Express News:
2025-06-15@17:21:54 GMT

رمضان المبارک اور ہمارے رویے

اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT

اللہ تعالیٰ کی رحمت رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آپہنچا۔ ایک ایسا مہینہ جو عبادات کرنے، پرہیز گاری اختیار کرنے اور اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بندہ بننے کا مہینہ ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ اس متبرک مہینے میں ہمیں اچھائی کے بجائے عمومی سطح پر برائی زیادہ نظر آتی ہے۔

رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی سڑکوں پر لڑائی جھگڑے دیکھنے کو ملتے ہیں، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی ہوتی ہے اور رمضان کے تقدس کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ معمولی معمولی غلطیوں پر لوگ ایک دوسرے کے دست و گریباں ہوجاتے ہیں اور کسی قسم کی کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی۔ اس دوران لڑائی روکنے والے کم اور تماشائیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو مارکٹائی کا لائیو شو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

رمضان المبارک کے آتے ہی بازاروں میں رمضان کےلیے اشیائے خورونوش کی خریداری بڑھ جاتی ہے۔ لوگ اس طرح کھانے کی چیزوں کی خریداری کر رہے ہوتے ہیں جیسے آخری مرتبہ چاول، دالیں، گھی، آٹا اور دیگر اشیا خرید رہے ہوں۔ دوسری طرف ذخیرہ اندوزی کا ایک بازار گرم ہوجاتا ہے۔ دنیا بھر میں مقدس مہینے کے موقع پر چیزوں کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہے اور ہر چیز بشمول آلو، پیاز، ٹماٹر، دہی، سلاد، لیموں، سبزیاں، گوشت، مرغی سبھی مہنگا تو کیا مہنگا ترین ہوجاتا ہے۔

اب آجاتے ہیں افطار پارٹیوں پر، سحری اور افطار پارٹیوں میں پلیٹوں میں اتنا کھانا بھر لیا جاتا ہے گویا صدیوں کے بھوکے پیاسے ہوں۔ اتنا زیادہ کھانا ضائع کردیا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ افطاری اور سحری میں جو دھکم پیل ہوتی ہے وہ ایک الگ کہانی ہے، پھر سحری اور افطاری کے منتظمین رمضان سے پہلے ہی چندہ مہم شروع کر دیتے ہیں۔ اتنا سحری اور افطاری نہیں دی جاتی جتنا اپنی جیبیں بھر لی جاتی ہیں اور پورے سال کی کمائی ایک ہی ماہ میں ہوجاتی ہے۔

ہمارا عمومی رویہ بن گیا ہے کہ رمضان کو عبادت کے بجائے کھانے پینے کا مہینہ بنا لیا گیا ہے۔ روزہ روزانہ پکوڑوں، سموسوں، چاٹ، پھینی، آلو اور قیمے کے پراٹھوں، جلیبی کچوری کے بغیرسادہ سالن کے ساتھ بھی رکھا جاسکتا ہے، لیکن دیکھا جائے تو سب افراد کا کھانے پر زور زیادہ رہتا ہے۔ نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ عید کے دنوں میں ڈاکٹرکے پاس بھاگنا پڑتا ہے اور بھاری فیسیں ادا کرنی پڑتی ہیں۔

رمضان ہو اور ہم رمضان ٹرانسمیشن کو بھول جائیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ نئے نئے ستارے جنہیں آپ عام دنوں میں ہر طرح کا جگمگاتا دیکھتے ہیں، وہ رمضان المبارک میں عظیم مبلغ اور اسلامی شخصیات کا روپ دھارکر سامنے آتے ہیں اور اس طرح نیکی اور اچھائی کا درس دیتے ہیں کہ انسان کو اپنا آپ ہی سب سے گناہگار لگنے لگتا ہے۔

لوگوں کا رمضان میں تفریح کی طرف بھی زیادہ رحجان ہو جاتا ہے۔ کئی افراد کو میں نے دیکھا کہ وہ رمضان میں وقت گزاری کےلیے فلمیں دیکھ کر وقت گزارتے ہیں جبکہ یہی وقت عبادت الٰہی میں گزارنا چاہیے۔ رمضان میں خیرات کے مستحق افراد تک امداد نہیں پہنچ پاتی اور پیشہ ور حضرات اپنی جیبیں بھر لیتے ہیں۔ کئی افراد یہ امداد کا راشن کریانے کی دکانوں پر بیچ کر پیسے بھی حاصل کرلیتے ہیں۔

رمضان المبارک میں ہم اخلاقی برائیوں میں بھی مبتلا رہتے ہیں جبکہ روزہ تو پورے جسم کا ہے صرف پیٹ کا نہیں، بلکہ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ سب چیزوں کا ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو رمضان المبارک برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے لیکن ہمارے اجتماعی رویے، ہمارے افعال، ہمارا کردار ہمیں بطور مسلمان اس مہینے کی برکتوں سے مستفید نہیں ہونے دیتا۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ۔

ماہ رمضان جو سال بعد آتا ہے ہمیں اپنے کردار میں سدھار کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ ہمیں وقت فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو قرآن و سنت کی روشنی میں ڈھال سکیں۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم رمضان کی اصل روح کو سمجھیں اور اس مہینے کی برکتوں سے استفادہ کریں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رمضان المبارک ہوتی ہے جاتا ہے

پڑھیں:

ایران پر اسرائیلی حملے2024 کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید اور غیر متوقع کیوں؟

الجزیرہ نے ایران پر اسرائیلی حملوں کے حالیہ سلسلے کو 2024 میں ہونے والے حملوں کے مقابلے میں زیادہ وسیع، شدید اور خطرناک قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق 2024 میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 2 مرتبہ عسکری جھڑپیں ہوئیں۔

2024 میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 2 مرتبہ عسکری جھڑپیں ہوئیں۔

اپریل 2024 میں ایران نے اسرائیلی سفارت خانے پر دمشق میں حملے کے ردعمل میں میزائل اور ڈرونز اسرائیل پر داغے۔

اکتوبر 2024 میں اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور ایرانی بریگیڈیئر جنرل عباس نیلفروشاں کو شہید کیا، جس کے بعد ایران نے دوبارہ حملے کیے۔

دونوں مواقع پر اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایران کی عسکری تنصیبات اور اہم انفراسٹرکچر پر حملے کیے۔ ان جھڑپوں نے ایران اور اسرائیل کے درمیان 1979 کے بعد پہلی مرتبہ براہِ راست فوجی تصادم کی نفسیاتی حد کو توڑ دیا تھا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کی ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت، اقوام متحدہ سے فوری مداخلت کا مطالبہ

تاہم حالیہ حملوں نے اس حد کو مزید آگے بڑھا دیا ہے۔ اس بار کوئی پیشگی وارننگ نہیں دی گئی۔ یہ حملے مکمل طور پر اچانک تھے اور ان کا دائرہ اور شدت کہیں زیادہ ہے۔

تہران، تبریز، کرمانشاہ، اصفہان اور نطنز جیسے کئی شہروں کو نشانہ بنتے دیکھا گیا۔ یہ محدود اور اسٹریٹجک کارروائی نہیں بلکہ مسلسل جاری حملے ہیں، اور فی الحال کسی کو نہیں معلوم کہ یہ کب ختم ہوں گے۔ یہ نہ صرف نئی فوجی سطح کی کشیدگی ہے بلکہ خطے میں غیر معمولی جیو پولیٹیکل خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  •  بھارت نے پانی روکا تو ہمارے لئے جنگ کے سواکوئی دوسرا آپشن نہیں ہوگا،بلاول
  • ہمارے بغیر حکومتی بنتی ہے نہ ہی چلتی ہے، فضل الرحمان
  • ہم دودھ کے دھلے نہیں، ہمارے دور میں بھی غلط چیزیں ہوئیں: علی محمد خان
  • ہم دودھ کے دھلے نہیں، ہمارے دور میں بھی غلط چیزیں ہوئیں، علی محمد خان
  • امریکا کے رویے سے جوہری پروگرام پر مذاکرات ’بے معنی‘ ہوگئے، ایرانی وزارت خارجہ
  • کیس کا فیصلہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں کرسکتے‘ جسٹس اطہر من اللہ
  • امریکی صدر کی ایران کو دھمکی: مہلک ہتھیار اسرائیل پہنچ رہے ہیں
  • ایران ڈیل کرلے اس سے پہلے کہ کچھ نہ بچے: ڈونلڈ ٹرمپ
  • ایران پر اسرائیلی حملے2024 کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید اور غیر متوقع کیوں؟
  • تھکی ہوئی روحوں کا معاشرہ