اسلام آباد (عترت جعفری) وفاقی کابینہ میں 12 وفاقی وزراء،9 وزراء مملکت، تین مشیروں اور4 معاونین خصوصی کی شمولیت کے بعد وفاقی کابینہ کی مجموعی تعداد 50 سے تجاوز کر گئی ہے۔ نئے وفاقی وزراء کی شمولیت سے پہلے سے کام کرنے والی کابینہ جو 18 وفاقی وزراء، دو وزرائے مملکت اور ایک مشیر اور چار معاون خصوصی پر مشتمل تھی، پر کام کے بوجھ میں کمی آئے گی۔ بہت سی اہم وزارتیں ہیں جن میں فوڈ  سکیورٹی، مذہبی امور، نجکاری شامل ہیں جو دوہرے چارج کی وجہ سے حقیقی قیادت سے محروم تھیں۔ وفاقی کابینہ اب بظاہر مکمل ہو گئی ہے اور اس میں مزید وزراء کی شمولیت کی گنجائش کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔ وفاقی وزرائے مملکت اور معاون خصوصی اور مشیروں کی بھاری تعداد کے پیش نظر ایسا نظر آ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بات چیت کامیاب نہیں ہو سکی۔ پیپلز پارٹی نے کابینہ سے دور رہنے کا ہی فیصلہ کیا ہے۔ نو تشکیل شدہ کابینہ کے سامنے چیلنجز کا پہاڑ ہے۔ ایک سال میں نجکاری کی رفتار کو نہیں بڑھایا جا سکا۔ پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی۔ جبکہ ڈسکوز کی نجکاری کا بہت بڑا مرحلہ طے کرنے کے لیے موجود ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ اس وقت مذاکرات ماحولیاتی تناظر میں ہو رہے ہیں جبکہ ان کا مشن بھی آنے والا ہے۔ اب تک جو شواہد موجود ہیں ان کے مطابق حکومت بہت سے سٹرکچرل اور پرفارمنس کے بنچ مارکس کو حاصل نہیں کر سکی ہے اور نئے بجٹ کی تیاری بھی شروع ہے اور مشن کے ساتھ مذاکرات میں بجٹ خصوصی موضوع ہو گا۔ بارش کے موجودہ سپیل کی وجہ سے گندم کی بہتر فصل کی توقع بڑھی ہے، تاہم یہ حقیقت موجود ہے کہ گندم کم رقبے پر کاشت ہوئی ہے اور اسے گزشتہ دو ماہ کے دوران خشک سالی کا سامنا رہا ہے۔ فوڈ سکیورٹی کے وفاقی وزیر کو زرعی تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھنا ہو گی۔ وفاقی کابینہ میں بھاری تعداد میں وزراء، وزرائے مملکت، معاونین و مشیروں کی شمولیت اپوزیشن کی نقطہ چینی کا باعث ضرور بنے گی۔ مشیر کی حیثیت سے سابق وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک کا نام موجود ہے جن کے بارے میں دو روز قبل یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ وہ جے یو آئی میں شامل ہو رہے ہیں تاہم وہ حکومت کے ساتھ مشیر کے طور پر چلے آئے۔ اس سے قبل علی پرویز ملک اور شزا فاطمہ وزیر مملکت کے طور پر کام کر رہے تھے جن کو وفاقی وزیر کے طور پر ترقی دی گئی ہے ہیں۔ رانا ثناء اللہ خان وزیراعظم کے واحد مشیر تھے جبکہ تین نئے مشیر آئے ہیں، اس طرح مشیروں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔ ہارون اختر خان ایک بار پھر معاون خصوصی بن گئے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: وفاقی کابینہ کی شمولیت کے ساتھ گئی ہے ہے اور

پڑھیں:

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کی پیٹھ پر وار کر رہے ہیں۔ عمر ایوب

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات نہیں ہورہے۔ پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں، ہر کسی کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ عمر ایوب کا کہنا ہے کہ گرینڈ الائنس کا پہلا مطالبہ نئے انتخابات کرانا ہوگا، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کی پیٹھ پر وار کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ رانا ثناء اللّٰہ کہتے ہیں معافی مانگیں تو کیا سب ختم ہو جائے گا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 706 ارب روپے سے زائد کا خسارہ ہے معیشت کیسے چل سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سکھر: آج پیپلز پارٹی کا جلسہ روہڑی انٹرچینج کے قریب ہو گا
  • فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
  • کینالز پر کام کی معطلی اور سی سی آئی اجلاس بلانے کا فیصلہ قومی یکجہتی کی فتح ہے، فریال تالپور
  • وزیر اعظم شہباز شریف کا نئی نہروں کی تعمیر نہ کرنے کا اعلان
  • بھارت نے سندھ طاس معاہدہ ختم کیا تو شملہ سمیت دیگر معاہدے ختم کرنے کا حق رکھتے ہیں،وفاقی وزراء
  • حکومت کینال منصوبے پر کثیر الجماعتی مشاورت پر غور کر رہی ہے، وفاقی وزیر قانون
  • گوادر، متعدد لیویز اہلکاروں کا پولیس میں شمولیت سے انکار، ڈی سی نے وارننگ دیدی
  • نہری منصوبہ کسان دشمنی ہے، حکومت آئینی حدود سے تجاوز کر رہی ہے، پیپلز پارٹی
  • پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کی پیٹھ پر وار کر رہے ہیں۔ عمر ایوب
  • متنازع کینالز منصوبے پرپیپلزپارٹی کے تحفظات، وفاقی حکومت کا مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ