کابل، طالبان، حقانیہ: پرانے ساز اور نئے نغمے
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
امریکا نے چاہا، امریکا آگیا۔ امریکا نے چاہا، امریکا چلا گیا۔ اس آنے جانے کے بیچ کئی زمانے ہیں۔ پہلا زمانہ تو وہ ہے جس میں امریکا نے افغانستان کی دائیں بازو کی جماعتوں کے الٹے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی۔ تب ساتھ آنے والے لوگ مجاہد، لڑاکے، زمین زادے اور فریڈم فائٹر کہلائے۔ ان کو پگڑیوں داڑھیوں اور بو بھری جرابوں کے ساتھ اوول میں خوش آمدید کہا گیا۔ کسی نائب صدر نے ان سے نہیں کہا کہ اوول آفس میں داخل ہونے کے بھی کچھ ادب آداب ہوتے ہیں۔
سوویت یونین کے حصے بخرے ہوگئے تو امریکا نے مجاہدین کی ایک پوری بریگیڈ کو گندے بچے کہہ دیا اور کابل کی چابیاں طالبان کے سیدھے ہاتھ پر رکھ دیں۔ تقریباً 9برس تک وہ سخت گیر اسلامی قوانین، اقلیت مخالف بیانیے اور عورت دشمن رویے کے ساتھ اقتدار میں رہے۔ دنیا کی ہزار شکایتوں کے باجود امریکا نے یہ سب ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا۔ ان کے اقتدار کو تحفظ دینے کے لیے پاکستان میں جاری جہادی سرگرمیوں، رسائل و جرائد، جلسے جلوسوں، جنازے کی غائبانہ نمازوں اور عالمی چندہ مہم کو بھی برداشت کیا گیا۔
لیں جی نائن الیون ہوگیا۔ ماضی اور حال کے بیچ ایک گہری لکیر کھینچ دی گئی۔ اب دنیا یا تو نائن الیون سے پہلے تھی یا اب نائن الیون کے بعد ہے۔ اس نئے منظر نامے میں امریکا نے طالبان کو سرتاسر بدی کا محور قرار دے دیا ہے۔ طالبان غلط، ان کا سایہ غلط۔ان کے نام جیسے جن بچوں کے نام ہیں وہ بچے غلط، جس گلاس میں پانی پیا وہ گلاس غلط، خود پانی بھی غلط، زندہ رہنے کے لیے انہوں نے جو آکسیجن کھینچی وہ آکسیجن بھی غلط۔
مکمل غلط والے اس بیانیے کے تحت برسوں تک جنگ جاری رہی۔ وقت آیا کہ سورج نے بہت سہولت سے پلٹا کھایا اور دنیا کو بتایا کہ اب ہم طالبان کو 2مختلف دھڑوں میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک دھڑا گڈ ہے دوسرا دھڑا بیڈ ہے۔ بیانیہ ساز کارخانوں میں ابھی اس گڈ اور بیڈ کے مصالحے مکس ہو ہی رہے تھے کہ خبر آئی کہ چشم ساقی نے اب گڈ اور بیڈ کو بھی دو دو دھڑوں میں دیکھنا شروع کردیا ہے۔ زیادہ گڈ اور کم گڈ، زیادہ بیڈ اور کم بیڈ، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے والی اس پوری صورتحال سے گزرتے ہوئے کہانی دوحہ مذاکرات تک آگئی۔
دنیا کی ہر بڑی اسکرین پر اب ایک ہی منظر ہے۔ صحافی طالب کا دامن نچوڑ رہا ہے اور امریکی نمائندے وضو کر رہے ہیں۔ طالبان کے پاپ دھل گئے، اور نائن الیون کے بعد افغانستان کا ریاستی اور سیاسی ڈھانچہ قائم رکھنے کے لیے جو سیاست دان، افسران، کماندان اور قوم قبیلے کام آئے تھے وہ سب غلط ہوگئے۔ امریکا نے ایسے ہی منہ موڑ لیا جیسے ان دنوں یو ایس ایڈ کے ذمہ داروں سے موڑا ہوا ہے۔ میسج ڈیلیور ہو رہا ہے، بلو ٹک بھی آرہا ہے مگر جواب نہیں آرہا۔
قطر کے ست ستارہ ہوٹلوں میں طالبان کے ساتھ مسلسل مذاکرات کے نتیجے میں امریکا نے باور کروا دیا کہ افغانستان کے دستخطی یہ ہوں گے۔ ان کو طاقت کے ٹیکے بھی نہیں لگانے مگر انہیں مرنے بھی نہیں دینا ہے۔ طاقت کے کاروبار میں اسے کسی کے اختیار کو legitimacy دینا کہتے ہیں۔
جیسے برطانیہ نے متحدہ ہندوستان سے نکلتے وقت اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ایک سیاسی بندو بست کرنا ضروری سمجھا تھا، ٹھیک اسی طرح امریکا نے بھی ضروری جانا کہ جاتے جاتے کابل میں ایسی فیلڈنگ لگائی جائے جو خواستہ نخواستہ ہمارے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی رہے۔
برطانیہ جب بندوبست کر رہا تھا تو وہ پاکستان کو سوویت یونین کے آگے ریت کی بوری کی طرح دیکھ رہا تھا۔ جیسے کابل میں امیر عبد الرحمان یا امیر دوست محمد خان کی حکومتوں کو وہ سویت قوتوں کے سامنے ریت کی بوریاں بنا کر رکھتا تھا۔ افغانستان سے انخلا کے وقت امریکا طالبان کو ریت کی بوری بناکر روس اور چین کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔
امریکی ریاضی کے مطابق جب بندوبست مکمل ہوگیا تو امریکا نے سامان سمیٹا، طالبان کے لیے پچھلا دروازہ کھولا، بھاری اسلحہ چھوڑا، فون فلائٹ موڈ پر لگایا اور افغانستان سے نکل گیا۔ زمین و آسمان کی ساری نصرتیں طالبان کے ساتھ شامل حال ہوگئیں اور ایک کے بعد ایک علاقہ فتح کرتے ہوئے وہ کابل میں داخل ہوگئے۔
امریکا کا خیال تھا کہ اگر معاملات سیاسی قوتوں کے حوالے کردیے گئے تو افغانستان پڑوسی ممالک کے قریب چلا جائے گا۔ تاجکستان، اس سے آگے روس، پھر ایران اور چین سے افغانستان کا خوشگوار تعلق امریکا کو وارے میں نہیں پڑتا۔ یہ سوچ کر امریکا نے کابل کے دروازے طالبان پر کھول دیے کہ روس سے ملنے والے پرانے دکھ یہ کسی حد تک تو یاد رکھیں گے۔ دکھ درد سے کوئی تو تنازعہ جنم لے گا، اور ایک تنازعہ ہی تو ہے جو آٹو طریقے سے ہمارے مفادات کو تحفظ فراہم کر رہا ہوتا ہے۔
امریکا کی روانگی کے بعد جب طالبان شہر در شہر چڑھے آرہے تھے تو افغان سیاست دان، مشران، امدادی کارکنان، موسیقار، صحافی و ادیب، خواتین کھلاڑی و صحافی، ہیلتھ ورکرز اور سول سوسائٹی کے نمائندے بین الاقوامی اداروں کے ملازم خوف کے مارے افغانستان سے فرار ہونے لگے۔ جو شہری طالبان کی سوچ اور عقیدے پر نہیں تھے وہ بھی اڑان بھرتے جہازوں کی دم سے لٹک گئے۔
اس پوری بھگدڑ میں سب سے پہلے ایک طالب دشمن اور امریکا نواز بزرگ کو بھی فرار ہونا چاہیے تھا۔ وہ کہیں بھی باآسانی فرار ہوسکتا تھا، مگر وہ کابل میں اپنے گھر کے پائیں باغ میں بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ قہوہ پیتا رہا۔ اس بزرگ نے صدر اشرف غنی کو بھی پیغام بھجوایا، دیکھو آسمانوں پر فیصلے ہوچکے ہیں، مزاحمت مت کرنا۔
طالبان کے نمائندوں کی ایوان صدر میں اشرف غنی سے ایک مختصر ملاقات ہوئی۔ سلام اور وعلیکم سلام کے بیچ ہی شطرنج کی بساط پر مہرے بدل گئے۔ امر اللہ صالح نے پنجشیر کی راہ لی۔ اشرف غنی اڑن کٹولے پر بیٹھ کر لاہوت و لامکان کی طرف نکل گئے۔ کابل کا بزرگ اب بھی تسلی سے 30دانوں والی تسبیح پھیرتا رہا۔ آنے والوں کو آتے ہوئے اور جانے والوں کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
یہ مطمئن بزرگ کیوں نہیں بھاگا۔ اب کہاں ہے اور کیا سوچتا ہے؟ اگلی نشست میں بات کرتے ہیں!
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: نائن الیون امریکا نے طالبان کے کابل میں کے ساتھ کے بعد کو بھی کے لیے
پڑھیں:
افغانستان ثالثی کے بہتر نتائج کی امید، مودی جوتے کھا کر چپ: خواجہ آصف
سیالکوٹ (نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں بتایا ہے کہ طورخم بارڈر غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کی بیدخلی کیلئے کھولا گیا ہے۔ کسی قسم کی تجارت نہیں ہو گی۔ بیدخلی کا عمل جاری رہنا چاہئے تاکہ اس بہانے دوبارہ نہ ٹک سکیں۔ اس وقت ہر چیز معطل ہے۔ ویزا پراسس بھی بند ہے۔ جب تک گفت و شنید مکمل نہیں ہو جاتی یہ پراسس معطل رہے گا۔ افغان باشندوں کا معاملہ پہلی دفعہ بین الاقوامی سطح پر آیا۔ ترکیہ اور قطر خوش اسلوبی سے ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پہلے تو غیرقانونی مقیم افغانوں کا مسئلہ افغانستان تسلیم نہیں کرتا تھا۔ افغانستان کا مؤقف تھا کہ غیرقانونی مقیم افغانوں کا مسئلہ پاکستان کا ہے۔ اب اس کی بین الاقوامی سطح پر اونرشپ سامنے آ گئی۔ سیز فائر کی خلاف ورزی ہم تو نہیں کر رہے افغانستان کر رہا ہے۔ اس ثالثی میں چاروں ملکوں کے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے گفتگو کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ساری قوم خصوصاً خیبر پی کے کے عوام میں سخت غصہ ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے خیبر پی کے صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ حل صرف واحد ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی بند ہو۔ اگر دونوں ریاستیں سویلائزڈ تعلقات بہتر رکھ سکتے تو یہ قابل ترجیح ہو گا۔ بھارت کے پراکسی وار کے ثبوت کی اگر ضرورت پڑی تو دیں گے۔ بھارت ہمیں مشرقی اور مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے۔ مشرقی محاذ پر تو بھارت کو جوتے پڑے ہیں۔ مودی تو چپ ہی کر گیا ہے۔ اس محاذ پر پرامید ہیں کہ دونوں ملکوں کی ثالثی کے مثبت نتائج آئیں گے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ترجمان افغان طالبان کے گمراہ کن بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی پر تمام پاکستانی متفق ہیں۔ اس اتفاق رائے میں پاکستان کی قوم‘ سیاسی اور فوجی قیادت شامل ہے۔ افغان طالبان بھارتی پراکسیز کے ذریعے دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ طالبان حکومت اندرونی دھڑے بندی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ خواتین‘ بچوں اور اقلیتوں پر جبر افغان طالبان کا اصل چہرہ ہے۔ طالبان چار برس بعد بھی عالمی وعدے پورے نہ کر سکے اور بیرونی عناصر کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ پاکستان کی افغان پالیسی قومی مفاد اور علاقائی امن کیلئے ہے۔ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا۔ جھوٹے بیانات سے حقائق نہیں بدلیں گے۔
پشاور (نوائے وقت رپورٹ) طورخم بارڈر سے 20 روز بعد غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کی واپسی شروع ہو گئی۔ تاہم طورخم سرحد تجارت اور پیدل آمدورفت کیلئے بدستور بند رہے گی۔ ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر بلال شاہد نے کہا ہے کہ طورخم سرحدی گزرگاہ کو ملک میں غیر قانونی رہائش پذیر افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کیلئے کھول دیا گیا ہے۔ سینکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے جنہیں امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انہیں افغانستان جانے کی اجازت دیدی گئی۔ دوسری طرف چمن بارڈر سے ایک روز میں 10 ہزار 700 افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھجوایا گیا۔