ملتان (سماجی رپورٹر) چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ میرے والد گرامی سید علمدار حسین گیلانی  کی خطے کیلئے خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملتان میں درگاہ حضرت موسیٰ پاک میں اپنے والد کی 47 ویں برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میرے والد اپنی زندگی میں ہر تیسرے روزے کو اپنے احباب کیلئے افطاری کا اہتمام کرتے اور افطاری کو حضرت بی بی فاطمہ سے منسوب کرتے تھے۔ انہوں نے کہا جب  میرے والد وزیرِ صحت تھے تو انہوں نے ملتان کے لوگوں کیلئے بہت کام کئے۔ سیاسی، سماجی اور تعلیمی حوالے سے ان کی خدمات نمایاں ہیں، جس کی مثال گیلانی لاء  کالج، ولایت حسین اسلامیہ کالج، علمدار حسین کالج اور اسلامیہ ہائی سکولز ہیں۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ انہوں نے انجمن اسلامیہ ملتان کا اپنے بھائیوں کے ساتھ آغاز کر کے ان کی تعلیمی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ وزیرِ اعظم تھے تو جنوبی پنجاب بالخصوص ملتان کیلئے بیشمار ترقیاتی کام کئے۔ انہوں نے کہا کہ ملتان میں زیرِ تعمیر کیڈٹ کالج ان کا منصوبہ ہے جس کی جگہ کا آج دورہ بھی کیا، یہ منصوبہ علاقے کی محرومیوں کے ازالے کیلئے گیم چینجر ثابت ہو گا۔ برسی کے موقع پر ممبرز قومی اسمبلی سید علی موسیٰ گیلانی، سید عبدالقادر گیلانی، سید علی قاسم گیلانی، سید عبدالسمیع گیلانی، ممبر صوبائی اسمبلی سید علی حیدر گیلانی سمیت علمائے کرام، سیاسی و سماجی شخصیات، کارکنوں اور لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آخر میں سجادہ نشیں پیر ابوالحسن گیلانی نے مرحوم سید علمدار حسین گیلانی کے ایصالِ ثواب کیلئے اجتماعی دعا کرائی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: نے کہا کہ انہوں نے

پڑھیں:

جب عورت کا ’نہ‘ جرم بن جائے: ثنا یوسف کا قتل اور اِن سیل ذہنیت کا المیہ

ثنا یوسف چترال سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت، تخلیقی اور خودمختار نوجوان لڑکی تھی جو سوشل میڈیا پر سرگرم تھی اور ایک بااثر ڈیجیٹل کریئیٹر کے طور پر ابھر رہی تھی۔ مگر بدقسمتی سے اس کی زندگی کا اختتام ایک ایسے المیے پر ہوا جو صرف ذاتی سانحہ نہیں بلکہ ایک گہری سماجی بیماری کی علامت ہے۔

ثنا کو ایک 23 سالہ نوجوان عمر حیات نے صرف اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے اس کی دوستی کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس میں سنسنی خیز انکشافات: قاتل کا اعتراف، رینٹ کی گاڑی، تحائف ٹھکرانے کا رنج

یہ معاملہ محض ‘غیرت’ یا وقتی غصے کا نہیں بلکہ ایک زہریلی سوچ کی پیداوار ہے۔ وہ سوچ جو عورت کے انکار کو جرم اور مرد کی انا کو انصاف کا پیمانہ سمجھتی ہے۔ دنیا اس سوچ کو ان سیل (In Cel) کے نام سے جانتی ہے۔

اِن سیل کلچر: ایک خطرناک ذہنیت

‘ان سیل’ (Involuntary Celibate) یعنی ‘بغیر اپنی مرضی کے غیررومانوی زندگی گزارنے والے افراد’ کی اصطلاح مغرب میں ایک آن لائن کمیونٹی سے وابستہ رہی ہے، جو جنسی یا رومانوی تعلق سے محرومی کے باعث عورتوں کے خلاف شدید نفرت اور غصے میں مبتلا ہوتے ہیں۔

یہ لوگ عورتوں کے ‘نہ’ کو اپنی تذلیل سمجھتے ہیں اور اس انکار کو ‘انتقام’ کے قابل جرم مانتے ہیں۔ ان کی گفتگو، آن لائن فورمز، یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا گروپس میں عورت دشمنی عام سی بات ہے۔

اگرچہ پاکستان میں اس اصطلاح سے واقفیت عام نہیں لیکن اس کی روح اور ذہنیت ہمارے معاشرے میں کئی انداز سے موجود ہے:

مردانگی کو تسلیم کروانے کے لیے تعلق کا ‘حاصل ہونا’ ضروری سمجھا جاتا ہے؛

عورت کا انکار مرد کی تذلیل کے مترادف سمجھا جاتا ہے؛

خودمختار عورت کو ‘مغرور’ یا ‘قابلِ سزا’ قرار دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اسلام آباد میں قتل ہونے والی 17 سالہ سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کون تھیں؟

یہ وہ معاشرتی سانچے ہیں جو عمر حیات جیسے نوجوانوں کی سوچ کی تشکیل کرتے ہیں۔ وہ شعوری طور پر خود کو ‘ان سیل’ نہ بھی سمجھتے ہوں، تب بھی ان کی سوچ اسی زہریلے سانچے سے جنم لیتی ہے۔

ثنا کا ‘نہ’ اور معاشرتی انا کا زخم

ثنا یوسف کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے تعلق سے انکار کیا، اپنی پسند اور اپنی آزادی کا استعمال کیا۔ عمر نے اس انکار کو نہ صرف انا کا مسئلہ بنایا، بلکہ اسے ‘سزا دینے’ کی حد تک پہنچا دیا۔ اس نے اسے قتل کیا ، وہ بھی دن دیہاڑے۔

یہ ردعمل محض ایک فرد کی نفسیاتی بے چینی نہیں تھی، بلکہ ایک پوری سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ سوچ جو عورت کو انسان نہیں، ایک شے یا ‘حق’ سمجھتی ہے۔

عمر، ان سیل تھا؟ شاید خود بھی نہ جانتا ہو

یہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنا ضروری ہے: عمر شاید کبھی Reddit یا 4chan پر نہ گیا ہو، نہ ہی ‘ان سیل’ کے نظریے سے واقف ہو۔ مگر اس کے طرزِ فکر میں وہ تمام علامات موجود تھیں جو ان سیل کلچر کی بنیاد ہیں:

عورت کا انکار ناقابلِ برداشت؛

تعلق پر ‘حق’ کا تصور؛

مسترد کیے جانے پر غصہ اور انتقام کی جبلّت۔

یہ بھی پڑھیے: بیگم جہاں آرا شاہنواز سے نسیم جہاں تک، جدوجہدِحقوقِ نسواں کی اَن کہی داستان

یہی وہ ذہنیت ہے جو ہمارے نوجوانوں میں غیر محسوس طریقے سے سرایت کرتی جا رہی ہے، کبھی واٹس ایپ گروپس، کبھی یوٹیوب پر ‘مردانہ طاقت’ کے نام پر ویڈیوز، اور کبھی روزمرہ لطیفوں اور گفتگو میں۔

سوشل میڈیا اور زہریلا مردانہ بیانیہ

سوشل میڈیا پر مردوں کے لیے مخصوص کئی وی لاگرز، ‘ریڈ پِل’ چینلز اور آن لائن گروپس موجود ہیں جو عورت کو ناقابلِ بھروسا، چالاک یا کمتر ثابت کرتے ہیں۔ وہ مرد کو یہ سکھاتے ہیں کہ عورت کو کیسے ‘جیتا’ جائے، کیسے ‘قابو’ میں رکھا جائے، اور کیسے اس کے انکار کو اپنی طاقت سے شکست دی جائے۔

یہی وہ بیانیہ ہے جو مسترد کیے جانے کو مرد کی شکست اور عورت کی غلطی بنا دیتا ہے اور آخر کار ثنا یوسف کے قتل جییسے سانحات کو جنم دیتا ہے۔

حل کہاں ہے؟

ہمیں فرد کو سزا دینے سے آگے بڑھ کر، اس ذہنیت کا احتساب کرنا ہوگا جو ہر گھر، ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ہر کلاس روم میں جنم لے رہی ہے۔

عورت کے انکار کو حق تسلیم کرنا — یہ نصاب، میڈیا اور والدین کی تربیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ مردوں کی جذباتی تربیت — لڑکوں کو یہ سکھانا کہ انکار زندگی کا ایک عام تجربہ ہے، نہ کہ انا کا زخم۔ سوشل میڈیا پر عورت دشمن مواد کی روک تھام — پلیٹ فارمز کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے مواد سے حقیقی دنیا میں کیا اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ معاشرتی گفتگو کی اصلاح — ہر وہ جملہ، مذاق، یا تصور جو عورت کو کمتر یا مرد کو غالب ظاہر کرے، اسی ذہنیت کو فروغ دیتا ہے جس نے ثنا کو مارا۔ ثنا کی یاد، ایک سوال بن کر باقی ہے

ثنا یوسف کا قتل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عورتوں کی خودمختاری، انکار اور انتخاب کو صرف قانون نہیں، معاشرتی سوچ بھی خطرہ سمجھتی ہے۔ جب تک ہم اس سوچ کو جڑ سے نہیں اکھاڑتے، ‘نہیں’ کہنا کئی عورتوں کے لیے جان لیوا فیصلہ بنا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب میں با اختیار خواتین کی کامیابیوں کی متاثر کن کہانیاں

اب وقت ہے کہ ہم خود سے سوال کریں:

کیا ہم واقعی عورتوں کے ‘نہ’ کہنے کے حق کا احترام کرتے ہیں؟

یا ہم اسے مرد کی شکست، اور سزا کے قابل جرم سمجھتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احسن بودلہ

ان سیل کلچر تشدد ثنا یوسف خواتین

متعلقہ مضامین

  • بھارت ظلم و تشدد کے ذریعے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور نہیں کر سکتا، حریت کانفرنس
  • ٹک ٹاکر ثناء قتل کیس: ملزم عمر حیات کے والد کا بیٹے سے متعلق بیان سامنے آگیا
  • ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے مبینہ قاتل عمر حیات کے والد کی گفتگو سامنے آگئی
  • دنیا میں پاکستان کے بیانیے کو تسلیم کیا جا رہا ہے، یوسف رضا گیلانی
  • ملتان، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی برسی 
  • بھارت سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کرسکتا، ایسا کیا تو جنگ تصور ہو گا، یوسف رضا گیلانی  
  • ملتان، خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ کے زیراہتمام امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی برسی کا انعقاد
  • ڈیرہ، ایس یو سی کے زیراہتمام برسی امام خمینی
  • جب عورت کا ’نہ‘ جرم بن جائے: ثنا یوسف کا قتل اور اِن سیل ذہنیت کا المیہ
  • چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کا سینیٹر عباس آفریدی کے انتقال پر اظہارِ افسوس