پہلا روزہ اتوار کے روز ہونے کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن)رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کل اوقاف ہال پشاور میں ہوگا۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی مولانا عبدالخبیر آزاد کریں گے۔
رویت ہلال ریسرچ کونسل نے پہلا روزہ اتوار کے روز ہونے کا امکان ظاہر کردیا۔ ماہرین فلکیات کے مطابق جمعتہ المبارک 28 فروری کی شام ہلال کی رویت ممکن نہیں، جمعہ کو غروبِ آفتاب کے وقت چاند کی عمر14 گھنٹوں سے بھی کم ہوگی۔ رویت ہلال کیلئے چاند کی عمر19گھنٹوں سے زائد ہونی چاہیے۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ چاند کا سورج سے زاویائی فاصلہ کم از کم 10 ڈگری ہونا چاہیے جو کہ5 ڈگری ہوگا، غروب آفتاب اورغروب قمرکےدرمیان فرق کم از کم 40 منٹ ہونا چاہیے، کوئٹہ اور جیوانی میں فرق30 منٹ جبکہ دیگر تمام علاقوں میں 29 منٹ ہوگا، چاند کی رویت کھلی آنکھ سے درکنار، ٹیلی سکوپ سے بھی ممکن نہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت کا امسال بھی رمضان اور عید پیکیج دینے کا اعلان
واضح رہے کہ مذہبی امور کے مطابق ماہ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کیلئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس 29 شعبان 28 فروری کو پشاور میں طلب کیا گیا ہے۔ چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی مولانا عبدالخبیر آزاد اجلاس کی صدارت کریں گے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: مرکزی رویت ہلال کمیٹی
پڑھیں:
ایران پر اسرائیلی حملے اور پاکستان پر ممکنہ اثرات (پہلا حصہ)
قدرت کی بھی عجب ستم ظریفی ہے اور عالمی تاریخ کی حیرت انگیز ستمرانیاں بھی !1979کو جنرل ضیاء الحق نے منتخب وزیر اعظم ، زیڈ اے بھٹو، کا تختہ اُلٹ دیا ۔ پھر ایک مشتبہ سے مقدمے میں انھیں تختہ دار پر بھی لٹکا دیا۔توقعات تھیں کہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت ، آئین شکنی اور بھٹو کی سزائے موت کے خلاف عالمی سطح سے سخت ردِ عمل آئے گا اور جنرل ضیاء الحق کو اپنی آمریت کا بوریا بستر لپیٹ کر ’’گھر‘‘ کی راہ لینا پڑے گی ، مگر ایسا کچھ بھی نہ ہُوا۔
اس لیے کہ انھی ایام میں سوویت رُوس نے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا ، اور مخالف قوتوں نے ایران پر شہنشاہِ ایران ، رضا شاہ پہلوی، کی حکومت ختم کر دی تھی۔ ایران سے امریکا کا اثرورسوخ یکلخت ختم ہو گیا تھا۔ یوں دُنیا پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی سیاسی زیادتیوں کے خلاف متوجہ ہونے کے بجائے افغانستان اور ایران کی طرف متوجہ ہو گئی۔افغانستان پر سوویت رُوس کا حملہ اور ایران میں پہلوی بادشاہ کی حکومت کا خاتمہ دراصل جنرل ضیاء الحق کے لیے Blessing in Disguiseثابت ہُوئے ۔
اب جب کہ جون 2025کے دوسرے ہفتے پاکستان میں 2025-26 کے نئے مالی سال کے بجٹ کے کئی ہلاکت خیز بم پاکستان کے غریب، متوسط اورزیریں متوسط طبقات پر گرا دیے گئے اور حکومت کے خلاف عوام کی ناراضی کا آغاز ہو چکا تھا، صہیونی اسرائیل نے ایک بار پھر ایران پر حملہ کر دیا ۔ اور یوں اچانک پاکستانی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے تازہ تباہ کن بجٹ کے خلاف تنقیدات کا طوفان تھم گیا اور اِس کی جگہ ایران پر اسرائیلی حملے کے اذکار نے لے لی۔
شہباز حکومت اور وزیر خزانہ نے اِن تنقیدات کے طوفانوں کے تھمنے پر’’سُکھ کاسانس ‘‘ لیا ہوگا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایران پر اسرائیلی حملہ اِس حکومت کے لیے Blessing in Disguiseہی ثابت ہُوا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی شہباز حکومت نے،دیگرکئی اسلامی مملکتوں کی مانند، ایران پر اسرائیلی حملے کی مخالفت کرتے ہُوئے بجا طور پر مذمت بھی کی ہے ۔ صہیونی اسرائیل نے8 ماہ قبل بھی ایران پر حملہ کیا تھا۔ ایران نے اپنے معروفِ عالم جنگی ڈرونز اور میزائلوں سے ترنت اِس حملے کا جواب بھی دیا تھا ، مگر اِس بار اسرائیلی حملے پہلے کی نسبت شدید تر، زیادہ تباہ کن اور متنوع ہیں ۔
ایران پر یہ تازہ اسرائیلی حملہ 12اور 13جون 2025کی درمیانی رات اُس وقت ہُوا جب ہمارے سبھی اخبارات پریسوں میں جا چکے تھے۔ اِسی لیے 13جون کے اخبارات مذکورہ اسرائیلی حملے کی رپورٹنگ سے خالی تھے۔ یہ مگر خبریں ضرور شایع کی گئی تھیں کہ ’’ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات میں اضافہ ہو گیا ہے۔‘‘
اِس ضمن میں ہمارے بعض دانشوروں کے ’’تجزیئے ‘‘بھی عجب اسلوب کے دیکھے گئے ۔ مثال کے طور پر13جون کے اخبارات میں پاکستان کے ایک سابق سیکریٹری خارجہ کا ایک بیان اِن الفاظ میں شایع ہُوا: ’’اسرائیل ، ایران پر حملے بارے سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ اور جس وقت یہ بیان شایع ہو کر قارئینِ کرام تک پہنچا ، اُس وقت اسرائیل پوری بربریت ، بہیمیت اور بے شرمی کے ساتھ ایران پر حملہ کر بھی چکا تھا ۔ اسرائیل نے بقولِ خود، 200 جنگی طیاروں کے ساتھ ایران کے 8شہروں پر 100اہداف پر حملہ کیا ۔ مبینہ طور پر کئی ایرانی شہری اِن حملوں کا لقمہ بن چکے ہیں ۔
اور یہ خبر ہم سب مسلمانوں ، مسلمان حکمرانوں اور عالمِ اسلام کے لیے انتہائی پریشان کن ہے کہ اسرائیل نے اِس حملے میں ایرانی افواج کے سربراہ(جنرل باقری) ، ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے چیف(حسین سلامی) ، ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ایک اور سینئر رہنما ( میجر جنرل غلام علی راشد)، ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی ایئراسپیس فورس کے کمانڈر ، امیر علی حاجی زادہ ، اور ایرانی ایٹمی پروگرام کے4 سینئر ترین ایٹمی سائنسدانوں ( فریدون عباسی، محمد مہدی تہرانچی ، ڈاکٹر عبدالحمید ) کو بھی ، پہلے ہی ہلّے میں، شہید کر ڈالا ہے۔
اسرائیل نے تو اپنی اِس ہلاکت خیز کامیابیوں کی تصدیق کی ہی ہے ، ایران نے بھی اپنے مذکورہ بھاری عسکری نقصان کو تسلیم کر لیا ہے۔ ایران نے اپنی افواج کے سربراہوں کی شہادتوں کے فوراً بعد نئے عبوری سربراہوں( محمد پاکپور اور عبدالرحیم موسوی) کی تعیناتی بھی کر دی ہے۔ اسرائیل نے عالمی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا ثبوت دیتے ہُوئے ایران کے اُن شہروں کو ہدف بنایا ہے جو ایٹمی اور عسکری اعتبار سے خاصے حساس واقع ہُوئے تھے۔ اسرائیل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات اور ایرانی ایٹمی تجربات کے مراکز شہروں ( مثال کے طور پر نطنز) کو نشانہ بنایا ہے ۔
اسرائیل نے اپنے حملوں میں جن سینئر ترین ایرانی فوجی اور جوہری قیادت کو شہید کیا ہے،عالمی سطح پر اِس کا یہ مطلب بھی لیا گیا ہے کہ بدنامِ زمانہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی (موساد) درحقیقت ایران میں دُور تک نفوذ کر چکی ہے۔ اِس سے قبل (جولائی 2024 میں) جب اسرائیل نے ٹھیک نشانہ باندھ کر ایرانی دارالحکومت ، تہران، کے مضافات میں قیام پذیر مشہور فلسطینی غزہ رہنما( اسماعیل ہنیہ) کو شہید کر ڈالا تھا تو یہ بھی اِس بات کا عملی ثبوت تھا کہ ’’موساد‘‘ ایران کے اندر اپنی سرنگیں کھود چکی ہے ۔ مہمان اسماعیل ہنیہ کا قتل ایرانی قیادت کے لیے شدید ندامت کا باعث بنا تھا۔
ایران نے دھڑلّے سے کہا تھا کہ وہ اسماعیل ہنیہ کا اسرائیل سے بدلہ لے گا ، مگر ایک سال گزرنے کے باوجود آج تک ایران ، اسرائیل سے بدلہ نہیں لے سکا۔ اِس سانحہ سے ساڑھے چار سال قبل جب امریکا نے بغداد کے ہوائی اڈے پر ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ، میجر جنرل قاسم سلیمانی، کو ڈرون حملے میں شہید کرکے ایران کو سخت عسکری نقصان پہنچایا تھا تو بھی ایرانی قیادت کی جانب سے برملا اعلان کیا گیا تھا کہ ہم قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ امریکا سے لیں گے۔
18 ماہ گزرنے کے باوجود مگرآج تک اِس قتل کا بدلہ بھی ایران نہیں لے سکا۔ اب ایران نے 12اور 13جون کی درمیانی شب اسرائیلی حملے کا جواب دینے اور اپنی سینئر ترین فوجی قیادت کی شہادتوں کا بدلہ لینے کا پھر اعلان کیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ بدلہ اسرائیل سے کب لیا جائے گا؟عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے ہلاکت خیز اسرائیلی حملے کا بدلہ لینے کا سنہری موقع وہ تھا جب اسرائیل کے ایران پر حملے کو ابھی اوّلین 6گھنٹے گزرے تھے۔ایک دن کی تاخیر سے ایران نے بھرپور انداز میں اسرائیل پر جوابی حملہ کیا ہے اور تل ابیب میں جزوی تباہی مچا دی ہے ۔
ہماری محبتیں ، ہمدردیاں اور دعائیں تو بہرحال ایران کے ساتھ ہیں۔ صہیونی اسرائیل کی حمائت میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ بات مگر ماننا پڑے گی کہ پچھلے 20 مہینوں کے دوران (جب سے غزہ میں اسرائیل اور حماس کا جنگی تصادم شروع ہُوا ہے) اسرائیل کو ہر لحاظ سے مشرقِ وسطیٰ میں عسکری بالادستی حاصل رہی ہے ۔ اسرائیل نے نہائت بہیمیت سے ممتاز ترین غزہ مجاہدین رہنما( یحییٰ سنوار اور محمد سنوار) شہید کر ڈالے ۔ یمن پر بھی کامیاب حملے کیے۔
اسرائیل نے شام میں اسد خاندان کی 55سالہ (ایران نواز) حکومت ختم کرکے اپنی من پسند( احمد الشراع کی) حکومت قائم کی ، جو ’’القاعدہ‘‘ کے سابق جنگجو لیڈر بھی رہے ہیں ۔ مگراب ٹرمپ ، احمد الشرع سے سعودیہ میں ملاقات بھی کر چکے ہیں اور اُن کی حکومت بھی تسلیم کرلی ہے ۔ شام کے کئی نئے علاقوں پر اسرائیل نے نیا قبضہ بھی جما لیا ہے۔
اسرائیل نے اِسی دوران لبنان میں اپنے سب سے بڑے جنگجو حریف ( حزب اللہ ) کی کمر یوں توڑ کر رکھ دی کہ اس کے مرکزی رہنما ( حسن نصراللہ،علی حرکی ، ہاشم صفی الدین ) شہید کر ڈالے ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ لبنان کی ایران نواز ’’حزب اللہ‘‘ خود کو غاصب اور جارح اسرائیل کے خلاف پوری طاقت سے بروئے کار آنے کے قابل نہیں سمجھ رہی۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے کے اثرات پاکستان پر مرتب نہ ہوں؟اِن اثرات کو کمتر کرنے کے لیے ہمارے وزیر خارجہ، اسحاق ڈار، نے ایرانی وزیر خارجہ ، عباس عراقچی، سے براہِ راست فون پر گفتگو بھی کی ہے۔
( جاری ہے )