Express News:
2025-11-03@17:13:49 GMT

ہم چاہتے کیا ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

گزشتہ پانچ دہائیوں سے لے کر‘ ملک میں سیاسی ابتری اور سیاسی انجینئرنگ آج بھی ‘ قیامت خیز رفتار سے جاری ہے۔ اس سے پہلے کہ طالب علم ‘ اس نکتہ کو گہرائی سے سامنے رکھے۔

ذہن میں صرف اور صرف ایک سوال ہے کہ ہم اپنے ملک کو کس جانب لے جانا چاہتے ہیں اور ایسا سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ پوری دنیا میں پاکستان کے متعلق‘ محققین اور باخبر لوگوں نے ان گنت کتابیں لکھی ہیں۔ مگر ہم سب کچھ جانتے ہوئے ‘ سمجھتے بوجھتے ہوئے‘ ایک ایسے المناک عملی جمود میں جا چکے ہیں جس سے کوئی بھی خیر برآمد ہونی مکمل طور پر ناممکن ہے۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ مایوسی کفر ہے مگر انسان کی شعوری جبلت کا انحصار‘ اردگرد کے حالات سے جڑا ہوتا ہے۔ جب ملک میں اس قدر مایوسی کا راج ہو ‘ تو کون سا ذی شعور شخص ہے جو جزوی یا مکمل طور پر مایوس نہیں ہو گا۔ یہ معاملہ آج کا نہیں ہے۔ پاکستان کے اوائل کے معاملات سے‘ آج تک سیاسی تنزلی کا سفر جاری و ساری ہے۔

یہ معاملہ کسی طرح بھی رکتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ ایسے معلوم پڑتا ہے کہ ادنیٰ دائروں کا ایک سفر ہے جو تسلسل سے جاری ہے۔ اور یہ ملک کو نیچے کی طرف کھینچتا چلا جا رہا ہے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ حالات اب زیادہ خراب ہیں۔ غیر متعصب طریقے سے پرکھا جائے تو بدحالی کا یہ سفر‘ بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ مگر نہ ان سیاسی شخصیات کو کٹہرے میں لایا گیا‘ جنھوں نے یہ سب کچھ کیا یا اس کھیل میں شامل رہے۔ اور نہ ہی کبھی معاملات کی تصحیح کی طرف کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا۔ ایسا سب کچھ کیوں ہے۔ اب سب کو سمجھ آ رہا ہے۔ کون سی غیر سیاسی شخصیات اس کھیل میں شامل تھیں اور آج بھی اسی چلن کی حامل ہیں‘یہ سب کچھ اب ہر خاص و عام کے سامنے کھل کر آ چکا ہے۔

نازک سیاسی معاملات‘ جن کا تعلق ملک کی بقا سے ہو۔ ان پر تجزیہ مکمل طور پر بے لاگ ہونا چاہیے۔ لکھا ری کے قلم کا زاویہ صرف اور صرف سچ کی طرف جھکا رہنا چاہے۔ اس لیے کہ قلم کی طاقت میں اگر کسی بھی وجہ سے سقم آ جائے تو تمام ماحول‘ گدلا ہو جاتا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ اور سوشل میڈیا وہ دیو ہے جو ہر جھوٹ کو مزید جھوٹ اور سچ کو بھرپور سچ بنانے کی قوت رکھتا ہے۔

نتیجہ یہ کہ اب اہم معاملات کو چھپانا ممکن نہیں رہا۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ حکومت اور اس کے مخالفین کے اپنے اپنے سچ ہیں۔ بہر حال میں اصل نکتہ کی طرف آتا ہوں۔جنرل ایوب وہ پہلا شخص تھا ‘ جو سیاست دانوں کی کمزوریوں اور قباحتوں سے واقف ہوا۔ وہ سیاست دانوں کے بلند بانگ دعوؤں کی اصلیت کو بھی سمجھ چکا تھا۔ غلام محمد اور سکندر مرزا ‘ اس قد کاٹھ کے لوگ نہیں تھے جو ملک کو توانا قیادت دے پاتے۔ وہ بذات خود ‘ حد درجہ کمزور کردار کے مالک تھے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی المیہ تھا کہ قائداعظم کے قریبی ساتھیوں کو سوچی سمجھی اسکیم کے تحت بے توقیر کر دیا گیا تھا۔ ملک کو اس وقت حد درجہ سنجیدہ مسائل کا سامنا تھا۔ مگر اس وقت بھی درباری سازشوں اور ذاتی فوائد کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔

اس صورت حال کے بالکل متضاد‘ ہندوستان میں اقتدار ان سیاست دانوں کے پاس تھا۔ جنھوں نے ذاتی طور پر برطانوی تسلط کے خلاف سیاسی جدوجہد کی تھی۔ دہائیاں جیلوں میں گزاری تھیں۔ ان کی قیادت سادہ رہن سہن کی عادی تھی۔ انھوں نے ستر برس پہلے ہندوستان کی اساس پختہ بنیادوں پر رکھی۔ مگر ہمارا معاملہ بالکل الٹ تھا۔ ایوب خان کے سیاسی مقاصد سب کو معلوم تھے۔ مگر اس کی بیخ کنی کے بجائے‘ اسے بھرپور طور پر پھلنے پھولنے دیا گیا۔ درباری ریشہ دوانیوںسے تنگ ‘ عوام نے یہ سمجھا ‘ کہ مارشل لاء وہ امرت دھارا ہے‘ جس سے ان کے حالات بہتر ہو جائیںگے۔

ویسے جزوی طور پر یہ ہوا بھی۔ اگر طویل المدت تناسب سے دیکھا جائے تو ملک کے اندر عدم استحکام کی بنیاد اسی جعلی طور پر مستحکم نظام ہی سے برآمد ہوئی۔ ویسے تو مشرقی پاکستان کے سانحہ کو یحییٰ ‘ بھٹو اور مجیب سے منسوب کیا جاتا ہے اور اس میں حقیقت کا عنصر بھی ہے۔ مگر تنقیدی نظر سے دیکھا جائے تو یہ معاملہ ایوب خان کے دور سے ہی جڑا ہوا ہے۔ ایوب خان نے کبھی مشرقی پاکستان کی عوامی سیاسی قیادت کی عزت نہیں کی بلکہ کٹھ پتلی قسم کے گماشتوں سے مشرقی حصہ کو ایک کالونی کی طرح چلانے کی کوشش کی۔ بہرحال ملک تو دو لخت ہو گیا ۔مگر قیامت یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی اور غیر سیاسی عنصر نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

یحییٰ خان کا اقتدار‘ ابتلا کا وہ دور ہے جس سے ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ مگر اس کے ساتھی کون تھے؟ بھٹو اور مذہبی جماعتیں۔ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بہر حال‘ پاکستان کو مکمل طور پر برباد کرنے کے باوجود بھی کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔ بھٹو کا اقتدار مکمل طور پر غیر آئینی تھا۔

کیونکہ ان کے پاس پاکستان پر حکومت کرنے کا مینڈیٹ تھا ہی نہیں۔ حق حکمرانی تو شیخ مجیب کے پاس تھا۔ مگر اسے حکومت نہ دی گئی ملک کا بٹوارہ قبول کر لیا گیا۔ میرا مقصد قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ حقائق آپ کے سامنے رکھوں جو تقریباً ہر ایک کے علم میں ہیں۔ مگر میرا سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ ہم تیس چالیس برس پہلے کیا چاہتے تھے اور آج کیا چاہتے ہیں؟ مجھے اپنے اس سوال کا کسی قسم کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ جتنا مرضی مطالعہ کروں‘ کچھ بھی پلے نہیں پڑتا کہ مقتدرہ دراصل چاہتی کیا ہے؟

تھوڑا سا آگے چلیے تو آپ کو ضیاء الحق جیسا کردار ملک کے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ دراصل‘ ہمارا آج کا پورا نظام‘ ضیاء الحق کے پیروکاروں کے قبضے میں معلوم پڑتا ہے۔ پنجاب میں ایک ایسے کاروباری خانوادے کو بڑھاوا دیا گیا جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پنجاب کی حد تک تو مجھے یہ نکتہ صائب نظر آتا ہے کہ ایک ایسی قیادت کو تخلیق کیا گیا جو اس کی میرٹ پر اہل نہیں تھی۔ اس پر دو آراء ہو سکتی ہیں۔ اب اس حقیقت کو بیان کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ پنجاب جو کہ اقتدار کا اصل مرکز ہے وہاں اقتدار‘ اسی خانوادے کی دوسری پیڑھی کو سونپ دیا گیا ہے۔

معاملہ جو پہلے تھا‘ وہ جوں کا توں آج بھی ہے۔ پرویز مشرف نے بھی سیاسی نظام کو بے حد نقصان پہنچایا اور اس کے دور میں بھی سیاست دانوں کو بے وجہ تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔ ستر سال کے منفی معاملات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ چہرے بدل جاتے ہیں مگر مکروہ کھیل ویسے ہی جاری و ساری رہتا ہے۔

دراصل سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لیڈر یا قائد‘ مصنوعی طور پر پیدا نہیں کیے جا سکتے ۔ جعلی نرسری میں لیڈر ٹائپ مخلوق کی نمو تو ہو سکتی ہے مگر جمہوری نظام کو مضبوط کر کے‘ اصل عوامی قیادت ہی مہیب مسائل کا حل ہے ۔ بلکہ یہ واحد حل ہے۔ اندازہ ہے کہ میری اس بات یا تجویز کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ریاستی اداروں اور عام لوگوں کے درمیان ذہنی خلیج بڑھتی چلی جا رہی ہے، اسے مصنوعی طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی سطح پر معاملہ اور بھی سنگین ہے۔

امریکا کی نئی انتظامیہ ہمارے ملک کے متعلق کس سوچ کی حامل ہے یہ سب کو معلوم ہے۔ اور اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ امریکا سے جو فکر اور سوچ‘ ہمارے متعلق برملا ظاہر کی جا رہی ہے اس کا جواب بالکل نہیں دیا جا رہا، آنے والے دنوں میں یہ معاملہ مزید بگاڑکی طرف جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ بین الاقوامی دباؤ ‘ حد درجہ نقصان پہنچا دے۔ ہمیں خود ‘ نازک ترین معاملات پر‘ افہام و تفہیم سے کسی منطقی حل کی طرف جانا چاہیے۔ ہمارے ہمسایہ ملک اندرونی خلفشار کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ قرائن بھی یہی ہیں کہ ہندوستان اور ٹی ٹی پی ہمارے خلاف متحد نظر آتے ہیں۔ حل صرف اور صرف ریاستی اداروں کے پاس ہے۔ بہت زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ گھاؤ بہت گہرے ہیں ان پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ معاملہ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اس کا فیصلہ‘ آنے والا وقت ہی کرے گا!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاست دانوں یہ معاملہ جائے تو جاتا ہے دیا گیا سب کچھ ملک کو کے پاس کی طرف

پڑھیں:

سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251101-03-3

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

عالم ِ اسلام کی فکری و سیاسی تاریخ میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام ایک ایسے مفکر، مصلح اور مجاہد ِ قلم کے طور پر روشن ہے جس نے بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات کو نہ صرف فکری سمت عطا کی بلکہ مسلمانانِ برصغیر کے سیاسی شعور کو ایک منظم نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ مولانا مودودیؒ کے افکار صرف مذہبی تعلیمات تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک جامع اسلامی نظامِ حیات، ریاست، معیشت، عدل، اور سیاست کے معمار کے طور پر سامنے آئے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی فکری جدوجہد کا آغاز ایسے زمانے میں کیا جب برصغیر سیاسی غلامی، فکری انتشار اور تہذیبی زوال کا شکار تھا۔ 1920ء کی دہائی میں مغربی فلسفہ، قومیت، جمہوریت، لادینیت، اور سرمایہ داری کے نظریات مسلمانوں کے ذہن و فکر پر چھا رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ نے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد سیاسی سامراجیت اور فکری الحاد کے ذریعے دنیا پر اپنی فکری بالادستی قائم کر لی تھی۔ ایسے میں مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک جامع فکری نظام پیش کیا، جس کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی کہ: ’’اسلام صرف عبادت یا مذہب نہیں، بلکہ ایک مکمل تہذیبی و سیاسی نظامِ زندگی ہے‘‘۔

مولانا مودودیؒ نے اسلامی ریاست کا تصور محض مذہبی حکومت کے طور پر نہیں بلکہ خلافت ِ الٰہیہ کے تصور کے ساتھ پیش کیا۔ ان کے نزدیک حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، اور ریاست کا کام محض اس حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنا ہے۔ یہ تصور جدید جمہوریت سے مختلف ہے، کیونکہ جمہوریت میں اقتدار عوام کا ہوتا ہے، جب کہ مولانا کے نزدیک اقتدار شرعی اصولوں کے تابع ایک امانت ہے۔ ان کی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ اور ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں یہ تصور انتہائی وضاحت سے بیان ہوا کہ اسلام میں اقتدار ذاتی مفاد نہیں بلکہ اجتماعی امانت ہے۔ یہی نظریہ بعد میں مصر، ترکی، ایران، سوڈان اور دیگر مسلم ممالک کی اسلامی تحریکوں کی فکری اساس بنا۔

قیامِ پاکستان سے قبل مولانا مودودیؒ نے مسلم لیگ کی سیاست پر تنقیدی نظر رکھی۔ ان کا خیال تھا کہ محض قومیت یا جغرافیہ کی بنیاد پر اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ممکن نہیں۔ تاہم قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے اس نوخیز ریاست کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھرپور فکری و سیاسی جدوجہد کی۔ 1941ء میں قائم ہونے والی جماعت ِ اسلامی ان کے نظریاتی وژن کی عملی تعبیر تھی جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلا منظم نظریاتی سیاسی پلیٹ فارم ثابت ہوئی۔ 1953ء کی تحریک ِ ختم ِ نبوت اور 1974ء میں اس مسئلے کے آئینی حل تک جماعت ِ اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے فکری اثرات نمایاں رہے۔ انہوں نے آئین سازی کے عمل میں بھی اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کا آئین اسلامی شریعت کے مطابق ہو، اور بالآخر 1973ء کے آئین میں قرآن و سنت کو بالادست قانون تسلیم کرنے کی دفعات اسی فکری دباؤ کا نتیجہ تھیں۔

آج کے دور میں جب عالمی سیاست نیولبرل ازم، سرمایہ داری، اور عسکری بالادستی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے، مولانا مودودیؒ کے افکار ایک متبادل فکری ماڈل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام صرف مذہبی اخلاقیات کا نظام نہیں بلکہ عالمی عدل و امن کا ضامن سیاسی و معاشی نظام بھی ہے۔ مغربی دنیا کے کئی مفکرین مثلاً John Esposito, Wilfred Cantwell Smith اور Olivier Roy نے اپنے تجزیات میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ مودودیؒ کے پیش کردہ ’’اسلامک آئیڈیالوجی‘‘ نے بیسویں صدی کے سیاسی فلسفے میں اسلامی انقلابی شعور کی نئی لہر پیدا کی۔

آج جب پاکستان میں سیاست مصلحت، کرپشن، اور ذاتی مفاد کے گرد گھوم رہی ہے، مولانا مودودیؒ کے نظریات اصول پسندی، عدل، احتساب، اور اسلامی طرزِ حکمرانی کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاست کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ اصلاحِ معاشرہ اور اقامت ِ دین ہے۔ یہی فلسفہ آج کے نوجوانوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے لیے راہِ عمل ہے۔ ان کی فکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عسکری طاقت پر انحصار کے بجائے فکری استحکام کو قوموں کی اصل قوت سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ علم، اخلاق، تنظیم اور کردار کو امت ِ مسلمہ کی ترقی کا بنیادی ستون قرار دیتے رہے۔

مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کو محض مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ زندگی کے ہمہ گیر نظام کے طور پر پیش کیا۔ ان کا فکری ماڈل آج بھی پاکستان اور امت ِ مسلمہ کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے بشرطیکہ ہم ان کے افکار کو محض کتابوں میں محفوظ رکھنے کے بجائے عملی سیاست، معیشت اور قانون سازی میں نافذ کریں۔ ’’اگر اسلام کو واقعی نظامِ حیات کے طور پر اپنایا جائے تو دنیا میں عدل، امن، مساوات اور انسانیت کا سنہری دور واپس آ سکتا ہے‘‘۔ مولانا مودودیؒ کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور ہر اس ذہن کو جھنجھوڑتا ہے جو سمجھتا ہے کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے الگ ہیں۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  •  عمران خان کی رہائی کےلیے تحریک چلانے کا اعلان
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • ہمیں دھمکی دیتے ہیں فورتھ شیڈول میں ڈال دیں گے، بھاڑ میں جائے فورتھ شیڈول، فضل الرحمان
  • طالبان رجیم کو پاکستان میں امن کی ضمانت دینا ہو گی، وزیر دفاع: مزید کشیدگی نہیں چاہتے، دفتر خارجہ
  • پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  •  حکومت یا عسکری قیادت سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو رہی، پی ٹی آئی چیئرمین
  • ہماری کوشش ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک مؤثر رابطے کا کردار ادا کیا جائے، محمود مولوی کا شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد بیان