بھارتی فوجیوں نے فروری میں 10 کشمیری شہید کیے
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
آج جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے دو کو دوران حراست بہیمانہ تشدد کر کے شہید کیا گیا۔ ان شہادتوں کے نتیجے میں ایک خاتون بیوہ اور تین بچے یتیم ہوئے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں کے دوران گزشتہ ماہ فروری میں 10 کشمیریوں کو شہید کیا۔ آج جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے دو کو دوران حراست بہیمانہ تشدد کر کے شہید کیا گیا۔ ان شہادتوں کے نتیجے میں ایک خاتون بیوہ اور تین بچے یتیم ہوئے۔ بھارتی فوجیوں، پیرا ملٹری اہلکاروں اور بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں نیشنل انویسٹی گیش ایجنسی (این آئی اے)، سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (ایس آئی اے) اور کاﺅنٹر انٹیلی جنس کشمیر (سی آئی کے) کی ٹیموں نے گزشتہ ماہ محاصرے اور تلاشی کی192 کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران 840 شہریوں کو گرفتار کیا ہے جن میں زیادہ تر سیاسی کارکن، نوجوان، تاجر اور طلباء شامل ہیں۔ گرفتار کیے جانے والوں میں سے اکثر کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) اور ”یو اے پی اے“ جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ نئی دلی کے مسلط کردہ لیفٹیننٹ گورنر کے ماتحت انتظامیہ نے گزشتہ ماہ مکانات اور اراضی سمیت 16 جائیدادیں ضبط کیں۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری
بھارتی اداروں میں بی جے پی کی بے جا مداخلت اور مذہبی خودمختاری پر حملے تیز ہو چکے ہیں۔
بھارت میں سکھوں کے جائز مطالبات کو دبانے کے لیے انہیں ’خالصتانی‘ اور ’ملک دشمن‘ قرار دینا مودی سرکار کا وتیرہ بن چکا ہے، جبکہ 1984 کے مظلوم سکھوں کو انصاف دلانے کے بجائے بی جے پی کی حکومت قاتلوں کو بچانے میں مصروف عمل ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق دہلی کے وزیر منجندر سنگھ سرسا نے 1984 سکھ فسادات کی رپورٹ طلب کرنے کےلیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ رپورٹ میں سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش کمل ناتھ کی گوردوارہ پر موجودگی کا ذکر موجود ہے، جبکہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق ہجوم نے کمل ناتھ کی قیادت میں دو سکھوں، اندر جیت سنگھ اور منموہن سنگھ، کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب میں زندہ جلا دیا تھا۔
ہائی کورٹ کے 2022 کے حکم پر مرکز کی جانب سے جمع کروائے گئے حلف نامے میں دانستہ طور پر کمل ناتھ کے کردار کو نظرانداز کیا گیا، جو انصاف کے نظام پر بڑا سوال ہے۔ وکیل ایچ ایس پھولکا کے مطابق پولیس ریکارڈ اور اخبارات میں کمل ناتھ کی جائے وقوعہ پر موجودگی کے شواہد موجود ہیں، اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے تمام ملزمان کو اس بنیاد پر بری کردیا کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے۔
صحافی سنجے سوری کی عینی شاہد رپورٹ اور پولیس ریکارڈز میں شواہد کے باوجود کمل ناتھ کی موجودگی کو نظرانداز کرنا مودی کی قیادت اور جانبدار عدالتی نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بی جے پی حکومت نے 1984 کے فسادات میں کمل ناتھ کے کردار کو حلف نامے میں چھپا کر انصاف پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
بی جے پی حکومت سکھ کارکنوں کو دانستہ طور پر ’خالصتانی‘ کہہ کر گرفتاریوں اور میڈیا بلیک آؤٹ کو جواز فراہم کرتی ہے، جبکہ گردوارہ بورڈز کی تشکیل نو سے لے کر دہلی ایس جی پی سی کے استعفوں تک یہ اقدامات منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ محض پی آر اقدامات کے ذریعے مودی سرکار سکھ برادری میں حکمران جماعت کے خلاف اجنبیت کم نہیں کر سکتی، اور 1984 کی سکھ نسل کشی میں ملوث افراد کو تحفظ فراہم کرنا اس حکومت کی اقلیت دشمن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔