اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان اقتصادی جائزے کے سلسلے میں مذاکرات جاری ہیں، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے  وفد کو ملکی معاشی صورت حال اور اصلاحاتی ایجنڈے پر بریفنگ دی ہے۔

نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق بین الاقوامی  مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کی اقتصادی کارکردگی کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی کی طرف سے پیش کی جانے والی گرین انیشیٹو رپورٹ بھی زیر غور آئی۔  آئی ایم ایف وفد کو گرین انیشیٹو پر موسمیاتی تبدیلی کے منصوبوں کی رپورٹ پیش کردی گئی۔

’دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا؟ روزہ مکروہ کروا رہی ہو‘، شبیر جان نے میزبان کو ڈانٹ دیا

ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے مطالبے پر وزارت خزانہ نے رپورٹ تیار کرائی تھی۔ علاوہ  ازیں مذاکرات میں پی ایس ڈی پی اخراجات اور کٹوتی کے بارے میں بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔ دریں اثنا وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے آئی ایم ایف کے وفد نے ملاقات کی ہے، جس میں وزیر خزانہ کی جانب سے معاشی صورت حال اور اصلاحاتی ایجنڈے پر بریفنگ دی گئی ہے۔

آئی ایم ایف وفد کی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات میں سیکرٹری خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر بھی شریک ہیں، جس میں وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کو ملک کی معاشی صورتحال سے آگاہ کیا اور  معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر بریفنگ دی گئی۔

پرویز الہٰی کیخلاف درج مقدمات کی رپورٹ لاہور ہائیکورٹ میں جمع

واضح رہے کہ پہلے مرحلے میں آئی ایم ایف وفد کے ساتھ تکنیکی سطح کے مذاکرات جاری ہیں، جس میں آئی ایم ایف وفد کی قیادت جائزہ مشن کے سربراہ نیتھن پورٹر کر رہے ہیں۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جولائی تا فروری معاشی اعشاریوں پر آئی ایم ایف وفد کو پریزنٹیشن دی گئی۔ ذرائع کے مطابق وفد کو مالیاتی خسارہ، پرائمری بیلنس، صوبوں کے سرپلس، ریونیو کلیکشن پر تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔

علاوہ ازیں آئی ایم ایف وفد سے رواں مالی سال کے لیے جولائی تا جنوری ریونیو پر بات بھی بات ہوئی۔  اس موقع پر اکنامک ونگ، بجٹ ونگ، ایکسٹرنل فنانس ونگ، ریگولیشنز ونگ، ڈی جی ڈیٹ  نے آئی ایم ایف وفد کو بریفنگ دی، جس میں بتایا گیا کہ  جولائی تا دسمبر مالیاتی خسارہ ایک  ہزار 537 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔

عید الفطر کس تاریخ کو منائی جائے گی ؟ اہم پیشگوئی سامنے آ گئی 

ریونیو کلیکشن پر چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے آئی ایم ایف وفد کو بریفنگ دی، جس میں  ایف بی آر بورڈ ممبران بھی شریک تھے۔ مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف وفد آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے اپنی تجاویز دے گا۔

یاد رہے کہ  پاکستان کی جانب سے 7 ارب ڈالرز قرض پروگرام کی شرائط پر عملدرآمد کی رپورٹ پیش  کردی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ   رواں مالی سال کی پہلی ششماہی سے متعلق رپورٹ بھی آئی ایم ایف کو پیش  کی گئی ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے وفد کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام پر سختی سے کاربند رہنے کے لیے پُرعزم ہے۔  ملک میں میکرو اکنامک استحکام پیدا ہوچکا ہے۔ ٹیکس اور توانائی کے شعبے میں بھی اصلاحات جاری ہیں۔

6 روز قبل اغوا ہونیوالی نئی نویلی دلہن جھنگ سے بازیاب

وفد کو سرکاری اداروں میں رائٹ سائزنگ اور نجکاری میں پیشرفت پر بھی بریفنگ دی گئی۔ وفد کو بتایا گیا کہ   ایکسچینج ریٹ اور زرمبادلہ ذخائر مستحکم ہیں۔  آئی ایم ایف مشن کو جولائی تا فروری معاشی اعشاریوں پر بریفنگ بھی دی گئی۔

آئی ایم ایف وفد کو بتایا گیا کہ  مالیاتی خسارہ، پرائمری بیلنس، صوبوں کا سرپلس، ریونیو محاصل میں بہتری آئی ہے۔ آئی ایم ایف وفد سے رواں مالی سال کے لیے جولائی سے جنوری تک ریونیو پر بات چیت بھی ہوئی۔

پاکستان میں موجود آئی ایم ایف کا وفد دیگر وزارتوں کے حکام سے بھی ملاقاتیں کرے گا۔

مصطفیٰ عامر قتل کیس میں نیو ائیر نائٹ پارٹی کا عینی شاہد بھی سامنے آگیا

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: آئی ایم ایف وفد کو رواں مالی سال بریفنگ دی گئی ہے کے لیے

پڑھیں:

ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر

اللہ بھلا کرے ہمارے ناخداؤں کا، صبح شام ہمیں یقین دلائے رکھتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، گھبرانا نہیں۔ بلکہ ثبوت کے طور پر کئی دعوے اور مختلف معاشی اشاریے پیش کیے جاتے ہیں کہ لو دیکھ لو، جنگل کا جنگل ہرا ہے لیکن کیا کیجیے۔ 

زمینی حقائق سے واسطہ پڑتا ہے تو بندۂ مزدور کے اوقات اسی طرح تلخ اور سوہان روح ملتے ہیں۔ ہم عوام کی یہ دہائی کون سنتا ہے لیکن جب ان اعداد وشمار کو مختلف ترتیب سے کوئی عالمی ادارہ مرتب کر کے عوام کی دہائی اور تاثر کی تائید کرے تو اس پر اعتبار کرنا بنتا ہے۔

سالہا سال سے سن، پڑھ اور دیکھ رہے ہیں کہ ترقی کی دوڑ میں ایشیاء تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ، پیداوار، برآمدات اور ارب پتیوں کی تعداد میں دھڑادھڑ اضافہ ہو رہا ہے۔

ایسے میں معاشی بدحالی کا دھڑکا تو اصولاً نہیں ہونا چاہیے لیکن معروف عالمی ریسرچ ادارے آکسفیم کی ایشیائی ممالک کی ترقی کی بابت تازہ رپورٹ کے مطابق ترقی ہو تو رہی لیکن اس کے ثمرات کا غالب حصہ چند ہاتھوں تک محدود ہے جب کہ عوام کے حصے میں ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ کا لالی پاپ ہی رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو رپورٹ کے چیدہ نکات سنئے اور سر دھنیے…

رپورٹ کا عنوان ہے ’’An Unequal Future‘‘ یعنی ’’غیر مساوی مستقبل‘‘۔ رپورٹ کا خلاصہ یہ کہ اگر ترقی کی یہ رادھا نو من تیل کے ساتھ اسی طرح ناچتی رہی تو پورے ایشیاء میں انصاف، مساوات اور خوشحالی کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔

آکسفیم کے مطابق، ایشیاء کے بیشتر ممالک میں دولت اور آمدنی کی تقسیم خطرناک حد تک غیر مساوی ہے۔ بظاہر ترقی کی شرح بلند ہے مگر سماجی انصاف، پائیدار روزگار اور روزمرہ کی پبلک سرورسز کی فراہمی کمزور تر ہو رہی ہے۔

یہ رپورٹ تین بڑے بحرانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ آمدنی و دولت کی ناہمواری، موسمیاتی تباہ کاری اور ڈیجیٹل خلاء (Digital Divide)۔

رپورٹ کے مطابق ایشیاء کے بڑے ممالک میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کے 60 سے 77 فیصد حصہ کے مالک ہیں۔

بھارت میں ایک فیصد اشرافیہ ملک کی کل دولت کا 40 فیصد جب کہ چین میں 31 فیصد کنٹرول کرتی ہے۔ یہ خوفناک تضاد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ معاشی ترقی کے اعداد و شمار اور رنگ برنگے اشاریے عوامی فلاح اور متناسب سماجی ترقی کے مترادف نہیں۔ ترقی کے باوجود 18.9 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر گزارا کرتی ہے اور 50 کروڑ سے زائد لوگ غربت یا اس کے دہانے پر ہیں۔

ٹیکس کا نظام بھی بالعموم غیرمنصفانہ ہے۔ ایشیاء میں اوسطاً ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 19 فیصد ہے جو ترقی یافتہ ممالک (OECD اوسط 34 فیصد) سے کہیں کم ہے۔ نتیجتاً حکومتوں کے پاس تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ کے لیے وسائل ناکافی رہتے ہیں۔اے آئی، انٹرنیٹ اور موبائلز فونز کے انقلاب کے باوجود ڈیجیٹل ناہمواری بھی بڑھ رہی ہے۔ شہری علاقوں میں 83 فیصد لوگ آن لائن ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 49 فیصد ہے۔صنفی پیمانے سے جانچیں تو خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔

ماحولیاتی اعتبار سے بھی عدم مساوات نمایاں ہے۔ جن طبقات کا آلودگی میں حصہ سب سے کم ہے، وہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں امیر ترین 0.1 فیصد افراد ایک عام شہری کے مقابلے میں 70 گنا زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں جب کہ غریب ترین 50 فیصد طبقہ ماحولیاتی نقصانات کا سب سے بڑا شکار ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں معاشی نمو کے باوجود معاشی ناہمواری اور سماجی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ غربت میں گاہے وقتی کمی دیکھی گئی مگر عملاً امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ وسیع تر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کا تقریباً 62 فیصد حاصل کرتے ہیں جب کہ نچلے 50 فیصد عوام کے حصے میں صرف 10 فیصد آمدنی آتی ہے۔ یہ معاشی و سماجی ناہمواری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں طاقت کے ارتکاز کو ظاہر کرتی ہے۔

ٹیکس کا ڈھانچہ اس خلیج کو مزید گہرا کرتا ہے۔ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب محض 9.5 تا 10 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ یہ مایوس کن شرح پبلک سروسز کے لیے مالی گنجائش کو مزید محدود کر دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر محصولات بالواسطہ ٹیکسوں (پٹرول، بجلی، اشیائے ضروریہ) سے حاصل کیے جاتے ہیں، جس کا بوجھ بالآخر غریب اور متوسط طبقے پر آتا ہے۔

تعلیم اور صحت پر سرکاری خرچ بھی اسی عدم توازن کا تسلسل ہے۔ پاکستان اپنی قومی آمدنی کا صرف 2.2 فیصد تعلیم اور 1.5 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ یہ شرح بنگلہ دیش (تعلیم 2.6÷، صحت 2.4÷) اور نیپال (تعلیم 3.4÷، صحت 2.9÷) سے کم ہے جب کہ جنوبی کوریا جیسے ممالک تعلیم پر 4.8÷ اور صحت پر 5.1÷ خرچ کرتے ہیں۔

ماحولیاتی لحاظ سے پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ماحولیاتی آفات کے باعث 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عالمی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد اگرچہ کچھ کم ہوئی، تاہم رپورٹ کے مطابق 22 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر زندہ ہے اور 50 فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو معمولی معاشی جھٹکے سے غربت میں جا سکتے ہیں۔

یہ تمام اعداد وشمار چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں کہ معاشی ترقی کے افسانوں میں ہم نے مساوات اور ہیومن ڈویلپمنٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کے لیے اصل چیلنج صرف معاشی نمو ہی نہیں بلکہ اس نمو کی منصفانہ تقسیم بھی ہے۔ اگروسائل، مواقع اور انصاف کی سمت درست نہ کی گئی تو دولت کے محلوں کے سائے میں غربت کی بستیاں مزید پھیلتی جائیں گی۔ فیصلہ سازوں کوتو شاید سوچنے کی مجبوری نہیں لیکن سماج کو ضرورسوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیسی ترقی چاہتے ہیں: اشرافیہ کے ایک محدود طبقے کے لیے یا سب کے لیے؟

متعلقہ مضامین

  • سندھ سے ایک ہزار ہندو یاتری خصوصی ٹرین کے ذریعے ننکانہ پہنچ گئے 
  • پاکستان: سمندر کی گہرائیوں میں چھپا خزانہ
  • معاشی بہتری کیلئے کردار ادا نہ کیا تو یہ فورسز کی قربانیوں کیساتھ زیادتی ہوگی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  •  دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن 
  • جاتی امراء ، شہباز نواز شریف ملاقات،سیاسی صورتحال پر مشاورت
  • وزارت خزانہ کے اہم معاشی اہداف، معاشی شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا امکان
  • ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب ہوگیا
  • وزیراعظم سے محسن نقوی کی ملاقات، دورہ عمان اور ایران بارے بریفنگ دی