جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کا بی جے پی کے حمایت یافتہ پینل سے کوئی تعلق نہیں، غلام محمد صفی
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
انہوں نے کہا یہ سازشیں اور ہتھکنڈے کشمیریوں میں انتشار اور غلط فہمیاں پھیلانے کی بھارت کی وسیع تر مہم کا حصہ ہیں جس کا مقصد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کمزور کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ نے بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے حمایت یافتہ پینل اور نئی جماعت جموں و کشمیر ڈیموکریٹک فرنٹ کی مذمت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جماعت اسلامی کا اس جماعت اور پینل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ کے کنوینرغلام محمد صفی نے ایک بیان میں تصدیق کی کہ جماعت اسلامی نے واضح طور پر بی جے پی کے حمایت یافتہ پینل کو مسترد کرتے ہوئے اپنے بنیادی اصولوں اور نظریے سے غیر متزلزل وابستگی کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کا اس پینل اور اس میں شامل تنظیموں کی سرگرمیوں، فیصلوں یا سیاسی عزائم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ غلام محمد صفی نے مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند عوام پر زور دیا کہ وہ تفرقہ پھیلانے والی قوتوں کی سازشیں سے ہوشیار رہیں اور کشمیریوں کی حق پر پر مبنی جدوجہد آزادی کو گمراہ کرنے کیلئے استعمال کئے جانیوالے ہتھکنڈوں کا شکار نہ ہوں۔ انہوں نے کہا یہ سازشیں اور ہتھکنڈے کشمیریوں میں انتشار اور غلط فہمیاں پھیلانے کی بھارت کی وسیع تر مہم کا حصہ ہیں جس کا مقصد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کمزور کرنا ہے۔ انہوں نے کشمیریوں کو اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق کو فروغ دینے اور جدوجہد آزادی کو ثابت قدمی سے جاری رکھنے پر زور دیا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جدوجہد آزادی کو جماعت اسلامی انہوں نے
پڑھیں:
اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے، جماعت اسلامی ہند
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اسرائیلی مصنوعات اور اس نسل کشی میں شریک کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف پھیلائی جارہی گمراہ کن معلومات کا مؤثر جواب دیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانی بحران پر اپنی شدید مذمت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی حکومت سمیت عالمی طاقتوں اور دنیا بھر کے باضمیر شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اسرائیل کے مسلسل حملوں کو فوری طور پر روکنے کے لئے عملی اقدامات کریں۔ میڈیا کے لئے جاری اپنے بیان میں سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ غزہ میں 21 لاکھ سے زائد فلسطینی جن میں 11 لاکھ سے زائد بچے شامل ہیں، مسلسل محاصرے اور شدید بمباری کی زد میں ہیں۔ 18 مارچ 2025ء کو جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے اپنی فوجی جارحیت کو مزید تیز کردیا ہے اور بنیادی ضروریات اور امداد پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔ ان کے گھر تباہ ہوچکے ہیں اور ان کی آوازیں خاموش کردی گئی ہیں۔ غزہ کی صورتحال انتہائی نازک ہے اور فوری توجہ کی مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے، اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس المیے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق غزہ کے 90 فیصد طبی مراکز تباہ یا ناکارہ ہوچکے ہیں۔ پورے غزہ میں صرف چند غذائی مراکز کام کررہے ہیں جبکہ ہزاروں ٹن خوراک اور دوائیں کئی مہینوں سے سرحدی راستوں پر رکی ہوئی ہیں۔ صفائی، پینے کے صاف پانی اور طبی سہولیات کی تباہی کے باعث اسہال، ہیپاٹائٹس اے اور سانس کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ یونیسیف کے مطابق 6 لاکھ 60 ہزار بچے اسکولوں سے محروم ہیں اور 17 ہزار سے زائد بچے یتیم یا اکیلے رہ گئے ہیں، اگر غزہ کا محاصرہ ختم نہ ہوا تو ستمبر 2025ء تک مکمل قحط پڑنے کا خطرہ ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے عالمی برادری سے فیصلہ کن اقدام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ عالمی نظام کے لئے ایک سخت آزمائش کا وقت ہے۔ ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے فوجی اور معاشی تعلقات ختم کریں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے تعلق سے امیر اور طاقتور ممالک بالخصوص امریکہ کی دوہری پالیسی کا خاتمہ ہونا چاہیئے، امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو رسمی بیانات سے آگے بڑھ کر امن اور انصاف کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے، جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
سید سعادت اللہ حسینی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا تاریخی اور اخلاقی فریضہ ادا کرے، بھارت نے ہمیشہ فلسطین کے جائز موقف کی حمایت کی ہے۔ اس نازک وقت میں ہماری آواز پہلے سے زیادہ بلند اور واضح ہونی چاہیئے۔ حکومت کو اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کرنی چاہیئے، اس کے ساتھ تمام عسکری اور اسٹریٹجک تعلقات معطل کرنے چاہئیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے بین الاقوامی اقدامات کی پرزور حمایت کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آواز سیاسی مصلحتوں کے بجائے آئینی اقدار اور تہذیبی ورثے سے رہنمائی حاصل کرے۔ نسل کشی کے وقت غیر جانبدارانہ سفارتکاری کی پالیسی انسانی قدروں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے آخر میں ملک کے عوام سے پرامن مزاحمت میں فعال شرکت کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی مصنوعات اور اس نسل کشی میں شریک کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف پھیلائی جا رہی گمراہ کن معلومات کا مؤثر جواب دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر فورم، سوشل میڈیا، عوامی اجتماعات اور ذاتی روابط کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی حقیقت دنیا کے سامنے رکھنی چاہیئے اور مظلوموں کے ساتھ کھل کر کھڑے ہونا چاہیئے۔