47 ویں برسی: خطے کیلئے والد کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا: یوسف رضا گیلانی
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
ملتان (سماجی رپورٹر) چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ میرے والد گرامی سید علمدار حسین گیلانی کی خطے کیلئے خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملتان میں درگاہ حضرت موسیٰ پاک میں اپنے والد کی 47 ویں برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میرے والد اپنی زندگی میں ہر تیسرے روزے کو اپنے احباب کیلئے افطاری کا اہتمام کرتے اور افطاری کو حضرت بی بی فاطمہ سے منسوب کرتے تھے۔ انہوں نے کہا جب میرے والد وزیرِ صحت تھے تو انہوں نے ملتان کے لوگوں کیلئے بہت کام کئے۔ سیاسی، سماجی اور تعلیمی حوالے سے ان کی خدمات نمایاں ہیں، جس کی مثال گیلانی لاء کالج، ولایت حسین اسلامیہ کالج، علمدار حسین کالج اور اسلامیہ ہائی سکولز ہیں۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ انہوں نے انجمن اسلامیہ ملتان کا اپنے بھائیوں کے ساتھ آغاز کر کے ان کی تعلیمی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ وزیرِ اعظم تھے تو جنوبی پنجاب بالخصوص ملتان کیلئے بیشمار ترقیاتی کام کئے۔ انہوں نے کہا کہ ملتان میں زیرِ تعمیر کیڈٹ کالج ان کا منصوبہ ہے جس کی جگہ کا آج دورہ بھی کیا، یہ منصوبہ علاقے کی محرومیوں کے ازالے کیلئے گیم چینجر ثابت ہو گا۔ برسی کے موقع پر ممبرز قومی اسمبلی سید علی موسیٰ گیلانی، سید عبدالقادر گیلانی، سید علی قاسم گیلانی، سید عبدالسمیع گیلانی، ممبر صوبائی اسمبلی سید علی حیدر گیلانی سمیت علمائے کرام، سیاسی و سماجی شخصیات، کارکنوں اور لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آخر میں سجادہ نشیں پیر ابوالحسن گیلانی نے مرحوم سید علمدار حسین گیلانی کے ایصالِ ثواب کیلئے اجتماعی دعا کرائی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ہم اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں، ایرانی صدر
اپنے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی چاہے ہمارے میزائل حملوں کی درستگی کے بارے میں بات نہ کریں لیکن جنگبندی کے صیہونی مطالبے نے دنیا کے سامنے سب کچھ واضح کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر "مسعود پزشکیان" نے کہا کہ ہم کسی بھی اسرائیلی فوجی جارحیت کا مقابلہ اور تل ابیب پر دوبارہ حملے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار آج صبح الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے ہم پر حملہ کیا جس کے جواب میں ہم نے طاقت کے ساتھ اس کے قلب پر حملہ کیا۔ اب وہ دنیا سے اپنے نقصان کو چھپا رہا ہے۔ اسرائیل افراتفری کے ذریعے ایران کو تبدیل، تقسیم اور حکومت کو تباہ کر کے ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ناکام رہا۔ انہوں نے کہا کہ شک نہیں کہ ہمارے ملک میں دشمن نے اپنے جاسوسوں کے ذریعے کچھ اثر و رسوخ پیدا کر لیا تھا لیکن پھر بھی ایران پر حملے کا فیصلہ کن صیہونی عنصر، امریکی ٹیکنالوجی اور اس کے استعمال کی صلاحیت تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن صرف سیز فائر پر بھی اکتفاء نہیں کریں گے بلکہ پوری قوت سے اپنا دفاع کریں گے۔ اسرائیلی چاہے ہمارے میزائل حملوں کی درستگی کے بارے میں بات نہ کریں لیکن جنگ بندی کے صیہونی مطالبے نے دنیا کے سامنے سب کچھ واضح کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ سب پر عیاں ہے کہ ایران نے ہتھیار نہیں ڈالے اور نہ ہی آئندہ ڈالے گا لیکن اس کے باوجود ہم ڈپلومیسی پر یقین رکھتے ہیں۔
ایرانی صدر نے کہا کہ خطے کے ممالک نے پہلے کبھی بھی ایران کی اتنی حمایت نہیں کی تھی جتنی حالیہ جنگ کے دوران کی۔ ہم عرب ہمسایوں اور دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ مشترکہ اجتماعی سلامتی کا آئیڈیا بنانے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے جوہری ہتھیار رکھنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری سیاسی، مذہبی، انسانی اور اسٹریٹجک پوزیشن ہے۔ ہمارے ملک میں یورینیم کی افزودگی بین الاقوامی قوانین کے تحت جاری رہے گی۔ مستقبل میں کوئی بھی مذاکرات جیت کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ ہم دھمکیوں یا دباؤ کو قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ ہمارا جوہری پروگرام ختم ہو گیا ہے، ایک وہم ہے۔ ہماری جوہری صلاحیتیں تنصیبات میں نہیں بلکہ ہمارے سائنسدانوں کے ذہنوں میں ہیں۔ قطر میں العدید امریکی اڈے پر حملے کے بارے میں ڈاکتر مسعود پزشکیان نے کہا کہ ہم نے قطر پر حملہ نہیں کیا اور نہ ہی ایسا کر سکتے ہیں۔ قطر ہمارا برادر ملک ہے اور اس کے لوگ ہمارے بھائی ہیں۔ ہم ہر لحاظ سے ان کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ہمارا نشانہ قطر یا قطری عوام نہیں بلکہ ایک امریکی اڈہ تھا جس نے ہمارے ملک پر بمباری کی تھی۔ میں قطر کے عوام کے جذبات اور موقف سے آگاہ ہوں۔ اسی لیے میں نے اپنے بھائی، امیرِ قطر سے اس موضوع پر ٹیلیفونک گفتگو کی۔
ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ قطر کے لیے ہماری نیت اچھی، مثبت اور بھائی چارے پر مشتمل ہے۔ ہم کسی بھی شعبے میں ان کی مدد کے لیے تیار ہیں جہاں وہ درخواست کریں۔ خود پر اسرائیل کے قاتلانہ حملے کی کوشش کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے الجزیرہ سے کہا کہ وہ واقعہ اسرائیل کی فوجی رہنماؤں کے بعد سیاسی رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوششوں کا حصہ تھا۔