خیبرپختوخوا کے ضلع مانسہرہ میں تھانہ صدر کی حدود میں قیمتی مورتیوں کے ملنے اور قتل کا کیس سامنے آیا ہے۔ پولیس کے مطابق تھانہ صدر کی حدود سے ایک چرواہے کو قیمتی مورتیاں ملنے کا انکشاف ہوا جس کو دوستوں نے ہتھیانے کے لیے نوجوان کو قتل کرڈالا۔ مقتول کے ورثا نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے واقعے کی تحقیقات میں غفلت سے کام لیتے ہوئے ملزمان کے بجائے ورثا کو ہی نشانہ بنانا شروع کردیا۔
تفصیلات کے مطابق معاملہ جب میڈیا تک پہنچا تو ورثا کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس کو مقامی صحافی کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کرنا مہنگا پڑگیا جس پر پولیس نے پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی۔

مقامی صحافی شیر افضل کے مطابق وہ ایک صحافی ہیں اور ان کا کام کیس کو رپورٹ کرنا ہے، ہزارہ ایکسپریس نیوز ایک رجسٹرڈ پلیٹ فارم ہے جو پروفیشنل اخلاقیات کے تحت عوامی صحافت کر رہا ہے اور ڈیجیٹل میڈیا الائنس پاکستان کا ممبر بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا پولیس سے ذاتی جھگڑا نہیں، ہم اپنا کام کرتے ہیں، لیکن پولیس ذاتیات پر اتر آئی ہے۔ دراصل ہم نے رواں ماہ تھانہ بٹل میں منشیات کے ایک کیس پر انوسٹیگیٹیو رپورٹ نشر کی ہے جس کا غصہ اِس کیس میں پیکا کے تحت کارروائی کی صورت میں نکالا جا رہا ہے۔

تاہم، متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ پولیس نے ملزمان کے بجائے مقتول ہی کی ایک بہن کو حراست میں لیا، 2دن تھانے میں رکھ کر تشدد کیا گیا، اور قتل کیس قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے۔ اسی طرح مقتول کے دوسرے بھائی اور 2 بہنوئیوں سمیت کچھ رشتہ داروں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے اور تشدد کرکے قتل کیس قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے۔ جب تشدد کے باوجود متاثرہ خاندان نے الزام قبول نہیں کیا تو پولیس نے 20، 20ہزار روپے لے کر انہیں چھوڑ دیا۔

خیال رہے متاثرہ خاندان نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر مقامی ڈیجیٹل میڈیا چینل کے ذریعے پولیس کے خلاف پریس کانفرنس کی جس پر پولیس نے صحافی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی، اور موقف اپنایا کہ صحافی شیر افضل گوجر نے پریس کانفرس نشر کرکے محکمہ پولیس کو بدنام کیا ہے۔

ڈی پی او مانسہرہ شفیع اللّه گنڈا پور نے کہا کہ مانسہرہ میں پیکا کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوگا، شیر افضل گجر کے مراسلے والا معاملہ ختم ہوچکا ہے۔ آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں مانسہرہ کو امن کا گہوارہ بنانے اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے پوری طرح چوکس ہیں۔ پریس كانفرنس میں لگائے گئے الزامات کی جانچ کے لیے ایس پی ریشم جہانگیر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ہے۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے احسان جاوید تنولی کا کہنا ہے کہ مانسہرہ پولیس نے 14 فروری کو ہمیں لیٹر لکھا، جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں ایک کیس میں 5 مورتیاں ریکوری میں ملی ہیں۔ لیٹر میں ہمیں ان مورتیوں کی جانچ کے حوالے سے لکھا گیا تھا، مگر جب ہم پولیس کے پاس گئے تو انہوں نے کہا مورتیاں تحویل میں لے لی گئی ہیں، ہم اپنے اعلٰی افسران سے ہدایت لے کر سپرد کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ مورتیوں کی جانچ کے بعد پتا چلے گا کہ یہ اصلی ہیں یا نہیں، اور اگر اصلی ہیں تو ان کی عمر اور اہمیت کیا ہے۔ مورتیوں کی جانچ سے قبل کچھ کہنا ممکن نہیں۔ اینٹیک کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی، مگر یہ واضح تب ہوگا جب میٹیریل کی جانچ ہوگی۔ 100سال سے پرانی کوئی بھی چیز ہو وہ حکومت کی ملکیت ہوتی ہے، ان مورتیوں کی حوالگی بھی عدالت سے آرکیالوجی ڈیپارمنٹ کو ہی ہوگی۔

اس حوالے سے مختلف صحافیوں نے موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ شاید پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ پریس کانفرنس کی کوریج کرنے پر کسی صحافی کے خلاف مقدمہ درج کیا جا رہا ہے، ہمیں پیکا قانون سے یہی خدشات تھے کہ یہ قانون ذاتی انتقام اور ہراسانی کے لیے استعمال ہوگا اور آج ثابت ہوگیا کہ یہ قانون پاکستان میں انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے کے لیے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ پیکا قانون نافذ ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی صحافی کے خلاف پیکا قانون کا نام لے کر ہراساں کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے مورتیوں کے ملنے، چرواہے کے قتل ہونے اور صحافی کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہونے کے معاملے پر ڈی پی او مانسہرہ کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ تاہم، ابھی تک کسی قسم کی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ متاثرہ خاندان کی جانب سے کمیٹی تشکیل دیے جانے کے عمل کو سراہا گیا ہے لیکن تھانہ صدرکے اہلکاروں اور افسران کے رویے پر ابھی بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پولیس پیکا ایکٹ صحافی قتل مانسہرہ مورتیاں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پولیس پیکا ایکٹ صحافی قتل مورتیاں متاثرہ خاندان کرنے کے لیے مورتیوں کی کی جانب سے پیکا ایکٹ پولیس نے کی جانچ کے خلاف کہا کہ نے کہا رہا ہے کے تحت

پڑھیں:

صبا قمر کا صحافی نعیم حنیف کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان

پاکستان کی معروف اداکارہ صبا قمر دو دہائیوں سے شوبز انڈسٹری کا اہم حصہ ہیں، انہوں نے صحافی نعیم حنیف کے سنگین الزامات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کر لیا۔

صبا قمر ان دنوں اپنے دو ڈراموں پامال اور کیس نمبر 9 کی وجہ سے خبروں میں ہیں، جبکہ ان کے کراچی سے متعلق حالیہ بیان نے بھی سوشل میڈیا پر خاصی بحث چھیڑ دی تھی، اسی تناظر میں صحافی نعیم حنیف نے صبا قمر کے ماضی سے متعلق متنازع دعوے کیے۔

نعیم حنیف اکثر فنکاروں کے بارے میں پسِ پردہ خبریں دیتے نظر آتے ہیں، انہوں نے الزام عائد کیا کہ صبا قمر 04-2003 میں لاہور میں ایک ایسے شخص کے گھر میں رہتی تھیں جس سے ان کا تعلق تھا، لیکن شادی نہ ہونے پر وہ شخص انہیں ہراساں کرنے لگا۔

صبا قمر نے ان الزامات کو بےبنیاد اور توہین آمیز قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اس معاملے پر قانونی کارروائی کریں گی۔

سوشل میڈیا پر بھی صارفین نے اس تنازعے پر شدید ردِعمل دیا ہے، ایک صارف نے لکھا، ’صرف صبا کا نام کیوں لیا، اس شخص کا نام کیوں نہیں بتایا؟‘ جبکہ ایک اور نے کہا، ’اچھا کیا صبا نے ایسے لوگوں کو عدالت تک لے جانا چاہیے۔‘

اداکارہ کے اس اقدام کو مداحوں اور شوبز شخصیات کی جانب سے حوصل مند اور مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صبا قمر کا صحافی نعیم حنیف کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان
  • لاہور پولیس کا کرایہ داری ایکٹ پرعملدرآمد، خلاف ورزی پر کارروائیاں تیز
  • اسلام آباد میں گولڈ اور دیگر قیمتی پتھروں کی نمائش
  • کراچی: نوجوان کی موت پر 6 اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج
  • اسلام آباد: نشے میں دھت ہو کر ہلڑ بازی اور پولیس اہلکار پر تشدد کرنے والا نوجوان گرفتار، مقدمہ درج
  • کراچی؛ ایف آئی اے نے پولیس حراست میں نوجوان کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرلیا
  • کراچی: نوجوان کی پولیس حراست میں ہلاکت، 6 اہلکاروں پر مقدمہ درج
  • پی ٹی آئی یوتھ ونگ کی راولپنڈی میں ریلی، 30 افراد کیخلاف مقدمہ درج
  • ساونڈ سسٹم ایکٹ کی خلاف ورزی: راولپنڈی میں ایک شہری پر مقدمہ درج
  • راولپنڈی میں ساونڈ سسٹم ایکٹ کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج