بنگلہ نژاد پاکستانیوں سے امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے، جسٹس جمال خان مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
سابقہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے پر ووٹر لسٹ سے اخراج کے معاملے پر دائر شہری کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے درخواست گزار کی سیاسی تقریر پر برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ کے روبرو درخواست گزار مولانا عزیزالحق کا موقف تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی قانونی حیثیت نہیں، الیکشن ایکٹ 2017 وزیراعظم لیاقت علی خان کی جانب سے پیش کردہ قرارداد مقاصد کے خلاف ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وزیر داخلہ نے لندن میں قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ آوروں کی شہریت منسوخی کا حکم دیدیا
جس پر جسٹس امین الدین خان بولے؛ آپ کہانی بیان نہ کریں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ درخواست گزار کا مدعا کیا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ یہ پاکستانی ہیں اور نہ بنگالی، ان کا اسٹیٹس کیا ہے۔
مولانا عزیز الحق نے بتایا کہ وہ 1952 میں اپنی پیدائش سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے شناختی کارڈ کی بابت دریافت کیا تو مولانا عزیزالحق بولے؛ 1978 میں شناختی کارڈ جاری ہوا، 2004 میں بھی نادرا نے شناختی کارڈ جاری کیا،2014 میں ووٹر لسٹ میں بھی نام جاری کیا گیا۔
مزید پڑھیں:دہری شہریت والے شخص کو جج تعینات کرنے پر پابندی کا آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع
مولانا عزیز الحق نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ قانونی طور پر پاکستان کے شہری ہیں، لہذا انہیں غیر ملکی نہ کہا جائے، انہوں نے بتایا کہ کبھی انہیں غیر ملکی اور کبھی ہوائی مخلوق کہا جاتا ہے۔
مولانا عزیز الحق نے بتایا کہ پاکستان کی تقسیم کو جو مان لے اسکا کارڈ جاری ہوجاتا ہے، وہ تقسیم پاکستان کو مسترد کرتے ہوئے بنگلہ دیش کو نہیں مانتا، بنگلہ دیش کو ماننے کا مطلب پاکستان کی تقسیم کو تسلیم کرنا ہے، 26ویں آئینی ترمیم وغیرہ کچھ بھی نہیں اصل آئین ہے۔
مزید پڑھیں:بغیر اجازت کسی کا ڈی این اے ٹیسٹ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے : سپریم کورٹ
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بنگلہ نژاد پاکستانیوں سے امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے ان کو نہ پاکستانی تسلیم کیا جارہا ہے اور نہ انکار کیا جارہا ہے، متعدد مرتبہ حکومت کو ہدایت دی ہیں لیکن حکومت نے ان شہریوں سے متعلق کچھ نہیں کیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ جب ملک دو لخت ہوا کچھ ادھر رہ گئے اور کچھ ادھر، ملک سے باہر نکالنا ہے تو نکال دیں، یا پھر انکو ملک میں رکھنا ہے تو رکھیں لیکن کوئی پالیسی تو بنائیں۔
مزید پڑھیں:وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا انسانی حقوق سے متعلق نیشنل پروگرام شروع کرنے کا اعلان
جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ جب ہم سندھ ہائیکورٹ میں تھے تو بھی اس طرح کے متعدد کیسز سامنے آئے، ہم نے واضح ہدایات بھی دیں، مولانا عزیز الحق بولے؛ پاکستان کو کوئی نہیں توڑ سکتا، پاکستان کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا، عدالتی حکم نامے کے مطابق درخواست گزار کو سننے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے اپنا مقدمہ بیان کرنے کے بجائے سیاسی تقریر شروع کردی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ الیکشن ایکٹ بنگلہ دیش بنگلہ نژاد جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس محمد علی مظہر مولانا عزیز الحق وزیراعظم لیاقت علی خان ووٹر لسٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الیکشن ایکٹ بنگلہ دیش جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس محمد علی مظہر مولانا عزیز الحق وزیراعظم لیاقت علی خان ووٹر لسٹ جسٹس جمال خان مندوخیل مولانا عزیز الحق درخواست گزار
پڑھیں:
بھارتی نژاد بینکم برہم بھٹ پر 500 ملین ڈالر کے فراڈ کا الزام، جعلی ایمیلز سے اداروں کو کیسے لوٹا؟
دنیا کی معروف سرمایہ کاری فرم بلیک راک اور متعدد بین الاقوامی قرض دہندگان کو اس وقت شدید پریشانی کا سامنا ہوا انہیں جب یہ انکشاف ہوا کہ انہوں نے 500 ملین ڈالر سے زائد رقم ایک مبینہ فراڈ میں کھو دی ہے، جس کے مرکزی کردار بھارتی نژاد ٹیلی کام ایگزیکٹو بینکم برہم بھٹ بتائے جا رہے ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق، بلیک راک کی ذیلی سرمایہ کاری کمپنی ایچ پی ایس انوسٹمنٹ پارٹنرز اور دیگر مالیاتی اداروں نے امریکی عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ برہم بھٹ نے اپنی ٹیلی کام کمپنیوں براڈ بینڈ ٹیلی کام اور بریج وائس کے ذریعے جعلی انوائسز اور فرضی اکاؤنٹس ریسیویبلز بنا کر قرض حاصل کیے۔
یہ بھی پڑھیے: ’ڈیجیٹل گرفتاری‘ کے نام پر شہری سے 51 لاکھ روپے کا فراڈ
رپورٹ کے مطابق، ان کمپنیوں نے مالی طور پر مستحکم ہونے کا ایک جعلی تاثر پیش کیا، جبکہ دراصل بڑی رقم بھارت اور ماریشس کے آف شور اکاؤنٹس میں منتقل کی جا رہی تھی۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ برہم بھٹ کے نیٹ ورک پر 500 ملین ڈالر سے زیادہ واجب الادا ہیں۔ فرانسیسی بینک بی این پی پیریبا نے بھی ان قرضوں کی فنانسنگ میں حصہ لیا تھا، جو ایچ پی ایس نے برہم بھٹ کی کمپنیوں کو دیے۔ تاہم بینک نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
یہ اسکینڈل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بلیک راک نے رواں سال ہی ایچ پی ایس کو خرید کر پرائیویٹ کریڈٹ مارکیٹ میں اپنی موجودگی کو بڑھایا ہے۔
جولائی 2025 میں ایچ پی ایس کے ایک ملازم نے گاہکوں کے ای میل پتوں میں مشکوک مماثلت دیکھی، جو جعلی ڈومینز سے بنائے گئے تھے۔ مزید تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ بعض ‘کلائنٹس’ دراصل وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: ہاؤسنگ اسکیموں کے فراڈ سے کیسے بچاجائے؟ نیب کا اہم اقدام سامنے آگیا
جب ایچ پی ایس حکام نے بینکم برہم بھٹ سے وضاحت طلب کی، تو اس نے پہلے معاملہ ٹالنے کی کوشش کی اور پھر فون اٹھانا ہی بند کر دیا۔ جب کمپنی کے دفاتر گارڈن سٹی (نیویارک) میں چیک کیے گئے تو وہ بند اور ویران پائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق، تحقیقات میں معلوم ہوا کہ گزشتہ دو سالوں میں فراہم کیے گئے تمام کلائنٹ ای میلز جعلی تھے، جبکہ بعض معاہدے 2018 تک پرانے جعلی دستاویزات پر مبنی تھے۔
عدالتی شکایت میں کہا گیا ہے کہ بینکم برہم بھٹ نے کاغذی اثاثوں پر مبنی ایک خیالی بیلنس شیٹ تیار کی، تاکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے کروڑوں ڈالر کے قرض حاصل کیے جا سکیں۔ مزید الزام ہے کہ اس نے رقوم کو خفیہ طور پر بھارت اور ماریشس کے اکاؤنٹس میں منتقل کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
کرپشن کمپنی مالیاتی بدعنوانی