام نہیں ٹہرا سکتے کیونکہ ان کے حالات اس نہج پر ہوتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو خود سے بہتر سماجی اور تعلیمی پس منظر رکھنے والوں کے حوالے کرنے میں ہی اپنی اولاد کی بہتری سمجھتے ہیں۔ قصور تو سراسر ہم جیسے صاحب استطاعت گھرانوں کا ہے جو آج بھی گھریلو ملازمین کے ساتھ غلاموں والا سلوک کرتے ہیں۔ جن غریب والدین کی بچیاں مالکان کے ہاتھوں جان سے گئیں بیشتر نے انصاف پانے کے لیے مہینوں اور برسوں در در کی ٹھوکریں کھائیں لیکن جہاں ظالم مضبوط اور بارسوخ ہو وہاں احتساب کا فقدان بھی ہوگا اور قانون پر عملدرآمد بھی ناممکن ہوگا۔کمسن گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات تب تک کم نہیں ہوں گے جب تک ریاستی سطح پر اس کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات نہ کیے جائیں گے۔
جس کے لیے سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر ملک سے غربت اور بے روزگاری کے عفریت سے چھٹکارا پانا ضروری ہے اور ملک کے بجٹ کو دفاع میں جھونکنے کے بجائے فلاحی کاموں پر خرچ کیا جانا چاہیے۔کمسن ملازمین کے تحفظ کے لیے خصوصی مدد کے ادارے اور ہیلپ لائنز قائم کیے جانے چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے بیمار سماجی رویوں اور ذہنیتوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کم از کم یہ معصوم و کمسن بچے ایک محفوظ دنیا میں سکون سے جی تو سکیں۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ملازمین پر تشدد تشدد کے واقعات کمسن ملازمین ملازمین کے مالکان کے ہوتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
شکی مزاج شریکِ حیات کے ساتھ زندگی عذاب
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) دوسری جانب شکی مزاج خواتین اپنے شوہر پر کڑی نگاہ کسی باڈی گارڈ کی مانند رکھتی ہیں اور خوامخواہ یہ تصور کرتی ہیں کہ ان کا افیئر کسی کے ساتھ چل رہا ہے۔ شک کی بیماری ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔اگر اس شک کو زوجین تقویت دیں تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہے کہ جس کا رفع دفع ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔
یعنی ایک ایسا روگ ہے کہ اگر بروقت ختم نہ ہو یا اس کا مناسب حل نہ ڈھونڈا جائے تو باہمی چپقلش سے اچھا خاصا گھر پاتال بن جاتا ہے۔شکی انسان اپنے آپ کو مریض نہیں گردانتا بلکہ شک کا سب سے گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ شکی مزاج اسے تسلیم بھی نہیں کرتا۔ ظاہر ہے جب تسلیم نہیں کرتے تو اس سے چھٹکارے کے لیے کچھ کرتے بھی نہیں ہیں۔
(جاری ہے)
بلا تردد شک ہی یقین کی دیمک ہے۔
یہ لاعلاج مرض کی صورت تب اختیار کرتی ہے جب بیویاں شوہروں پر کڑی نگاہ رکھتی ہیں حتیٰ کہ نامدار شوہر کے فلاح وبہبود کے کام کو بھی منفی پیرائے میں پرکھتی ہیں۔ انہیں خدشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ ان کے شوہر دوسری خواتین میں دلچسپی لیتے ہیں یا بیوی کا اس خبط میں مبتلا رہنا کہ ان کے شوہر کا افئیر ضرور کسی سے چل رہا ہوگا جبھی تو لیٹ گھر آتے ہیں۔
پھر ہر چیز میں نقص نکالنا، بات کا بتنگڑ بنانا ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔ شوہر کے دفتر سے واپسی پر کپڑوں کا بغور جائزہ لینا، شوہر کے بناؤ سنگھار پر نظر رکھنا اور ہمیشہ اس تاک میں رہنا کہ شوہر کے موبائل کا پاس ورڈ معلوم ہو جائے۔شوہروں کے حوالے سے بیگمات کی حساسیت اپنی جگہ مگر بعض شکی مزاج خواتین اس معاملے میں اس قدر حاسد و محتاط ہوتی ہیں کہ وہ چند گھڑیوں کے لیے بھی اپنے شوہر نامدار کی کسی دوسری خاتون کے ساتھ ضروری گفت و شنید کو بھی گوارا نہیں کرتیں۔
مضحکہ خیز بات کہ بعض سیاسی شخصیات کی بیویاں اہم سرکاری اجلاسوں میں بھی اپنے شوہر کو تنہا نہیں چھوڑتی بلکہ ان کے ہمراہ باڈی گارڈ کی مانند رہتی ہیں۔شوہر پر شک کی ممکنہ وجوہات میں سے شوہر کا اوپن مائنڈڈ ہونا یا ڈبل اسٹینڈرڈ ہوتا ہے۔ شوہر کا دیگر خواتین سے خندہ پیشانی سے گفتگو کرنا، ان کے ساتھ ہنسنا بولنا، بیوی کو بہت کھٹکتا ہے۔
یہاں سے بھی بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ عورت خود کو کمتر سمجھتی اور شوہر پر مختلف طریقوں سے شک کرتی ہے۔زبان زد عام ہے کہ شک و وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ اسی طرح اگر شوہر شکی مزاج ہو تو پھر بھی سکون غارت ہو جاتا ہے۔ بعض ذہنی مریض شوہر بلا وجہ کے شک کو پال پال کر ایک بلا بنا دیتے ہیں جو اس کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہے۔
مثلاً دفتر سے واپسی پر گھر میں آہستہ آہستہ اینٹری مارنا اور یہ تجسس رکھنا کہ گھر میں اس کی غیر موجودگی میں کیا ہو رہا ہے؟ فون پر کس سے باتیں ہو رہی ہیں؟ نیز تہذیب کے پیرائے میں کسی مرد کا بیوی کو سلام کرنا اور احوال دریافت کرنا اس پر شوہر کا سوالیہ نشان اٹھانا، اگر بیوی کسی شخص کے کام کی تعریف کردے تو یہ سمجھنا کہ وہ اس پر فریفتہ ہے۔ ایسے شوہروں کی کافی تعداد پائی جاتی ہے جنہوں نے اپنی بے گناہ بیویوں کو بےجا شک کے باعث قتل کردیا یاخودکشی کرلی۔کتنا عجیب رویہ ہے کہ اگر بیوی بے تکلف ہو تو اسے برا لگتا ہے۔ اس طرز کے سارے اعمال اسکی غیرت برداشت نہیں کرتی لیکن وہ خود اپنے لیے دیگر خواتین کے ساتھ ہنسنا بولنا جائز قرار دیتا ہے، بزنس ڈنر کے نام پہ ہائی ٹی سلاٹ بک کرتا ہے، کاروباری مجبوری کے نام پہ ہاتھ ملاتا ہے ان سے جس حد تک ممکن ہو بے تکلفی اپنا حق سمجھتا ہے۔
ایسی خواتین جو ان سے خوش گپیاں کریں وہ خوش اخلاق ہیں مگر اپنے گھر کی خواتین سے کچھ کوتاہی ہوجائے تو وہ بدکردار ہیں۔زوجین کا باہمی شک کرنے کی وجہ سےکوئی واقعہ، قصہ، ڈرامہ یا کہانی ہوتی ہے۔ کبھی کسی فلم سے متاثر ہو کر میاں اپنی بیوی کو اسی روپ میں دیکھنے لگ جاتا ہے یا بیوی سوچتی ہے کہ فلاں ہیروئن جو اپنے شوہر پر نگاہ رکھتی ہے اس کا کرادر مجھے نبھانا چاہیے وغیرہ۔ مسائل کو زیر بحث نہ لانا بھی شک کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ لہذا مسائل تب جنم لیتے ہیں جب غلط فہمی دل میں بٹھائی جائے اور کھل کر بات نہ ہو۔