سڈنی: آسٹریلیا کے شہر برسبین کی کوئنز لینڈ سپریم کورٹ نے آٹھ سالہ ذیابیطس کی مریضہ بچی الزبتھ روز اسٹرُس کی “تکلیف دہ” موت کے جرم میں مذہبی فرقے “سینٹس” کے 14 ارکان کو قید کی سزا سنادی۔بدھ کے روز سنائے گئے فیصلے میں الزبتھ کے والدین، کےری اسٹرُس اور جیسن اسٹرُس، سمیت فرقے کے رہنما اور دیگر ارکان کو غیر ارادی قتل کا مجرم قرار دیا گیا۔
والدین کو 14 سال قید کی سزا دی گئی، جبکہ باقی ارکان کو بھی مختلف مدت کی سزائیں سنائی گئیں۔
الزبتھ کی موت انسولین کی عدم فراہمی کے باعث کیٹواسڈوسس (ketoacidosis) نامی بیماری کی وجہ سے ہوئی، جو ذیابیطس کی ایک سنگین پیچیدگی ہے۔ فرقے کے ارکان نے اپنے عقیدے کی بنیاد پر بچی کا علاج رکوا دیا تھا۔عدالتی فیصلے میں جسٹس مارٹن برنز نے کہا، نے ایک آہستہ اور تکلیف دہ موت کا سامنا کیا، اور آپ سب، کسی نہ کسی طرح، اس کے ذمہ دار ہیں۔”ٹوومبا شہر کے اس چھوٹے چرچ میں فرقے کے ارکان کا یہ بنیادی عقیدہ تھا کہ صرف خدا کی شفائی قوت پر یقین رکھنا چاہیے، جس کی وجہ سے انہوں نے طبی علاج اور دواؤں سے انکار کیا۔عدالت نے اس واقعے کو ایک المناک اور افسوسناک سانحہ قرار دیا اور کہا کہ والدین اور فرقے کے ارکان نے اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کی، جس کا خمیازہ ایک معصوم بچی کو بھگتنا پڑا۔یہ فیصلہ آسٹریلیا بھر میں طبی علاج اور مذہبی عقائد کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دے رہا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ارکان کو فرقے کے

پڑھیں:

مودی کے انتہاپسند بھارت میں 150 سالہ قدیم اور تاریخی درگاہ کی بیحرمتی

بھارتی ریاست بہار میں تاریخی حیثیت کی حامل درگاہ کی بیحرمتی کی گئی جس میں ایک بزرگ مسلم ہستی مدفون ہیں اور ملک بھر سے زائرین کی بڑی تعداد یہاں آتی ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق نامعلوم افراد نے رات کی تاریکی میں تاریخی درگاہ کو مسمار کرنے کی کوشش میں شدید نقصان پہنچایا۔ جس پر علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا۔

شدید عوامی احتجاج کے باجود تاحال نہ تو ایف آئی آر درج کی گئی اور نہ ہی ملزمان کا تعین کرنے کے لیے کوئی کوشش کی گئی۔

بہار کی مقامی حکومت نے بھی اس واقعے پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا جس سے عوام میں غم اور غصے کی لہر دوڑ گئی۔

اس 150 سالہ قدیم درگاہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھی بڑے تعداد میں آتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ درگاہ کا اتحاد بین المذاہب کا مرکز اور امن کی علامت سمجھا جاتا ہے اور آس پاس کی آبادی میں تمام مذاہب کے افراد مل جل کر رہتے ہیں۔

تاہم مودی سرکار کے دورِ اقتدار میں ہندوتوا کو فروغ دیا گیا جس کے باعث ملک میں نہ اقلیتیں محفوظ ہیں اور نہ ہی ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ حاصل ہے۔

مودی سرکار کی اس نفرت آمیز پالیسیوں کا عروج اُس وقت دیکھنے میں آیا جب تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کیا گیا۔

اس کے بعد سے متعدد تاریخی مساجد اور درگاہوں کو ہندو دیوتاؤں کی جنم بھومی یا سابق مندر قرار دیکر مسمار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

بھارت میں مساجد اور درگاہوں کے علاوہ چرچ بھی محفوظ نہیں رہے ہیں۔ مشنری اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • اپر دیر، عارضی پل سے گر کر 2 نوجوان 2 لڑکیاں ڈوب گئیں
  • منڈی بہاؤالدین : 8 سالہ بچی اغوا اور مبینہ ریپ کے بعد قتل، لاش کھیت سے برآمد
  • اپر دیر: دریائے گوالدائی پر بنے عارضی پل سے گر کر 2 نوجوان 2 لڑکیاں ڈوب گئیں
  • منڈی بہاالدین: 8 سالہ بچی اغوا اور مبینہ ریپ کے بعد قتل، لاش کھیت سے برآمد
  • عامر خان کی 91 سالہ والدہ نے بھی فلمی دنیا میں قدم رکھ دیا
  • مردان میں گیس سلینڈر کا دھماکا، ایک ہی گھر کے چھ افراد جاں بحق
  • ملک بھر میں عیدالاضحیٰ مذہبی جوش وجذبے سے منائی جا رہی ہے
  • صوابی، خواتین کے جھگڑے پر 61 سالہ شخص قتل
  • مودی کے انتہاپسند بھارت میں 150 سالہ قدیم اور تاریخی درگاہ کی بیحرمتی
  • راولپنڈی: 7 ماہ کی بچی اغواء کے بعد قتل، 10 سالہ ملزم گرفتار