Juraat:
2025-06-19@05:50:31 GMT

اِس بار مگر ایسا نہیں ہوا!

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

اِس بار مگر ایسا نہیں ہوا!

ب نقاب /ایم آر ملک

کیا صحافت یہی ہے کہ سچ کی آنکھیں دولت کی چمک پر چندھیا جائیں ؟کیا ایسا نہیں کہ اب نابینے کے ہاتھ میں لالٹین ہے ؟
اِ س بار دھاندلی کے حکمت سازوں نے منشا ء کے مطابق نتائج حاصل کرنا بھی چاہے تو نہ کر پائے ،عمران کے ساتھ عوام ہی نہیں عوامی رد عمل بھی کھڑا تھااور یہ ردِ عمل بدستور عمران کے دفاع میں موجود ہے۔
یہ 1977نہیں کہ اخبارات کے ذریعے رائے عامہ ہموار کی جائے، اختیارات کا زعم اب آخری سانسیں لے رہا ہے ،شہرِ اقتدار میں اپوزیشن کے الائنس پر دھاوا شاید زوال کی سیڑھی پر پہلا قدم ہے ،یہ پھسلا تو کچھ باقی نہیں رہے گا ،لوگ لیڈر شپ کے انتظار میں ہیں۔ شاہراہیں سراپا احتجاج ہو ںگی، انتخابات میں دھاندلی پرشفافیت کا پوچا مارنے والوں کے چہرے سے نقاب سرک چکا ،17سیٹوں پر اقتدار انجوائے کرنے والے قوم کو بتائیں کہ” رزلٹ ٹرانسمشن سسٹم ”کس نے متعارف کرایا خصوصی سافٹ ویئر بنانے میں کس کس کا دماغ کار فرما تھا ؟
رائے ونڈ کے حکمرانوں کے پنجاب اور وفاق میں اقتدار نے سیاسی زندگی اور ریاست کو مہلک نقاہت سے دوچار کیا ،صنعت کار حکمرانوں نے زرعی شعبے کی کمر توڑ کے رکھ دی اپنے دور ِاقتدار میں زرعی پیکیج کے نام پر کسان کارڈ کا لولی پاپ دیکر کسانوں کو لائنوں میں لگا کر بھکاری بنا یاگیا اور پھر اس خیراتی رقم کی میڈیا پر بڑے بڑے اشتہارات چلا کر تشہیر کی گئی۔
ہم جب روس کے انقلاب کے ورق اُلٹتے ہیں تو زار روس کی بادشاہت کا بانجھ پن سامنے آتا ہے جو اپنے ملک کے لاکھوں انسانوں کو بھوک اور قحط کی شکل میں نگل رہا تھا، زار شاہی ہماری بر سر اقتدار اشرافیہ کی طرح اُن کی مدد اور بحالی کا کوئی مداوا نہیں کر رہی تھی، ایک وقت آیا کہ بحران نے سبھی طبقات کو اپنی گرفت میں لے لیا، دولت کی اسی غیر مساویانہ تقسیم نے انقلابی نوجوانوں کی ایک نسل پیدا کی جو مکمل طور پر ریڈیکلائز تھی، اسی نسل کے جارحانہ کردار نے روس کے پہلے 1905-6کے انقلاب کی بنیادیں استوار کیں ۔
آج اقبال کا پاکستان اُنہی حالات کی عکاسی کر رہا ہے میں عمران خان کے ساتھ اُس نسل کو دیکھ رہا ہوں جو متحرک اور تبدیلی کی جانب گامزن ہوئی !
غم و غصے ،کراہت و حقارت کا ایک ایسا احساس ان نوجوانوں میں دکھائی دیا جس کے اظہار کے اثرات گلیوں ،محلوں ،اور گھروں میں دکھائی دے رہے ہیں۔
عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے بھاری رقوم کے بل بوتے پر پلڈاٹ جیسی جعلی تنظیموں کے جعلی سروے ،تجزیئے ،اعداد و شمار منشاء کے مطابق مرتب کرائے جاتے رہے ۔
میڈیا پر کرپشن کے ا سکینڈلز نے یار لوگوں کی جیسے روحیں قبض کر لیں ،کرپشن اور کمیشن کے بڑے بڑے کھاتے کھلے ،بدعنوانی کی داستانوں نے وطن عزیز کی اقدار پر سوالیہ نشان لگا دیا اور گڈ گورننس پر اُٹھنے والے سوالوں سے جاتی امرا کے شہنشاہوں کی طمانیت دائو پرلگ گئی ۔
چند بکائو صحافی زر کی حکومتی منڈی میں سب سے بہتر قیمت کے حصول کیلئے صحافت کے پیشے کو بیچنے کیلئے تیار و بے تاب دکھائی دیئے، ضمیر کے سودے میں یہ گھٹیا صحافی اپنی تجوریا ں بھرنے اور مراعات میں اضافے کی خاطر اک عرصہ سے سچائی کو بیچتے آرہے ہیں ۔ایسی صحافت پر یہ سوال اب شدت سے عوامی حلقوں میں سر اُٹھا رہا ہے کہ کیا سچ کو جھوٹ کے لباس میں چھپا کر اس بے ہودہ کرپشن کا کوئی انت بھی ہوگا ۔
ہمیں ایک ایسے نظام کی خواہش کے ساتھ قدم بڑھانا ہیں جو جھلستے اور جھلساتے مسائل سے نمٹ سکے، موروثی اقتدار کا گھنائونا کھیل کھیلنے والوں پر کراس کا نشان لگا سکے ،جس میں عوام کو جمہوریت کے چہرے پر بدترین سول آمریت کا نقاب چڑھا کر لوٹا جارہاہے، اس جمہوریت میں عوام کی ذلتوں ،محرومیوں کا قد اونچا ہوتا چلا گیا ۔
مفاہمت کے نام پرقوم نے ایک ناہلی دیکھی ،بانجھ پن دیکھا جوصرف اور صرف تابع وفرماں برداری کو برقرار رکھنے کا میثاق تھا۔ ماضی میں تابع و فرمان برداری کا یہ جوش پاک فوج جیسے محب وطن ادارہ پر اپنی ناپاک خواہشات کے تیر برساتا رہا جس کا تسلسل در پردہ آج بھی جاری ہے، حادثاتی سیاست دانوں نے وفادار بن کر نظریاتی سرحدوں کے محافظ ادارے کو ہدف بنایا اور ننگ وطن افراد پاک فوج کے خلاف ایک بیانیہ لیکر آج بھی رواں دواں ہیں ، یہ حقیقت ہے کہ وطن عزیز ایک اثر انگیز استحکام کی طرف بڑھ رہا تھاجو لوٹ مار کی تاریخ رقم کرنے والوں کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکتا رہا ۔
احتساب کا خوف اب یقینالوٹ مار کی تاریخ رقم کرنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے۔
شہر اقتدار میں تحفظ آئین کانفرنس کے شرکا کو پریس کانفرنس تک نہ کرنے دی گئی ،فسطائیت کرنے والے جان لیں کہ فروری 2024 میں ہونے والے یہ الیکشن تاریخ کے بد ترین الیکشن تھے، ایک ایسا صوبہ جہاں لے پالک انتظامیہ اور پولیس کے ذریعے الیکشن چرائے جاتے رہے ،منظم طریقے سے دھاندلی کی گئی ،عوام کا حق ِ خود ارادیت ،ووٹ کا تقدس 1985ء سے انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے خریدا اور بیچا جاتا رہااس کے خلاف ساری زبانیں گنگ ہو گئیں ۔اب عوام کے بر انگیختہ جذبات کو روکنا ممکن نہیں ،اُن کے جذبات کے آگے بند باندھنا ایک خواب ہوگا !
جس طرح عوامی مینڈیٹ چرایا گیا عوام اسے نہیں بھولے ،حالیہ عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی نے شریفوں کے مورال کو جو پہلے ہی خستہ تھا مزید خستہ کر دیا، ن لیگی امیدواران ایک ایک دروازے پر ووٹوں کی بھیک مانگ کر اُلٹے قدموں جیت کی ناکام خواہشیں لیکر لوٹتے رہے ،بجلی کے 300یونٹس تک معافی کے جھوٹے وعدے ،پولیس سسٹم کی بہتری کے وعدے ،ترقیاتی کاموں کا جھانسہ دیکر ایک بار پھر دھوکے سے عوام کی رائے کو یر غمال بنانے کی بھر پور ریہرسل کی گئی مگر 8فروری کو سرمائے کا شیر بھیگی بلی بن گیا۔ عوام جانتے ہیں کہ اُن کا حق خود ارادیت کس خفیہ ہاتھ نے چرایا اور ضلعی سطح پر کرپٹ بیورو کریسی پریذائیڈنگ اور ریٹرننگ آفیسرز کی شکل میں موجود رہی جو انتخابی نتائج کو پنجاب میں شریفوں کی منشا کے مطابق بدلتی رہی جو لندن پلان کا حصہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

قافلہ جو تیونس سے چلا ہے

وہ قافلہ تیونس سے چلا ہے مگر اُس کے قدموں کی دھمک نیویارک سے لے کر تل ابیب تک سنائی دے رہی ہے۔ یہ قافلہ نہ صرف غزہ کی طرف بڑھ رہا ہے بلکہ ہمارے زمانے کی مردہ ضمیری منافقت اور عالمی طاقتوں کے چہرے سے نقاب بھی نوچ رہا ہے۔ اس میں شامل نوجوان لڑکے، لڑکیاں، بزرگ، خواتین طالب علم، ماہی گیر، کسان، مزدور اور وہ سب جو اپنی آوازوں کو زنجیروں میں جکڑا سمجھتے تھے اب ایک نعرہ بن چکے ہیں۔

’’ فلسطین کو آزاد کرو۔‘‘یہ قافلہ محض لوگوں کی ایک صف نہیں یہ قافلہ ایک تاریخ ہے۔ یہ ان خوابوں کا قافلہ ہے جو صدیوں سے قتل کیے جا رہے ہیں۔ یہ قافلہ اُن بچوں کے لیے نکلا ہے جن کی آنکھوں میں نیند کی جگہ خوف ہے، تھکی ہوئی جاگی ہوئی آنکھیں، خواب سے محروم آنکھیں۔ یہ قافلہ ان بیٹیوں کے لیے ہے جنھیں رخصت ہونے سے پہلے باپ کی لاش دفنانا پڑی اور یہ قافلہ اُن ماؤں کے لیے ہے جنھوں نے دودھ کے بجائے اپنے بچوں کو صبر پلایا۔

میں نے اپنے پچھلے کالم میں گریٹا تھنبرگ کے بارے میں لکھا تھا، اس کو اور اس کے ساتھ موجود دیگر activists کو 8 جون کو اسرائیل نے روک لیا تھا۔ یہ کشتی امداد لے کر نکلی تھی۔ یہ بچی جو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف کھڑی ہوئی تھی، وہ آج فلسطین کے لیے کھڑی ہے اور اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ اس وقت پوری دنیا کے لوگ فلسطین کے لیے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

آج ہم اُس لمحے میں زندہ ہیں جہاں مظلوموں کی صف میں صرف مسلمان نہیں، صرف عرب نہیں بلکہ یہودی بھی شامل ہیں۔ وہ یہودی جو اسرائیل میں رہتے ہیں مگر جنھوں نے صیہونیت کے نام پر ہونے والی بربریت سے اپنا دامن الگ کیا ہے۔ تل ابیب میں مظاہرے ہو رہے ہیں ’’ ناٹ ان مائی نیم‘‘ Not In My Name کے پلے کارڈز تھامے نوجوان یہودی کھڑے ہیں اور وہ اعلان کر رہے ہیں کہ ظلم خواہ کسی بھی عقیدے یا قوم کے نام پر ہو ظلم ہی رہتا ہے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں، ہولو کاسٹ سے بچ جانے والے بعض بزرگ یہودی برسوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ ہمیں جس دکھ سے گزرنا پڑا ہم یہ نہیں چاہتے کہ وہی دکھ کسی اور پر مسلط کیا جائے۔‘‘ اب یہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ اب وہ وقت نہیں جب ان آوازوں کو آسانی سے دبا دیا جاتا تھا۔ اب سوشل میڈیا کی طاقت، عوامی شعور اور عالمی ضمیر نے چاہے دیر سے سہی مگر انگڑائی ضرور لی ہے۔

قافلے کی یہ روانی یہ جذبہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب عوام کھڑے ہوجائیں تو دنیا کی سب سے بڑی فوجیں سب سے مضبوط میڈیا ادارے اور سب سے مالدار کارپوریشنز بھی ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ ویتنام میں کیا ہوا تھا؟ کیا آپ کو جنوبی افریقہ کی نسل پرستی یاد ہے؟ ہر جگہ جب عوام نے مزاحمت کی جب دیوار پر پہلا پتھر مارا گیا تو وہی دیوار آخرکار گری۔

آج اسرائیل کی دیوارِ ظلم لرز رہی ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انسانیت کا ماتم ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُس ماتم سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور وہ آوازیں رُکنے والی نہیں۔ وہ عرب دنیا جو برسوں تک خاموش تماشائی بنی رہی اب وہاں کی گلیوں میں نعرے گونج رہے ہیں۔ تیونس الجزائر، لبنان، اردن ہر طرف عوام سڑکوں پر ہیں اور یہ عوام وہی ہیں جنھیں ان کے آمروں بادشاہوں اور استعماری تابعداری کے عادی حکمرانوں نے خاموش رکھا تھا۔

 یہ تحریک صرف مشرق تک محدود نہیں۔ امریکا میں برطانیہ میں فرانس میں جرمنی میں اور دوسرے یورپی ممالک میں لاکھوں لوگ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے نکل رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے طلبا اپنے تعلیمی کیمپس کو احتجاجی میدان بنا چکے ہیں۔ امریکی طلبا نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ جب دل میں سچائی ہو اور آنکھوں میں خواب ہوں تو ہاتھوں میں ہتھیار نہیں صرف پوسٹرز اور نعرے بھی دنیا ہلا سکتے ہیں۔

یہ وقت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تاریخ صرف بادشاہوں اور جنگوں سے نہیں بنتی تاریخ عوام سے بنتی ہے۔ جب عوام اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں جب وہ اپنے دکھوں اور محرومی سے حوصلہ پائیں جب وہ اپنی محرومیوں کو طاقت میں بدل دیں تو وہ سامراج کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں۔ اور آج یہی ہو رہا ہے وہ ظلم جسے میڈیا نے دفاعی کارروائی کہہ کر چھپایا اب اُس کی حقیقت بچے بچے پر عیاں ہو چکی ہے۔

صیہونیت اب ایک نظریے سے زیادہ ایک جرم بن چکی ہے۔ وہ جرم جو مذہب نسل، زمین اور طاقت کے نام پر کیا جا رہا ہے، مگر اُس کے مقابل ایک اور طاقت اُبھر رہی ہے عوام کی طاقت۔ اور عوام کی طاقت میں نہ نسل دیکھی جاتی ہے نہ مذہب، نہ قوم عوام کی طاقت کا صرف ایک اصول ہوتا ہے انصاف اور یہی انصاف اب صیہونیت کے محلات کو لرزا رہا ہے۔ یہ وقت ان حکمرانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے جو اب بھی سامراجی اتحاد میں اپنے مفاد تلاش کر رہے ہیں۔ جو اب بھی اسرائیل کے ساتھ تجارت اور دفاعی معاہدوں کو قومی مفاد کا نام دیتے ہیں۔ وہ سمجھ لیں کہ عوام اب جاگ چکے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ کون ظالم ہے؟ کون مظلوم وہ جان چکے ہیں کہ آزادی صرف ایک نعرہ نہیں ایک حق ہے۔

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد صرف فلسطینیوں کی نہیں رہی، یہ اب ہماری جدوجہد ہے، دنیا کے ہر باشعور انسان کی جدوجہد ہے۔ ہم اُس لمحے میں زندہ ہیں جہاں ہم چاہیں تو اس ظلم کو روک سکتے ہیں اور اگر خاموش رہیں تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ وہ قافلہ جو تیونس سے چلا ہے اُسے آپ روک نہیں سکتے، کیونکہ اُس کے قدموں کے نیچے صدیوں کی محرومیاں ہیں، اُس کے نعروں میں وہ درد ہے جسے دنیا نے نظر انداز کیا اور اُن کے دلوں میں وہ عزم ہے جو پہاڑوں کو بھی ہلا دے۔

ہم جانتے ہیں کہ ظلم کے دن گنے جا چکے ہیں اور جب عوام اُٹھ کھڑے ہوں تو کوئی طاقت انھیں روک نہیں سکتی، یہی وقت ہے جب ہمیں اپنے قلم اپنی زبان اور اپنی موجودگی کو اس جدوجہد کے ساتھ جوڑنا ہے کیونکہ یہ جنگ صرف فلسطین کی نہیں، انسانیت کی جنگ ہے۔

یہ قافلہ جو بسوں اور گاڑیوں کی صورت میں تیونس سے نکلا ہے، اس میں مصر اور لیبیا سے بھی لوگ شامل ہو رہے ہیں اور ان کی مانگ یہ ہے کہ غزہ تک امداد کو پہنچنے دیا جائے۔ جس طرح سے بھی ممکن ہو اپنا احتجاج اور اپنا ساتھ ہمیں فلسطین کے ساتھ بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • تہران خالی کرنے کی ٹرمپ دھمکی، ایسا کبھی نہیں ہوگا : ایرانی سفیر کا جواب
  • قافلہ جو تیونس سے چلا ہے
  • موساد کے اڈے پر ایسا میزائل مارا جس کا سراغ لگانا ممکن نہیں، ایران
  • اقتدار اللہ کی امانت، پائی پائی عوام کی ہے، مریم نواز
  • پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ عوام پر ڈرون حملہ ہے‘ کاشف سعید شیخ
  • اسرائیل پر ایسا حملہ کریں گے جو اسے پچھتانے پر مجبور کردے گا، مسعود پزشکیان
  • اقتدار اللہ کی امانت، ایک ایک پائی عوام کی ہے،خدمت کا سفررکے گا نہیں، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز
  • اقتدار اللہ کی امانت، ایک ایک پائی عوام کی ہے،  خدمت کا سفررُکے گا نہیں، مریم نواز
  • پاکستان میں ایسا پائیدار و جدید آئی سی ٹی نظام تشکیل دیا جائے گا جس سے پاکستان خطے میں آئی ٹی شعبے کا مرکز بن کر ابھرے گا،وزیرِاعظم محمد شہباز شریف
  • “ایسا دھماکا پہلے کبھی نہیں سنا”، تل ابیب سے اسرائیلی صحافی کا حیران کن بیان