UrduPoint:
2025-08-10@17:14:33 GMT

کشمیر پر اقوام متحدہ کے بیان سے بھارت اتنا برہم کیوں ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

کشمیر پر اقوام متحدہ کے بیان سے بھارت اتنا برہم کیوں ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مارچ 2025ء) بھارت نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ٹرک کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور ریاست منی پور کے تعلق سے بعض بیانات پر سخت ردعمل ظاہر کیا اور ان کے ریمارکس کو مسترد کرتے ہوئے انہیں "غلط و بے بنیاد" قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سربراہ نے انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے دوران عالمی سطح پر اپنی تازہ رپورٹ میں بھارت کا نام لے کر اس کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور ریاست منی پور میں تشدد سے نمٹنے کے لیے "تیز" کوششوں پر زور دیا تھا۔

جموں وکشمیر میں مولانا مودودی کی تصانیف کے خلاف کریک ڈاؤن

تاہم جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں بھارت کے مستقل نمائندے ارندم باغچی نے ان کے ایسے تبصروں پر تنقید کی اور کہا کہ ان کے ریمارکس زمینی حقائق کے برعکس ہیں۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ نے کیا کہا؟

انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے دوران وولکر ٹرک نے بھارت کا ذکر کیا اور اس زمرے میں جموں و کشمیر اور منی پور کی صورتحال کا حوالہ دیا۔

انہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایسے سخت ترین قوانین کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا، جو انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بنتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "انسانی حقوق کے محافظوں اور آزاد صحافیوں کو ہراساں کرنے لیے پابندی والے سخت قوانین کا استعمال کیا جانا قابل تشویش ہے۔ غیر قانونی نظربندیوں نے کشمیر سمیت شہری آزادیوں کو کم کیا ہے۔

"

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں متنوع مسائل کا شکار نوجوان طلبہ

انہوں نے منی پور میں تشدد اور نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے "تیز" کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا، "میں منی پور میں تشدد اور نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے بات چیت، قیام امن اور انسانی حقوق کی بنیاد پر تیز رفتار کوششوں کا مطالبہ کرتا ہوں۔"

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی "کوششیں مذاکرات، قیام امن اور انسانی حقوق پر مبنی" ہونی چاہئیں۔

وولکر ٹرک کا کہنا تھا کہ بھارت کی جمہوریت اور ادارے اس کی سب سے بڑی طاقت رہے ہیں، جو اس کے تنوع اور ترقی کی بنیاد ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ "جمہوریت کے لیے معاشرے کے تمام سطحوں پر شرکت اور شمولیت کی مسلسل پرورش کی ضرورت ہوتی ہے۔"

بھارت کا سخت رد عمل

جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 58 ویں اجلاس کے موقع پر بھارتی سفیر ارندم باغچی اقوام متحدہ کے ان بیانات سے برہم دکھائی دیے اور کہا کہ چونکہ اس رپورٹ میں "بھارت کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے، اس لیے میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ایک صحت مند، متحرک اور تکثیری سماج کے طور پر جاری ہے۔

اور رپورٹ میں یہ بے بنیاد تبصرے زمینی حقائق سے متصادم ہیں۔"

بھارت: کشمیری رکن پارلیمان انجینیئر رشید جیل میں بھوک ہڑتال پر

بھارتی سفیر نے اس بات کو خاص طور پر اجاگر کیا کہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے جموں و کشمیر کے حوالے سے صرف کشمیر کا نام لیا۔ باغچی نے کہا اس طرح کے بیانات ایسے وقت میں آئے ہیں، جب خطے میں امن اور ترقی میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

انہوں نے اس کے لیے کشمیر کے اسمبلی انتخابات کا حوالہ دیا اور کہا کہ "خطے کی سکیورٹی بہتر ہوئی ہے، صوبائی انتخابات میں ووٹروں کی ریکارڈ تعداد رہی جبکہ سیاحت بھی عروج پر ہے اور بنیادی ڈھانچے کی تیز رفتار ترقی کے لیے بھی یہ سال نمایاں رہا ہے۔"

بھارتی سفیر نے نئی دہلی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے عوام نے "ہمارے بارے میں اس طرح کے غلط خدشات کو بار بار غلط ثابت کیا ہے۔

"

بھارتی بیانات علاقائی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں، پاکستان

انہوں نے انسانی حقوق سے متعلق عالمی اپڈیٹ کے وسیع تر نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے "ہائی کمشنر نے ایک وسیع بے چینی محسوس کی ہے، لیکن ہم عرض کریں گے کہ اس سے نمٹنے کے لیے ہائی کمشنر کو اپنے دفتر میں لگے آئینے میں ایک طویل اور سخت نظر ڈآلنے کی ضرورت ہے۔

"

اقوام متحدہ کے حکام اور دیگر عالمی ادارے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق ماضی میں سوال اٹھاتے رہے ہیں، تاہم جب بھی ایسا ہوتا ہے، تو بھارتی حکومت انہیں تسلیم کرنے یا اس میں بہتری لانے کی باتیں کرنے کے بجائے حسب معمول انہیں مسترد کر دیتی ہے۔

چند روز قبل جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے خود یہ بات کہی تھی کہ کشمیر میں امن جبری ہے، اور یہ صرف سخت سکیورٹی کی وجہ سے پر امن نظر آ رہا ہے۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے زیر انتظام کشمیر میں سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی بھارت کا انہوں نے منی پور کہا کہ

پڑھیں:

آوازا کانفرنس: خشکی میں گھرے ممالک کی مستحکم ترقی کا اعلامیہ منظور

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 اگست 2025ء) خشکی میں گھرے ترقی پذیر ممالک کی تیسری کانفرنس (ایل ایل ڈی سی 3) ترکمانستان کے شہر آوازا میں ختم ہو گئی ہے جس کے آخری روز مندوبین نے سمندر سے محروم ممالک میں پائیدار ترقی کی رفتار تیز کرنے اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے ایک تاریخی سیاسی اعلامیہ منظور کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے زیراہتمام اس چار روزہ کانفرنس کا انعقاد 'شراکتوں کے ذریعے ترقی کا فروغ' کے موضوع پر عمل میں آیا جس میں سربراہان مملکت، اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی حکام، ترقیاتی شراکت داروں اور نجی شعبے کے رہنماؤں نے ان ممالک کو بلند تجارتی اخراجات، ناکافی بنیادی ڈھانچے اور موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات جیسے مسائل سے نمٹنے میں مدد دینے کے لیے بات چیت کی۔

Tweet URL

گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مںظور کردہ آوازا پروگرام آف ایکشن 2034-2024 کے تحت نیا 'آوازا اعلامیہ' پانچ ترجیحی شعبوں میں متفقہ حکمت عملی کا خاکہ پیش کرتا ہے جودرج ذیل ہیں:

بنیادی معاشی تبدیلیتجارتی و علاقائی انضمامنقل و حمل اور بنیادی ڈھانچہموسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے اور آفات کے خطرات کو محدود رکھنے کے اقداماتمالی وسائل جمع کرنے اور شراکتیں تشکیل دینے کی کوششیںشراکتوں اور ترقی کا نیا دور

کانفرنس کے آخری روز خطاب کرتے ہوئے (ایل ایل ڈی سی) کے لیے اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل رباب فاطمہ نے کہا کہ 'آوازا اعلامیہ' ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔

(جاری ہے)

یہ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ عملی اقدامات کا خاکہ ہے۔ بنیادی ڈھانچے، تجارتی سہولیات اور موسمیاتی استحکام پر مخصوص سرمایہ کاری کے ذریعے ان ممالک کو اس انداز میں اپنی پوری صلاحیتوں سے کام لینے کے قابل بنایا جا سکتا ہے کہ ترقی کی دوڑ میں کوئی فرد پیچھے نہ رہے۔

انہوں ںے کہا کہ یہ کانفرنس ترقی کی جانب 'ایل ایل ڈی سی' کے سفر میں ایک فیصلہ کن موقع کے طور پر یاد رکھی جائے اور اس سے جرات مندانہ شراکتوں اور فیصلہ کن اقدامات کا نیا دور شروع ہو گا۔

اس کی بدولت ایسے مستقبل کی راہ کھلے گی جہاں لوگ جغرافیے کی بنا پر منقسم رہنے کے بجائے تصورات، تجارت اور اختراع کے ذریعے باہم جڑیں گے۔ اقوام متحدہ ترقی کی آئندہ دہائی میں ان ممالک کو مدد اور تعاون مہیا کرنے کے لیے تیار ہے۔ UN Photo/Eskinder Debebe سرمایہ کاری اور شمولیت

'آوازا اعلامیہ' میں کثیرفریقی بینکوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ترقیاتی سرمایہ کاری، جنوبی دنیا کے ممالک کے مابین مضبوط تر تعاون اور عالمگیر تجارتی و موسمیاتی ایجنڈوں میں ان ممالک کے مفادات کی وسیع تر شمولیت کے لیے کہا گیا ہے۔

اس میں اقدامات کی نگرانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ ایجنڈے پر عملدرآمد کے عمل کی قیادت خود 'ایل ایل ڈی سی' کریں گے جس میں انہیں اعلیٰ سطحی نمائندہ کے دفتر کا تعاون بھی میسر ہو گا۔

کانفرنس کے میزبان ترکمانستان نے اس کے اہداف کی مطابقت سے متعدد اقدامات پیش کیے جن میں نقل و حمل کے پائیدار رابطوں کے لیے عالمی نقشہ، ہائیڈروجن کی توانائی کی جانب منتقلی کا عالمی پروگرام اور کیسپین ماحولیاتی اقدام شامل ہیں۔

ترکمانستان کی قومی عوامی کونسل کے سربراہ قربان کولو بردیمو حامیدوو نے کہا کہ آوازا اعلامیہ شراکتوں اور ترقی کے لیے مشترکہ تصور کی عکاسی کرتا ہے۔ ٹرانزٹ ممالک، ترقیاتی شراکت دار اور نجی شعبہ باہم مل کر جغرافیائی رکاوٹوں پر قابو پا سکتے ہیں اور اپنے لوگوں کے لیے دیرپا خوشحالی لا سکتے ہیں۔

مستقبل کے اقدامات

آوازا اعلامیہ 'ایل ایل ڈی سی' کے لیے مستقبل کی جانب ایک اہم قدم اور عالمگیر یکجہتی کی نئی علامت ہے جس سے ان ممالک کو اپنے جغرافیے کے باعث ہونے والے نقصانات کو مشترکہ فوائد میں تبدیل کرنا ممکن ہو گا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ان ممالک کے سالانہ وزارتی اجلاسوں کے ذریعے اس اعلامیے پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گی۔

'ایل ایل ڈی سی' کی ترجیحات کو فروغ دینے کے لیے آئندہ اہم پلیٹ فارم درج ذیل ہیں:

رواں سال برازیل میں ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 30)اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کا آئندہ اجلاس، اور2027 میں کرغیزستان میں ہونے والی بین الاقوامی پہاڑی کانفرنسآوازا پروگرام آف ایکشن کا وسط مدتی جائزہ 2030 میں لیا جائے گا۔

© ILO/Pradip Shakya ہمسایہ ممالک میں تعاون

کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں اقوام متحدہ کے لیے ترکمانستان کی مستقل سفیر اکسولطان اتائیوا نے کہا کہ یہ کانفرنس ان کے ملک کے لیے ناصرف ایک اہم سیاسی موقع تھا بلکہ اس سے ترکمانستان کی خارجہ پالیسی کے اس فلسفے کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ ترقی اور خوشحالی کے لیے رکاوٹ کے بجائے پُل بننا ہو گا۔

ترکمانستان میں اقوام متحدہ کے نمائندے دمتری شلاپاچینکوو نے یو این نیوز کو بتایا کہ یہ کانفرنس خطے کے لیے بطور خاص اہم تھی جس میں وسطی ایشیا کے متعدد ممالک کے سربراہ اکٹھے ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمگیر شراکتیں ضروری ہیں لیکن حقیقی تعاون ہمسایہ ممالک کے مابین شروع ہوتا ہے۔

عزائم اور مواقع

ازبکستان میں اقوام متحدہ کی نمائندہ سبینا ماکل نے کہا کہ وسطی ایشیائی ممالک میں اقوام متحدہ کی ٹیمیں اپنے کام کو مربوط بنانے کے لیے باقاعدگی سے اجلاس کرتی ہیں۔

ازبکستان کا شمار دنیا میں دہرے طور سے خشکی میں گھرے ان دو ممالک میں ہوتا ہے جنہیں جغرافیے کے باعث جہاں مسائل کا سامنا ہے وہیں بہت سے مواقع بھی حاصل ہیں۔ اقوام متحدہ کی ٹیم آئندہ پانچ سال میں ازبکستان کے لوگوں پر سرمایہ کاری کرے گی اور اس کی آبادی کی صلاحیتوں کو ترقی کے لیے استعمال کرنے میں مدد دے گی جہاں 60 فیصد لوگوں کی عمر 30 سال سے کم ہے۔

افریقی ملک لیسوتھو میں اقوام متحدہ کی نمائندہ ایمنڈا خوزی موکاواشی نے یو این نیوز کو بتایا کہ ملک میں پانی کی بہتات ہے جو ہمسایہ ممالک کو بھی اس سے استفادے کا موقع دینا چاہتا ہے لیکن اس مقصد کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، لیسوتھو اپنے ہاں ہوائی اور شمسی توانائی جیسے وسائل کو بھی ترقی کے لیے استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔ یہ تمام باتیں کانفرنس کےموقع پر زیربحث آئی ہیں اور مستقبل میں ہونے والے اجلاسوں میں بھی ان پر غور ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ پر اسرائیلی قبضے کے اعلان کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس جاری
  • آپریشن سندور غلط چال، معلوم ہی نہیں تھا پاکستان کا ردعمل اتنا تباہ کن ہوگا ، بھارتی آرمی چیف
  • غزہ سٹی پر اسرائیلی قبضے کا منصوبہ، اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس طلب
  • آوازا کانفرنس: خشکی میں گھرے ممالک کی مستحکم ترقی کا اعلامیہ منظور
  • انسانی حقوق کے وکیل نے اپنی لندن یونیورسٹی کی ڈگری کیوں جلا دی؟
  • غزہ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب
  • اقوام متحدہ کا اسرائیل سے غزہ پر قبضے کا منصوبہ فوری طور پر روکنے کا مطالبہ
  • اقوام متحدہ نے غزہ پر قبضے کا اسرائیلی منصوبہ مسترد کردیا
  • اقوامِ متحدہ کے ساتھ ہمارا رشتہ: امید، مایوسی اور سوال
  • فرٹیلائزر انڈسٹری مسابقتی کمیشن پاکستان کی رپورٹ پر برہم کیوں؟