مانسہرہ: قیمتی مورتیوں کی ہیرپھیر، پولیس کا صحافی پر پیکا ایکٹ کا مقدمہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
خیبرپختوخوا کے ضلع مانسہرہ میں تھانہ صدر کی حدود میں قیمتی مورتیوں کے ملنے اور قتل کا کیس سامنے آیا ہے۔ پولیس کے مطابق تھانہ صدر کی حدود سے ایک چرواہے کو قیمتی مورتیاں ملنے کا انکشاف ہوا جس کو دوستوں نے ہتھیانے کے لیے نوجوان کو قتل کرڈالا۔ مقتول کے ورثا نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے واقعے کی تحقیقات میں غفلت سے کام لیتے ہوئے ملزمان کے بجائے ورثا کو ہی نشانہ بنانا شروع کردیا۔
تفصیلات کے مطابق معاملہ جب میڈیا تک پہنچا تو ورثا کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس کو مقامی صحافی کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کرنا مہنگا پڑگیا جس پر پولیس نے پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی۔
مقامی صحافی شیر افضل کے مطابق وہ ایک صحافی ہیں اور ان کا کام کیس کو رپورٹ کرنا ہے، ہزارہ ایکسپریس نیوز ایک رجسٹرڈ پلیٹ فارم ہے جو پروفیشنل اخلاقیات کے تحت عوامی صحافت کر رہا ہے اور ڈیجیٹل میڈیا الائنس پاکستان کا ممبر بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا پولیس سے ذاتی جھگڑا نہیں، ہم اپنا کام کرتے ہیں، لیکن پولیس ذاتیات پر اتر آئی ہے۔ دراصل ہم نے رواں ماہ تھانہ بٹل میں منشیات کے ایک کیس پر انوسٹیگیٹیو رپورٹ نشر کی ہے جس کا غصہ اِس کیس میں پیکا کے تحت کارروائی کی صورت میں نکالا جا رہا ہے۔
تاہم، متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ پولیس نے ملزمان کے بجائے مقتول ہی کی ایک بہن کو حراست میں لیا، 2دن تھانے میں رکھ کر تشدد کیا گیا، اور قتل کیس قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے۔ اسی طرح مقتول کے دوسرے بھائی اور 2 بہنوئیوں سمیت کچھ رشتہ داروں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے اور تشدد کرکے قتل کیس قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے۔ جب تشدد کے باوجود متاثرہ خاندان نے الزام قبول نہیں کیا تو پولیس نے 20، 20ہزار روپے لے کر انہیں چھوڑ دیا۔
خیال رہے متاثرہ خاندان نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر مقامی ڈیجیٹل میڈیا چینل کے ذریعے پولیس کے خلاف پریس کانفرنس کی جس پر پولیس نے صحافی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی، اور موقف اپنایا کہ صحافی شیر افضل گوجر نے پریس کانفرس نشر کرکے محکمہ پولیس کو بدنام کیا ہے۔
ڈی پی او مانسہرہ شفیع اللّه گنڈا پور نے کہا کہ مانسہرہ میں پیکا کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوگا، شیر افضل گجر کے مراسلے والا معاملہ ختم ہوچکا ہے۔ آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں مانسہرہ کو امن کا گہوارہ بنانے اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے پوری طرح چوکس ہیں۔ پریس كانفرنس میں لگائے گئے الزامات کی جانچ کے لیے ایس پی ریشم جہانگیر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ہے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے احسان جاوید تنولی کا کہنا ہے کہ مانسہرہ پولیس نے 14 فروری کو ہمیں لیٹر لکھا، جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں ایک کیس میں 5 مورتیاں ریکوری میں ملی ہیں۔ لیٹر میں ہمیں ان مورتیوں کی جانچ کے حوالے سے لکھا گیا تھا، مگر جب ہم پولیس کے پاس گئے تو انہوں نے کہا مورتیاں تحویل میں لے لی گئی ہیں، ہم اپنے اعلٰی افسران سے ہدایت لے کر سپرد کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مورتیوں کی جانچ کے بعد پتا چلے گا کہ یہ اصلی ہیں یا نہیں، اور اگر اصلی ہیں تو ان کی عمر اور اہمیت کیا ہے۔ مورتیوں کی جانچ سے قبل کچھ کہنا ممکن نہیں۔ اینٹیک کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی، مگر یہ واضح تب ہوگا جب میٹیریل کی جانچ ہوگی۔ 100سال سے پرانی کوئی بھی چیز ہو وہ حکومت کی ملکیت ہوتی ہے، ان مورتیوں کی حوالگی بھی عدالت سے آرکیالوجی ڈیپارمنٹ کو ہی ہوگی۔
اس حوالے سے مختلف صحافیوں نے موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ شاید پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ پریس کانفرنس کی کوریج کرنے پر کسی صحافی کے خلاف مقدمہ درج کیا جا رہا ہے، ہمیں پیکا قانون سے یہی خدشات تھے کہ یہ قانون ذاتی انتقام اور ہراسانی کے لیے استعمال ہوگا اور آج ثابت ہوگیا کہ یہ قانون پاکستان میں انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے کے لیے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ پیکا قانون نافذ ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی صحافی کے خلاف پیکا قانون کا نام لے کر ہراساں کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے مورتیوں کے ملنے، چرواہے کے قتل ہونے اور صحافی کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہونے کے معاملے پر ڈی پی او مانسہرہ کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ تاہم، ابھی تک کسی قسم کی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ متاثرہ خاندان کی جانب سے کمیٹی تشکیل دیے جانے کے عمل کو سراہا گیا ہے لیکن تھانہ صدرکے اہلکاروں اور افسران کے رویے پر ابھی بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پولیس پیکا ایکٹ صحافی قتل مانسہرہ مورتیاں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پولیس پیکا ایکٹ صحافی قتل مورتیاں متاثرہ خاندان کرنے کے لیے مورتیوں کی کی جانب سے پیکا ایکٹ پولیس نے کی جانچ کے خلاف کہا کہ نے کہا رہا ہے کے تحت
پڑھیں:
گھگھر پھاٹک میں بلوچستان کے جوڑے اور بچے کا قتل، مقتولہ کے بھائی اور والد پر مقدمہ درج
کراچی:گھگھر پھاٹک بمبوگوٹھ میں پسند کی شادی پر قتل کیے گئے بلوچستان کے جوڑے اور کمسن بچے کو سپرد خاک کردیا گیا، اسٹیل ٹاؤن پولیس نے مقتولہ سکینہ کے بھائی، والد سمیت 6 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسٹیل ٹاؤن تھانے میں مقدمہ مقتول عبدالمجید کے بھائی امام بخش ولد محمد بخش کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمے میں مقتولہ سکینہ کے بھائی شہزاد عرف راجہ، والد گلاب خان، میرعلی عرف حسن سمیت 6 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق مقتول عبدالمجید نے سات سے آٹھ سال قبل سکینہ سے کورٹ میرج کی تھی، عبدالمجید کا 3 سالہ بچہ عبدالنبی بھی تھا یہ لوگ 8 ماہ سے گھگھر پھاٹک بمبوگوٹھ میں رہائش پذیر تھے۔
امام بخش کے مطابق عبدالمجید محنت مزدوری کرتا تھا شہزاد عرف راجہ نے فون پر مجھے بتایا کہ ان لوگوں کو قتل کردیا ہے جاکر لاشیں اٹھالو، پسند کی شادی کرنے پر دونوں خاندانوں میں تنازع چل رہا تھا اور دوسال قبل صلح ہوگئی تھی، دوست کے ہمراہ بھائی کے گھر پہنچا تو لاشیں پڑی تھیں جنھیں کلہاڑی کے وار کرکے قتل کیا گیا تھا، مقتولین کی لاش تدفین کے لیے بلوچستان کے علاقے بیلہ منتقل کی گئی تھیں لیکن تدفین سے انکار پر مقتولین کی میتیں دوبارہ سہراب گوٹھ ایدھی سرد خانے منتقل کردی گئیں۔
سرد خانے کے باہر ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے مقتول عبدالمجید کے بڑے بھائی نوروز نے بتایا کہ بھائی، بھابی اور بھتیجے کو قتل کرنے کے بعد بھابھی کے بھائی نے خود فون کرکے واقعے کی اطلاع دی، مقتولین کو قتل کرنے کے واقعات میں 4 افراد ملوث ہیں، عبدالمجید اور سکینہ نے چار یا پانچ سال قبل پسند کی شادی کی تھی ہماری صلح ہو گئی تھی اور اس کے باوجود قتل کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھابھی اپنی مرضی سے آئی تھی اور پھر کورٹ میں جاکر نکاح کیا، بلوچستان کے زمیندار نے کہا کہ تم ایک یا دو سال کے لیے یہاں ہو اگر تمہارا کوئی مرگیا ہے تو اسے اپنے آبائی گاوں لے کر جاؤ یہاں تدفین کی اجازت نہیں ہے، مقتول کی تدفین گھگھر پھاٹک میں ہی کی جائے گی اس لیے وہ میتیں دوبارہ لے کر آئے ہیں۔
انھوں نے حکومت وقت سے انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
بعدازاں مقتولین کی نماز جنازہ ادا کردی گئی، نماز جنازہ گھگھر پھاٹک کے مقامی قبرستان میں ادا کی گئی، نماز جنازہ میں مقتولین کے اہل خانہ، عزیز واقارب اور علاقہ مکین بڑی تعداد میں شریک ہوئے، نماز جنازہ کے بعد مقتولین کو آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کردیا گیا۔