یوکرین، عالمی طاقت کا یوٹرن
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یو کرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی ملاقات تلخ کلامی میں بدل گئی۔ روس کے ساتھ جنگ بندی پر دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے پر سخت الزامات لگائے۔ اس واقعے کے بعد بین الاقوامی سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی تلخ گفتگو کے سامنے آجانے سے ایک واضح عالمی اصول کی حقیقت دنیا کے سامنے پھر آشکار ہوئی ہے کہ بڑی طاقت کے مفادات جب تبدیل ہوجائیں تو پھرکمزور ملک خواہ اتحادی ہو یا مخالف کیمپ سے تعلق رکھتا ہو وہ یکساں طور پر بڑی طاقت کے ہاتھوں سرد مہری، ناروا سلوک اور لاتعلقی کا شکار ہوجاتا ہے۔
یوکرین کی روس کے خلاف جنگ کے دوران امریکا اور صدر بائیڈن نے نہ صرف یوکرین کا سرپرست اور اتحادی بن کر اربوں ڈالرزکے ہتھیار، امداد، عالمی حمایت فراہم کرکے روس کے خلاف جنگ کو جاری رکھا کیونکہ امریکی مفادات کا یہی تقاضا تھا۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی امریکا کی نظر میں آزادی کے ہیرو اور امریکا میں مقبول تھے لیکن 20 جنوری کو ری پبلکن صدر ٹرمپ کی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی امریکی مفادات کے تقاضے تبدیل ہوگئے تو روس کے صدر پیوتن سے مذاکرات ہونے لگے اور صرف چار ہفتے کے عرصے میں روسی صدر پیوتن سے امریکی ڈائیلاگ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی سے وہائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس سے جو تلخ گفتگو ہوئی اس کے وائرل ہونے سے دیگر اقوام کے لیے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ بڑی طاقتوں کے اتحادی بن کر اُن کے مفادات کے لیے اپنے ملکی اور قومی مفادات کی قربانی دینے والوں کو بالٓاخر بڑی طاقت کے ہاتھوں لاتعلقی، بحران اور تنزلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے مابین ہونے والی اس دھواں دھار ملاقات پرکینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی ممالک صدر زیلنسکی کی حمایت میں بول پڑے ہیں اور کہا ہے کہ یوکرین کو اکیلا نہ سمجھا جائے۔ یہ ساری باتیں ظاہر ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتیں اور اس معاملے میں اگر اختلافات بڑھ گئے تو امریکا کی یوکرائن کے لیے حمایت میں واضح کمی ہو گی اور تیسری عالمی جنگ کے برپا ہونے کی آوازیں بلند ہوتی رہیں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی نے کینیڈا، میکسیکو، چین اور یورپی یونین کو پہلے ہی بہت بے چین کر رکھا ہے۔
یوکرین کے معاملے میں امریکی انتظامیہ کی یک رخی پالیسیاں مذکورہ بالا تمام ممالک کے صبرکے اونٹ پر آخری تنکا ثابت ہو سکتی ہیں۔ کسی معاملے میں حالات کس طرح پلٹا کھاتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا میں انتظامیہ یا حکومت کی تبدیلی کے بعد یوکرین روس جنگ کا پورا منظر نامہ تبدیل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
کہاں اس بات پر مذاکرات ہو رہے تھے کہ روس اور یوکرین، دونوں جنگ بندی پر رضامند ہو جائیں اور کہاں اب جنگ شروع کرنے اور حالات کو موجودہ نہج تک پہنچانے کا سارا ملبہ یوکرین پر ڈالا جا رہا ہے، حالانکہ یوکرین کو روس کے خلاف کھڑا کرنے اور اسے ہلا شیری دینے کے ذمے دار نیٹو، یورپ اور امریکا تینوں ہیں۔ ان تینوں نے ہی یوکرین کے صدر کو کہا تھا کہ وہ روس کے خلاف ڈٹ جائیں تو ان کی ہر طرح سے مدد کی جائے گی۔
سوویت یونین کا بچ جانے والا حصہ یعنی روس یوکرین کو اب بھی اپنا ماتحت رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری وجہ یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کی خواہش ہے جس نے حالات اس نہج تک پہنچائے۔ 2022ء تک یعنی جنگ سے پہلے تک کی صورتحال یہ تھی کہ یو کرین کے صدر (ولادیمیرزیلنسکی) اپنے ملک کو نیٹو کا رکن بنانا چاہتے تھے جب کہ روس ان کے اس فیصلے یا خواہش کے خلاف تھا۔ روس کا موقف تھا کہ یوکرین نیٹو کا رکن بنتا ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ امریکا اور نیٹو روس کی سرحدوں تک پہنچ گئے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین اس تنازع میں یو کرین کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
یوں روس اور یوکرین کے مابین تناؤ اورکشیدگی میں اضافہ ہونے لگا۔ روس یوکرین کو روس اور یورپ کے نیٹو ممالک کے مابین ایک بفر ریاست سمجھتا ہے۔ ان حالات میں زیلنسکی کے یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل کرنے کے اصرار پر روس کے کان کھڑے ہونا قدرتی امر تھا۔ روس نے ان خدشات کے پیشِ نظر ہی آج سے کم و بیش تین سال پہلے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ روسی قیادت کو یقین تھا کہ چند روز میں یوکرینی حکومت کا خاتمہ کر کے وہاں اپنی حمایت یافتہ حکومت قائم کر لیں گے، لیکن یورپ اور امریکا کی جانب سے یوکرین کی ہر طرح سے مدد روسی قیادت کی اس خواہش کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ امریکا کی جانب سے یوں تو یوکرین کی مدد کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں پھر بھی ثبوت کے طور پر امریکا کے سابق ترجمان برائے قومی سلامتی جان کِربی کا ایک بیان پیش کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے اپنے دور میں کہا تھا کہ امریکا رواں سال یوکرین کو فنڈنگ ختم ہونے سے پہلے ایک اور امدادی پیکیج فراہم کرے گا۔ نیدرلینڈز نے بھی یوکرین کو 18 ایف 16 جنگی طیارے دینے کا اعلان کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کو امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین مسلسل امداد فراہم کر رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ یوکرین اب تک روس کے سامنے ڈٹا ہوا تھا، لیکن اب ساری صورتحال تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کیونکہ امریکا میں حکومت تبدیل ہو چکی ہے اور نئے صدر ٹرمپ کی اپنی پالیسیاں اور اپنے منفرد منصوبے ہیں جن میں یوکرین روس جنگ فٹ نہیں بیٹھتی، چنانچہ وہ یوکرین کے درپے ہیں۔ ایک بہت ہی اہم سوال! موجودہ حرکیات کے ساتھ، روس یقیناً صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔
یہاں کچھ ممکنہ طریقے ہیں۔ روس امریکا اور یورپ میں سمجھی جانے والی غیر یقینی صورتحال اور ممکنہ تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، یوکرین میں تنازعہ کو بڑھا سکتا ہے روس یورپ کو توانائی فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے۔ یہ یورپی ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنی توانائی کا فائدہ اٹھا سکتا ہے، خاص طور پر وہ جو روسی گیس پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ روس اپنے مفادات اور ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے امریکی اور یورپی قیادت کے اندر کسی بھی سمجھی جانے والی تقسیم یا کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ روس مشرقی یورپ اور بحیرہ اسود کے علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کو جاری رکھ سکتا ہے، ممکنہ طور پر امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے عزم اور اتحاد کی آزمائش کر رہا ہے وہ عوامل جو روس کے اقدامات کو متاثر کر سکتے ہیں نئی انتظامیہ کے تحت امریکی پالیسی کی سمت روس کے اقدامات کا تعین کرنے میں اہم ہوگی۔
یورپی ممالک کے درمیان اتحاد اور عزم کی سطح روس کے حساب کتاب کو بھی متاثر کرے گی۔ روس کی اقتصادی صورتحال، بشمول پابندیوں اور توانائی کی قیمتوں کے اثرات بھی اس کے اقدامات کی تشکیل میں کردار ادا کریں گے۔ مجموعی طور پر، صورت حال پیچیدہ ہے، اور روس کے اقدامات مختلف عوامل پر منحصر ہوں گے۔ٹرمپ پر روس کا اعتماد ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جب کہ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے اگر کوئی معاہدہ کیا جاتا ہے تو یہ پوتن پر اعتماد کا اظہار ہوگا، روس کی پوزیشن زیادہ اہم ہے۔ فتح کے لیے روس کی حکمت عملی اس کے کنٹرول سے باہر ہونے والے عمل پر منحصر ہے، جس کی وجہ سے پوتن کے لیے ٹرمپ یا کسی اور پر اعتماد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اگر ٹرمپ کی پالیسیاں روس کے مفادات سے ہم آہنگ ہوں تو اعتماد پیدا ہو سکتا ہے۔ امریکا اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، عالمی سیاست اور معیشت کے لیے اہم ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور پوتن کی قربت نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جس کے اثرات مستقبل میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ توانائی کی ضروریات، تیل کی ترسیل، اور پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون عالمی توانائی مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم، اس کے لیے سیاسی اور اقتصادی چیلنجز کو حل کرنا ہوگا۔
یوکرین کو ٹرمپ اچانک بیچ منجھدار نہیں چھوڑ رہے دراصل وہ چاہتے ہیں کہ امریکا سے امداد کی صورت میں اربوں ڈالر کا جو اسلحہ اور ہتھیار یوکرین کو دیا گیا اُس کے عوض زیلنسکی امریکا کو منافع اب کچھ فائدہ بھی دیں ٹرمپ کی نظر یوکرین کی قیمتی معدنیات پر ہے مگر ٹرمپ کا یہ انداز کسی صورت یوکرین کے مفاد میں نہیں تھا۔
زیلنسکی کی مقبولیت میں چار فیصد کمی اور ملک میں انتخابات کا مطالبہ ہی تازیانے سے کم نہ تھا کہ پوتن سے ٹیلیفونک گفتگوکے بعد ٹرمپ نے رواں برس مئی میں روس کے دورے کا عندیہ دیدیا ہے یہ عندیہ بھی دباؤ کا ایک حربہ ہے جو زیلنسکی کے سیاسی کردار کے خاتمے اور چھینے گئے علاقوں سے یوکرین کی ہمیشہ کے لیے محرومی پرمنتج ہوسکتا ہے۔ روس کو امریکا اپنا احسان مند بناکر چین سے فاصلہ رکھنے کی فرمائش کے قابل ہوجائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور یوکرین کے یوکرین کے صدر صدر زیلنسکی روس کے خلاف امریکا میں زیلنسکی کے ڈونلڈ ٹرمپ امریکا اور کے اقدامات کے درمیان اور یورپی کہ یوکرین یوکرین کو امریکا کی یوکرین کی کہ امریکا تبدیل ہو فراہم کر اور یورپ بڑی طاقت ممالک کے ٹرمپ اور ٹرمپ کی سکتا ہے تھا کہ رہا ہے روس کی کے لیے
پڑھیں:
وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
VOA کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔
1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔
مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد
صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
VOA بحال ٹرمپ صحافی غیر آئینی وائس آف امریکا