data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بہتر سے بہتر کرنے اور زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کوشش اور مجبوری، یہ اس عہد کے ہمارے وہ دشمن ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے ہمیں عینک اُتارنے کی ضرورت نہیں جو ہمیں مسلسل دوڑا رہے ہیں۔ اب ناکامیاں نہیں کامیابیاں ہماری دشمن ہیں۔ ہر دور کی اپنی مخصوص بیماریاں ہوتی ہیں۔ بیکٹریا اور وائرس کا زمانہ گزرگیا جب خطرہ باہر سے ہمارے اندرداخل ہوتا تھا آج کی بیماریاں اندرونی ہیں۔ دبائو، ڈیپریشن، تھکن، اعصابی امراض وغیرہ جن کی علامات ہیں۔
یہ امراض ہماری ذاتی نا کامیوں یا بیرونی منفی چیزوں کا حملہ نہیں بلکہ یہ مثبت چیزوں کی زیادتی کا حملہ ہے، یہ وہ امراض ہیں جو بہت زیادہ حاصل ہونے سے لا حق ہورہے ہیں۔ بہت زیادہ پیداوار، بہت زیادہ کامیابی کا جنون بہت زیادہ مواصلات، بہت زیادہ اہداف۔ یہ باہر سے حملہ نہیں ہے۔ یہ سسٹم کے اندر سے پیدا ہونے والا دبائو ہے جو مثبت چیزوں کے بہت زیادہ حاصل ہو جانے سے پیدا ہو رہا ہے۔
ہم ایک ایسی اچیومنٹ سوسائٹی اور نظام کا حصہ ہیں جو آزادیوں کے نام پر ہمیں اپنا ہی استیصال کرنے پر مجبور کررہا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرہ میں رہ رہے ہیں جہاں بنیادی خطرہ بیرونی دشمن یا بیرونی چیز سے نہیں بلکہ اندرونی مثبت چیزوں کی زیادتی سے ہے جن سے سسٹم اپنے ہی بوجھ تلے دب کر اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔
اپنے خود پیدا کردہ جس تشدد سے ہم ٹوٹ رہے ہیں ستم یہ ہے کہ وہ ہمیں آزادیوں جیسا محسوس ہوتا ہے۔ یہ تشدد ہمیں محروم نہیں کررہا بلکہ سیر کرکے اور بھر کے تھکا رہا ہے۔ جس سے ہم ایک تھکی ہوئی روحوں کا معاشرہ بن گئے ہیں۔ الگ تھلگ، ہر وقت متحرک اور اندر ہی اندر دبائو سے ٹوٹتے ہوئے لوگ۔
کنٹرول کی ہر شکل ہمیں آزادی کے نام پر دی جارہی ہے۔ ہم آزاد ہیں کیونکہ کوئی ہمیں نہیں، نہیں کہہ رہا ہے۔ سب مسلسل خود کو ہاں کہہ رہے ہیں پیداوار کے لیے، مثبت رہنے کے لیے، کارکردگی دکھانے کے لیے چاہے اس کی قیمت ہماری ذہنی اور جسمانی صحت ہی کیوں نہ ہو۔ اب خطرہ بیرونی نہیں بلکہ ہمارے نظام کی، ہماری کامیابیوں کی دوڑ کی زیادتی ہے، جس کے نتیجے میں تھکاوٹ ہمارے دور کی اہم علامت بن گئی ہے۔
پہلے کہا جاتا تھا ’’تمہیں یہ کرنا چاہیے، تمہیں یہ کرنا ہوگا‘‘ ایک حکم تھا۔ آج کہا جاتا ہے ’’تم یہ کرسکتے ہو‘‘ یہ بظاہر مثبت مکالمہ ایک نیا دبائو پیدا کرتا ہے، بہتر سے بہتر کرنے کا، خود کو نکھارنے کا، مسلسل کچھ نہ کچھ حاصل کرتے رہنے کا دبائو۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان دبا یا ہوا نہیں، تھکا ہوا ہے، خود اپنے استیصال کے خاموش مطالبات سے تھکا ہوا۔ وہ نظام جو آزادیوں کا علمبردار ہے کیسے ہمیں تھکا رہا ہے، کیسے ہمیں کمزور کرکے چھوڑ رہا ہے۔
پہلے اسپتال تھے، جیلیں اور فیکٹریاں تھیں اب فٹنس کلب ہیں، اسٹوڈیوز ہیں، آفس ٹاورز ہیں اور شاپنگ مالز۔ یہ فرمانبردار رعایا سے کامیاب فرد بننے کا سفر ہے جو خود اپنا کاروباری ہے۔ کنٹرول کی منطق بدل گئی ہے۔ منفی سے مثبت ہو گئی ہے۔ پہلے ’’نہیں کرسکتے‘‘ یا ’’کرنا چاہیے‘‘ پر زور تھا اب زور ہے ’’کرسکتے ہو‘‘ پر۔ ’’ہاں ہم کرسکتے ہیں‘‘۔ مقصد وہی ہے پیداوار کا زیادہ سے زیادہ کرنا۔
’’کرنا چاہیے‘‘ کی ایک حد ہوتی ہے لیکن ’’کرسکتے ہو‘‘ کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ مسلسل اکساتا ہے کہ ’’اور کرو‘‘، ’’اور بہتر کرو‘‘۔ ایک نا ختم ہونے والی دوڑ جو اندرونی دبائو پیدا کرتی ہے جو بوجھ آپ آزادی سے خود اپنے اوپر ڈالتے ہیں۔ اس لیے پیداوار بڑھانے کے لیے یہ زیادہ کارگر ہے۔ یہی سرمایہ دارانہ نظام کا ہدف ہے۔
کارکردگی دکھانے کی مجبوری، معاشرے میں بڑھتی ہوئی انفرادیت، جس سے سماجی تعلقات کمزور پڑجاتے ہیں یہ کامیاب ہونے کا وہ پھل ہے جو بیمار کر دیتا ہے۔ روح کی تھکاوٹ پیدا کر دیتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب کامیابی کا عادی فرد مزیدکچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ وہ اندر سے ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ ایک تخلیقی تھکاوٹ ہے۔ افسردہ فرد کو شکایت ہوتی ہے کہ کچھ بھی ممکن نہیں۔ یہ شکایت ہی ایسے معاشرے میں پیدا ہوسکتی ہے جو سمجھتا ہے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ جب فرد اس ’’سب کچھ ممکن ہے‘‘ والے معیار پر پورا نہیں اترتا تب وہ خود کو ملامت کرتا ہے، خود پر غصہ کرتا ہے۔ افسردہ ہو جاتا ہے۔ یہ ایک اندرونی جنگ ہے۔
افسردگی حد سے زیادہ مثبت سوچ والے معاشرے کی بیماری ہے۔ کامیاب معاشروں میں آزادی اور مجبوری ایک ہو جاتے ہیں۔ فرد بظاہر آزاد ہے لیکن وہ خود کوکامیابی سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کرنے کی ایک نا ختم ہونے والی مجبوری میں جھونک دیتا ہے۔ یوں یہ جبری آزادی اپنی ذات کا استیصال بن جاتی ہے۔ ہم خود ہی ظالم خود ہی مظلوم بن جاتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے آپ اپنی مرضی سے کررہے ہیں، اپنے مالک آپ ہیں۔ لیکن آپ ہر وقت خود کو کامیاب بنانے، خود کو ایک برینڈ بنانے کی غیر محسوس مجبوری میں جکڑ دیے گئے ہیں۔
مسلسل کام اور محنت۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کا جنون اور پیداواریات کی دوڑ، ایک بے چینی، اوپر اوپر کی بھاگ دوڑ، بس ہر وقت کچھ کرنا ہے، خود کو بہتر بنانا ہے، ان کوششوں میں قدر، وجود اور غورو فکر اپنی اہمیت کھو رہے ہیں۔ قدر اب صرف کارکردگی میں ہے، استعداد میں ہے اور اس میں کہ آپ کتنے مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ لامتناہی سرگرمیاں اندرونی خالی پن کو چھپا رہی ہیں۔
ہر انسان میں وہ جو کچھ نیا کرنے کا جذبہ تھا، وہ انسانیت کا جوہر تھا۔ جدید معاشرے نے انسان کو ایک محنت کش حیوان بنادیا ہے۔ جو نیا اور کچھ منفرد کرنے کی صلا حیت کھو رہا ہے۔ سوچ بس حساب کتاب بن کر رہ گئی ہے۔ اس لحاظ سے جدیدیت کا انجام بڑا مایوس کن ہے۔ آج کا محنت کش حیوان بہت زیادہ فعال ہے اور شدید ذہنی دبائو اور بے چینی کا شکار۔
یہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ خدا اور آخرت پر ایمان نہیں رہا۔ یہ عقیدے اور حقیقت پر یقین کا بحران ہے۔ اب زندگی بہت زیادہ عارضی لگنے لگی ہے۔ ہر لمحہ بدل رہی ہے۔ کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ وجود میں ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ یہی کمی ہے جو بے چینی اور گھبراہٹ پیدا کرتی ہے۔ جب زندگی سے بڑی کہانیوں اور معنویت کا خاتمہ ہوجائے تو پیچھے کیا بچتا ہے؟ بس زندہ رہنا اور کام کرنا۔
جب مذہب اور روایات جو موت کے خوف کو قابو میں رکھتی تھیں، کمزور پڑ گئیں تو صرف ایک جنون باقی رہ گیا۔ زندگی کو ہر قیمت پر صحت مند رکھنا۔ اسی لیے آج کل صحت اور تندرستی یہ سب کچھ بہت اہم بلکہ مقدس ہو گیا ہے۔ زندگی ہی اب سب سے مقدس شے ہے جسے بچانا ہے اور اس کو بچانے کا ردعمل وہی ہے شدید مصروفیت، بے چینی اور ہیجان۔
آزاد معاشرے نے نئی قسم کی مجبوریاں پیدا کردی ہیں۔ اب ہمیں کنٹرول کرنے اور کام لینے کے لیے کسی بیرونی نگران کی ضرورت نہیں۔ ہم خود ہی اپنے نگران ہیں۔ خود ہی قیدی، خود ہی نگران، خود ہی شکار اور خود ہی شکاری۔ ہم ٹھیرنے اور غور کرنے کی صلاحیت کھو رہے ہیں۔ معاشروں پر ایک پژ مردگی اور تھکاوٹ طاری ہے۔ (بیونگ چل ہان کی کتاب: The burnout Society سے متاثر ہوکر لکھی گئی تحریر)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بہت زیادہ سے زیادہ پیدا کر رہے ہیں بے چینی نہیں ہے خود کو رہا ہے کے لیے خود ہی گئی ہے
پڑھیں:
مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوئرل سائنسز، جامعہ پنجاب)
پاک افغان تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس کی جہت نئی ہے۔ اس وقت بہت کوشش کی جا رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کتنی قربانی دی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے معاشرتی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے اور تعاون جاری رہے۔
پہلے صرف ریاست فیصلہ کرتی تھی اور عوام کو بتا دیتی تھی۔ عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ بدل چکے ہیں، اب حکومت اکیلئے فیصلہ نہیں کرتی بلکہ عوام بھی پرزور انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اگر 2025ء میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا ریاست اپنے طور پر مسئلہ افغانستان حل کر سکتی ہے تو جواب ہوگا نہیں، بلکہ اب ریاست کو اس مسئلے میں عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس معاملے پر معاشرے کے مختلف گروہوں میں اطمینان ضروری ہے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مسئلہ افغانستان سے نہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور قیادت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باقاعدہ قرارداد لا کر دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا جائے تاکہ اختلافات اور افواہیں ختم ہوں اور ایک موقف کے ساتھ ملک میں استحکام لایا جاسکے۔یہ سب کی یکساں ذمہ داری ہے کہ ملکی استحکام کو دوام بخشنے کیلئے ایک موقف اپنائیں۔ بارڈر پر دی جانے والی قربانیوں کا فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب سب متحد ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل میں تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے۔
انہیں یہ سکھانا ہے کہ جب بھی کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کر لیں، اس کا سورس لازمی دیکھیں۔ ہمارے لیے سوچ بدلنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اس بیانیے پر پروان چڑھایا کہ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے جس پر دشمن قابض ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے۔
اب اس نسل کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہم پہلے ٹھیک تھے یا اب۔ بھارت نے ہمیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس کی تیاری کیلئے ہمیں بہت سارے پہلوؤں پر سوچنا ہوگا، اس کیلئے اندرونی اتحاد اور پاک افغان اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ بیانات دیے جائیں۔ جذباتی بیانات کے نتائج قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ ہمارا بھائی چارے کا تعلق ہے، وہاں چند عناصر ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا ذمہ دار پورے افغانستان کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ ہمیں بھارت کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کو بہترین حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے لوگ مشتعل ہوں، ہم نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تمام عناصر کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک پاک افغان معاملے پر ریاست کو ذمہ دارانہ بیانات دینے چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اندرونی استحکام لانا ہے، ہمارے ادارے، حکومت اور افواج پاکستان ملک کو ہر طرح سے محفوظ بنانے اور استحکام لانے کیلئے تیار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اعلانیہ طور پر غلط چیزوں کی مذمت کرنی چاہیے، سب کو واضح ہونا چاہیے ہمارا ملک بھی ایک ہے اور دشمن بھی سب کا ہے۔
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ کار)
میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر جنگ کی بات ہوتی ہے، ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ٹکراؤ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور امن کی بات کم۔ میرے نزدیک ’افغانستان کو کھلی دھمکی‘ جیسے الفاظ سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ہمیں پاک افغان مذاکرات کے معاملے میں اشتعال انگیز بیانات کے بجائے امن کے پیغام کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس لیے ہی مذاکرات بھی کر رہا ہے۔
پاک افغان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ستمبر 1947ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی اور پھر اکتوبر میں پاکستان کو بطور ملک تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی آرکائیوز میں یہ موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف جا رہے تھے۔ سی آئی اے نے افغانستان سے شوٹر لیے اور اپنا کام کروا لیا۔ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات میں بہت کچھ مشترک ہے۔
بھارت نے بھی آزادی سے پہلے ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا کیے۔ آزادی کے بعد بھی یہی سب چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیروزپور اور گرداسپور میں مسیحیوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، 51 فیصد ووٹ ہونے کے باوجود علاقہ بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت کی بنیاد میں دہشت گردی پوشیدہ ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ہی شروع دن سے پاکستان کے مخالف ہیں۔افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کیا لیکن اب افغانستان اسے نہیں مانتا۔ بھارت خطے میں مسائل پیدا کر رہا ہے اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کرنی کی کوشش میں ہے۔
آر ایس ایس ، اجیت دوول، ششی تھرور و دیگر اشتعال انگیز سیاست کر رہے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر چلا گیا جو وہاں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہاں اسلحہ کی فروخت اور سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔
بی ایل اے جاوید مینگل گروپ کے پاس جدید ہتھیار ہیں، یہ اسلحہ انہیں افغان لیڈرز نے دیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کو بھی مستحکم پاکستان پسند نہیں ہے۔امریکا جب افغانستان میں تھا تو ہم نے اسے یہاں سے کور دیا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں مگر آپریشن ضرب عضب میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ جب طالبان نے ٹیک اوور کیا تو وہاں کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے خود کو دوبارہ سے منظم کر لیا۔ گلبدین حکمت یار، منگل باغ و دیگر کی کہانی سب کے سامنے ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 33 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جنہیں افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ بھی کام کر رہی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے پیچھے بھارت ہے، دہشت گرد’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھے، پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی شواہد دیے ہیں۔ بھارت نے افغان حکومت کو فنڈز دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کا رویہ غیر لچکدار ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ کا دفتر بھی ہے، اب وہاں بھارتی سفارتخانہ بھی کھولا جا رہا ہے ۔
افغانستان کی جانب سے پاکستان کی دو تشکیلوں پر حملہ کیا گیا۔ ایف سی پر حملے میں ملوث پانچ افراد میں سے تین افغانی تھے جو وہاں بیان ریکارڈ کرو ا کر آئے تھے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار سول ملٹری شہادتیں دیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان بھی اٹھایا۔ پاکستان نے خطے میں سٹرٹیجک رسٹرینٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، اب بھی صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے پہلے جب چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے حملہ ہوا تھا تو اس کا جواب دیا، پاکستان نے افغان بارڈ پر باڑ لگائی اور انٹرنیشنل بارڈر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اور پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔
افغان حکومت کہتی ہے کہ اس کا دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جب پاکستان نے افغان چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تو وہاں افغان فورسز اور خوارج دونوں موجود تھے جو پاکستان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا جس کے بعد جنگ بندی ہوئی۔افغانستان بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں ترکیہ کی خفیہ ایجنسی نے کالیں ٹریس کی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات میں شریک افغان نمائندوں کا رابطہ بھارت میں اجیت دوول کے ساتھ ہے۔ طالبان قندھا ر اور کابل کے درمیان پھنسے ہیں۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، پاکستان اس پر تیار نہیں ہے۔
افغانستان یہ مان نہیں رہاکہ وہاں دہشت گرد موجود ہیں جبکہ پاکستان نے ترکیہ کے سامنے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں جائے گا، کوشش ہوگی کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو لیکن اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو پھر دنیا نے جو ’’نیو نارمل‘‘ سیٹ کیا ہے کہ دور رہ کر کارروائی کرکے اپنے دشمنوں کا خاتمہ کریں تو پاکستان بھی یہ طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔
محمد مہدی
(ماہر امور خارجہ)
پاک افغان تعلقات کی تاریخ پاکستان کی تحریک آزادی سے منسلک ہے۔ آزادی کے وقت آزاد پختونستان کی باتیں تھیں اور آج بھی یہ سوچ مسئلہ ہے۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات حل بہتر رہیں۔ آزادی کے بعد پہلے افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی اور بعدازاں تسلیم کر لیا۔ 65ء کی جنگ میں افغانستان نے مہمند پر حملہ کیا۔
71ء میں بنگلہ دیش کے بننے پر کابل میں بڑا جشن منایا گیا۔ 1998ء میں طالبان کے پہلے دور میں برٹش انڈیا معاہدے کے 100 سال مکمل ہوئے، اس وقت طالبا ن کا پہلا دور تھا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس کی توثیق کی جائے گی لیکن طالبان نے نہیں کی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغان حکومت کے ساتھ استنبول میں مذاکرات ہوئے۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری کے سابق دور میں بھی استنبول میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے لیکن دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو۔
دوحہ مذاکرات کے بعد خیال تھا کہ طالبان ہمارے احسان مند ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہی نہیں۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ہوئے جن سے فی الحال کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے اور باقاعدہ ثبوت دکھا رہا ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دہشت گرد نہیں ہیں، ہم لکھ کر کیوں دیں۔ اس وقت بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ اگر بھارت اور افغانستان نے مل کر ہمیں انگیج کرنے کی کوشش کی تو ملکی دفاع میں ہر حد تک جائیں گے۔
خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو چین نے افغانستان کے ساتھ سڑک تعمیر کی لیکن تجارت نہیںکھلی، چین چاہتا ہے کہ تجارت ہوں ۔ اس وقت خطے کے تقریباََ ہر ملک کو طالبان سے مسئلہ ہے۔ طالبان کی پالیسی ہے کہ ہر ملک کیلئے مسائل پیدا کرو تاکہ وہ گھبرا کر ان سے تعلق قائم کریں اور پھر یہ اپنی بات منوا سکیں۔ فیلڈ مارشل نے بارڈر سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت کو نقصان ہوا ۔ افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین واپس بھیج دیے تووہاں بھوک کی صورتحال بدترین ہو جائے گی۔ طالبا ن قیادت کے اپنے بچے دوسرے ممالک میںرہتے ہیں۔
سہیل شاہین کے بچے قطر میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیںہے۔ پہلے قطر اور اب ترکی میں مذاکرات ہوئے، پاکستان جو چاہتا تھا وہ نہیں نکلا۔ افغانستان پر اس وقت دنیا کی توجہ ہے اور کچھ قوتیں متحرک بھی نظر آتی ہیں۔ جنرل احسان نے کہا ہے کہ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ اب افغانستان میں استحکام نہیں آئے گا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ دنیا افغانستان کی تقسیم پر غور کر رہی ہے، اگر امریکا اور چین دونوں اس پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ سادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو احتیاط اور سفارتی محاذ پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں صرف ٹرمپ اور امریکا پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان امن پسند ہے اور افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے۔ TAPI گیس پائپ لائن منصوبہ اہم ہے۔ اس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ گیس ہم تک آنی ہے اور کرایہ افغانستان کو ملنا ہے۔ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک تک درست رسائی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر محتاط تو رہنا ہے لیکن خاموش نہیں، ہمیں امن اور دفاع کا واضح پیغام دینا چاہیے۔
Tagsپاکستان