جنگ میں ناکامی، صیہونی فوج کی زبانی
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: زندہ بچ جانے والے صیہونیوں نے حملے کے بعد اپنے فوجیوں کے ذریعے بچائے جانے کا طویل انتظار کیا۔ اپنے کچھ ابتدائی نتائج شائع کرنے سے ایک دن قبل صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے، اسرائیلی فوجی حکام نے بتایا کہ یہ ناکامی حماس کی صلاحیتوں اور ارادوں کے بارے میں غلط مفروضوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کچھ فوجی حکام نے اس ناکامی کا سبب درست انٹیلی جنس کا "نشہ" بتایا ہے، یہ ناکامی کیوجہ انٹیلیجنس کی کمی اور نقص تھا۔ حماس کے بارے میں غلط نظریہ اسرائیلی انٹیلی جنس حلقوں اور اعلیٰ فوجی کمان کے اندر بڑی حد تک چیلنج نہیں ہوسکا تھا اور اس کی وجہ سے ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ تنظیم و ترتیب: علی احمدی
خبر رساں ادارے A.
فوج کہاں تھی؟
نیویارک ٹائمز کے مطابق فوج کی تحقیقاتی رپورٹ میں ان استفسارات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے، جنہوں نے اسرائیل کو اس دن سے پریشان کر رکھا ہے، جب حماس کے زیرقیادت ہزاروں بندوق برداروں نے اسرائیلی کیمونٹی، فوجی اڈوں اور ایک میوزک فیسٹیول پر دھاوا بول دیا تھا۔ حکام کے سامنے سوال یہ تھا کہ فوج کہاں تھی؟ اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق انہوں نے فوج کے انٹیلی جنس جمع کرنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے حملے کے ردعمل کی چھان بین میں دسیوں ہزار گھنٹے صرف کیے۔ یہ حملہ جس میں تقریباً 1200 افراد، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، ہلاک اور 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، یہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لیے سب سے خطرناک دن تھا۔
درست انٹیلی جنس کا نشہ
رپورٹ کے مطابق زندہ بچ جانے والے صیہونیوں نے حملے کے بعد اپنے فوجیوں کے ذریعے بچائے جانے کا طویل انتظار کیا۔ اپنے کچھ ابتدائی نتائج شائع کرنے سے ایک دن قبل صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے، اسرائیلی فوجی حکام نے بتایا کہ یہ ناکامی حماس کی صلاحیتوں اور ارادوں کے بارے میں غلط مفروضوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کچھ فوجی حکام نے اس ناکامی کا سبب درست انٹیلی جنس کا "نشہ" بتایا ہے، ناکامی کیوجہ انٹیلیجنس کی کمی اور نقص ہی تھا۔ حماس کی طاقت کے بارے میں غلط اندازہ اسرائیلی انٹیلی جنس حلقوں اور اعلیٰ فوجی کمان کے اندر بڑی حد تک چیلنج نہیں ہوسکا تھا اور اس کی وجہ سے ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
خالص فوجی تحقیقات
اس انکوائری میں ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے، ان اسباب میں حملے کے پہلے گھنٹوں میں ناگہان طور پر پیدا ہونیوالی افراتفری کا تاخیر سے دیا جانیوالا فوجی جواب بھی شامل تھا، جب حماس کی طرف سے غزہ کی سرحد پر تعینات فوجیوں کو تیزی سے مغلوب کیا گیا اور فوج کی جنوبی کمان اور غزہ ڈویژن کو زیر کر لیا گیا۔ فوجی اور انٹیلی جنس ناکامیوں کے نتائج بڑی حد تک مقامی اور بین الاقوامی نیوز میڈیا کی تفصیلی تحقیقات سے مماثل ہیں۔ اسرائیلی فوجی حکام نے کہا ہے کہ اب فوج احتساب کی خاطر ان واقعات کا اپنا ورژن پیش کر رہی ہے۔
صیہونی فوج نے اپنی تحقیقات کو دیگر اداروں کے ساتھ مربوط نہیں کیا، جیسے کہ شن بیٹ کی داخلی سلامتی ایجنسی، جو غزہ میں انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے بھی ذمہ دار ہے، یا پولیس وغیرہ۔ فوج نے برسوں کی حکومتی پالیسی اور فیصلہ سازی پر بھی توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے حملہ ہوا تھا۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک آزاد کمیشن کے وسیع عوامی مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے بارہا کہا ہے کہ وہ جنگ کے بعد سخت سوالات کا جواب دیں گے، جس کے ذریعے ذاتی طور پر کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔ فوج کی اندرونی انکوائریوں کا مقصد انفرادی ذمہ داری کا پتہ لگانا نہیں تھا، یہ بعد میں اسرائیل کے نئے فوجی چیف آف اسٹاف، ایال ضمیر کے تحت ہوسکتا ہے، جو مارچ کے اوائل میں لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حلوی کی جگہ لے رہے ہیں۔
حماس کی کامیاب رزاداری جنرل حلوی کا کہنا تھا کہ اصل مقصد شکست سے سبق سیکھنا ہے۔ جنرل حلوی نے اسرائیلیوں کی حفاظت میں اپنی کمان میں فوج کی ناکامی کی ذاتی طور پر ذمہ داری قبول کی ہے اور انہوں نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ہارون حلیوا نے بھی 2024 میں اسرائیلی فوج کی غزہ بریگیڈ کے سربراہی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مزید استعفے متوقع ہیں۔ فوج کے مطابق حماس حالیہ برسوں میں اسرائیل کو یہ باور کروا کر دھوکہ دینے میں کامیاب رہی کہ وہ غزہ میں پرسکون ہے اور صرف معاشی حالات کو بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
اہم نتائج کے تحریری خلاصے میں فوج نے کہا ہے کہ "7 اکتوبر سے پہلے معلومات کو عام طور پر ایک غیر حقیقی یا طوفان الاقصیٰ کو ناقابل عمل منصوبے کے طور پر غلط سمجھا گیا۔" فوج نے اندازہ لگایا تھا کہ حماس کی طرف سے لاحق خطرہ سرحد کے ساتھ 4 سے 8 پوائنٹس تک محدود تعداد میں چھاپوں کی حد تک ہے، یہ بھی اندازہ غلط تھا کہ حملے کے دوران ہزاروں نہیں درجنوں عسکریت پسند شامل ہوں گے۔ یہ بھی ایک غلط اسرائیلی مفروضہ تھا کہ حماس کسی بھی بڑی تبدیلی سے قبل ابتدائی انٹیلی جنس وارننگ دی گی، لیکن 7 اکتوبر کو کسی حملے کی منصوبہ بندی کی کوئی پیشگی انٹیلی جنس نہیں تھی اور نہ ہی کوئی انتباہ جاری کیا گیا تھا۔
نتیجتاً، سرحدی دفاع کے لیے صرف باقاعدہ فوجیں تعینات کی گئی تھیں، ہمیشہ کی طرح ہفتے کے روز جب یہودیوں کی چھٹی بھی تھی۔ 6 اور 7 اکتوبر کی درمیانی رات کو غزہ میں کچھ ہلچل کے ابتدائی اشارے موصول ہوئے تھے۔ جیسے اسرائیلی سم کارڈوں سے لیس درجنوں سیل فونز کا چالو ہونا وغیرہ، لیکن اسرائیلی حکام نے حماس کی صلاحیتوں کے بارے میں پیشگی اقدامات کو اٹھانے کے لیے کافی یقین دہانی کرائی تھی۔ (ابتدائی خلاصے میں خاص طور پر 7 اکتوبر کے حملے سے پہلے کچھ مہینوں تک نچلے رینکس کی انتباہات پر توجہ نہیں دی گئی تھی، بلکہ انہیں خارج از امکان قرار دیا گیا تھا۔)
حملوں کے تین مراحل
فوجی انکوائری کے مطابق آپریشن تین مرحلوں پر مشتمل تھا۔ پہلے ابتدائی آدھے گھنٹے میں حماس کے تقریباً 1200 کمانڈوز شامل تھے۔ دوسرا حملہ تقریباً صبح 7 بجے سے صبح 9 بجے تک ہوا، جو تقریباً 2,000 مزید کمانڈوز اور دیگر مسلح تنظیموں کے بندوق برداروں پر مشتمل تھا۔ تیسرا مرحلہ زیادہ تر ایک سویلین ہجوم پر مشتمل تھا جس پر حماس کے فوجی کمانڈروں نے بظاہر زور دیا تھا۔ اسرائیلی فوجی ہیڈکوارٹر اور زمینی کمانڈر حملے کی مجموعی تصویر بنانے میں کامیاب نہیں سکے۔ مسلح شہری، افسر، سپاہی جو ابتدائی ردعمل کے لئے میں پہنچ گئے تھے، یہ ابتدائی چند گھنٹوں کے دھچکے کو ختم کرنے کے لیے ناکافی تھے۔ جس میں تین بریگیڈ کمانڈر، کئی بٹالین اور کمپنی کمانڈر مارے گئے۔
صیہونی کیمونٹی کا ردعمل
انکوائری کے مطابق 9 اکتوبر کی رات تک صیہونی فوج کو یہ اعلان کرنے میں اچھا خاصا وقت لگ گیا کہ اس نے سرحدی علاقوں کا آپریشنل کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ فوج نے حالیہ دنوں میں ان کمیونٹیز کے رہائشیوں کے سامنے اپنے نتائج پیش کرنے کا آغاز کیا، جو حملے کی زد میں آئیں۔ ان کے جوابی ردعمل ملے جلے تھے، کچھ رہائشیوں کا کہنا تھا کہ ان کے گاؤں سے متعلق پوچھ گچھ نے جوابات سے زیادہ سوالات اٹھائے ہیں، اور کچھ نے کہا ہے کہ انہیں نئی بصیرت حاصل ہوئی ہے۔ ایک اسرائیلی صحافی، گاؤں نہال اوز کے رہائشی امیر تبون نے فوج کی انکوائری کو "گہری اور سنجیدہ" رپورٹ قرار دیتے ہوئے سراہا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ اس میں کچھ زیادہ مشکل نکات اٹھائے گئے ہیں۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ یہ بنیادی طور پر ایک ٹیکٹیکل رپورٹ تھی، جو ایک مکمل آزاد تحقیقاتی کمیشن کی ضرورت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ 7 اکتوبر کو اپنے خاندان کی آزمائش پر مبنی لمحات اور وسیع تر اسرائیل فلسطین تنازعہ کے بارے میں کتاب "غزہ کے دروازے" کے مصنف مسٹر ٹیبون نے کہا ہے کہ فوجی انکوائری نے انھیں کچھ نئی تفصیلات فراہم کی ہیں، جسے انھوں نے "نہال اوز کے دفاع کے لیے بہادرانہ جنگ" کے طور پر بیان کیا ہے۔ اگرچہ یہ بہت زیادہ نہیں۔
اس نے کہا کہ حملہ آور تین مرحلوں میں اس کے گاؤں میں داخل ہوئے تھے، دو نہیں، جیسا کہ اس نے پہلے سوچا تھا، اور یہ کہ تیسرا مرحلہ صبح گیارہ بجے کے قریب تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کو منظم ہونے اور ہمیں بچانے کے لیے ایک بڑی فورس بھیجنے میں کتنا زیادہ وقت لگا۔ حماس نے 15 ماہ کی تباہ کن جنگ کا آغاز کیا، جواب میں اسرائیل نے غزہ میں حماس کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 48,000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا گیا، جن میں اکثریت خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی تھی۔ جنگ نے غزہ کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں بدل دیا ہے اور تنازعہ ایک وسیع علاقائی تنازعہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوجی حکام کے بارے میں غلط اسرائیلی فوج فوجی حکام نے میں اسرائیل نے کہا ہے کہ انٹیلی جنس ناکامی کی کی وجہ سے انہوں نے کے مطابق حملے کی حماس کی کیا گیا حماس کے گیا تھا حملے کے کیا ہے فوج نے فوج کی تھا کہ کے لیے نے فوج کے بعد
پڑھیں:
غاصب صیہونی رژیم مسجد اقصی پر غاصبانہ قبضہ جمانا چاہتی ہے، قائد انصاراللہ یمن
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم مسجد اقصی کو مسمار کر کے اس کی جگہ خیالی عبادت گاہ تعمیر کرنے پر مبنی اشتعال انگیز ویڈیو جاری کر کے اس خطرناک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انصاراللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے آج جمعرات 24 اپریل 2025ء کے دن اپنی تقریر میں خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم مسجد اقصی کو مسمار کرنے کا شیطانی منصوبہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا: "اسرائیلیوں نے حال ہی میں ایک اشتعال انگیز ویڈیو جاری کی ہے جس میں مسجد اقصی کو مسمار کر کے اس کی جگہ خیالی عبادت گاہ تعمیر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ سازش ہے۔ اس بارے میں عرب حکومتوں نے صرف بیان دینے پر ہی اکتفا کیا ہے جبکہ بعض عرب ذرائع ابلاغ صیہونی دشمن سے تعاون کر رہے ہیں۔" انہوں نے غزہ میں صیہونی جارحیت کی شدت میں اضافے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "صیہونی دشمن نے غزہ میں صحت کے مراکز تباہ کر کے مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھی ہوئی ہے اور گذشتہ پچاس دنوں سے غزہ کا شدید محاصرہ کر رکھا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم بھوک کو فلسطینی عوام کے خلاف ایک ہتھیار اور نسل کشی کے آلے کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور اس نے کھانے پینے کی اشیاء اور ادویہ جات غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھی ہیں۔ اس طرح غزہ میں فلسطینی عوام شدید ترین بحرانی حالات کا شکار ہو چکے ہیں۔" انصاراللہ یمن کے قائد نے مزید کہا: "صیہونی دشمن نے فلسطینی قیدیوں سے ظالمانہ سلوک جاری رکھا ہوا ہے اور یوں اپنے جرائم بڑھاتا جا رہا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی انسانی اصول کا پابند نہیں ہے۔"
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے لبنان کے حالات کے بارے میں کہا: "صیہونی دشمن ہر روز لبنان پر جارحیت کر رہا ہے اور حتی جنوبی لبنان میں رہائشی عمارتوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے تاکہ وہاں زندگی معمول پر واپس نہ آ سکے۔" انہوں نے حزب اللہ لبنان کے بارے میں کہا: "حزب اللہ لبنان نے پوری طاقت سے صیہونی دشمن کا رعب اور دبدبہ خاک میں ملا دیا ہے جس کی وجہ سے صیہونی رژیم اس کے مقابلے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ حزب اللہ لبنان نے جنگ بندی کی بھرپور پابندی کی ہے لیکن صیہونی رژیم اب تک بارہا اس کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔" انصاراللہ یمن کے سربراہ نے لبنان حکومت کو اسرائیلی جارحیت کی روک تھام کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا: "صیہونی دشمن بدستور لبنان کی سرزمین پر جارحیت جاری رکھے ہوا ہے۔" انہوں نے خبردار کیا کہ صیہونی دشمن سے ہر قسم کی سازباز کا مطلب لبنانی قوم سے واضح خیانت ہو گا۔ سید بدرالدین الحوثی نے جنگ بندی کی پابندی کے لیے غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا: "امریکہ صیہونی رژیم کی مدد کے لیے مخصوص قسم کے ہتھکنڈوں سے لبنان میں انارکی اور عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔"
قائد انصاراللہ یمن نے مسلمانان عالم پر زور دیا کہ وہ غزہ میں جاری ظلم و ستم پر خاموش تماشائی نہ بنیں۔ انہوں نے کہا: "ہمیں چاہیے کہ مسلمانان عالم کو ان کی دینی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی یاددہانی کروائیں تاکہ وہ ظلم و ستم پر خاموش تماشائی نہ بنیں کیونکہ امت مسلمہ کی خاموشی صیہونی دشمن کو مجرمانہ اقدامات انجام دینے میں مزید جری کر سکتی ہے۔" سید بدرالدین الحوثی نے غاصب صیہونی رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا: "صیہونی دشمن کے مقابلے میں ذلت اور جھک جانا کسی کے فائدے میں نہیں ہے۔ صیہونی دشمن حتی ان افراد کے لیے بھی ذرہ برابر اہمیت کا قائل نہیں ہے جو امت مسلمہ میں ہیں اور اس کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔ صیہونی رژیم سے دوستی کا مطلب صرف اور صرف اسے مضبوط بنانا اور امت مسلمہ کو نابود کرنا ہے۔" انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: "صیہونی دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کا نتیجہ امت مسلمہ کی شکست اور ہار کی صورت میں ظاہر ہو گا اور امت مسلمہ اپنا وقار، سرزمین اور خودمختاری سب کچھ کھو بیٹھے گی۔ واحد راہ حل اس غاصب رژیم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔"