data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بہتر سے بہتر کرنے اور زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کوشش اور مجبوری، یہ اس عہد کے ہمارے وہ دشمن ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے ہمیں عینک اُتارنے کی ضرورت نہیں جو ہمیں مسلسل دوڑا رہے ہیں۔ اب ناکامیاں نہیں کامیابیاں ہماری دشمن ہیں۔ ہر دور کی اپنی مخصوص بیماریاں ہوتی ہیں۔ بیکٹریا اور وائرس کا زمانہ گزرگیا جب خطرہ باہر سے ہمارے اندرداخل ہوتا تھا آج کی بیماریاں اندرونی ہیں۔ دبائو، ڈیپریشن، تھکن، اعصابی امراض وغیرہ جن کی علامات ہیں۔
یہ امراض ہماری ذاتی نا کامیوں یا بیرونی منفی چیزوں کا حملہ نہیں بلکہ یہ مثبت چیزوں کی زیادتی کا حملہ ہے، یہ وہ امراض ہیں جو بہت زیادہ حاصل ہونے سے لا حق ہورہے ہیں۔ بہت زیادہ پیداوار، بہت زیادہ کامیابی کا جنون بہت زیادہ مواصلات، بہت زیادہ اہداف۔ یہ باہر سے حملہ نہیں ہے۔ یہ سسٹم کے اندر سے پیدا ہونے والا دبائو ہے جو مثبت چیزوں کے بہت زیادہ حاصل ہو جانے سے پیدا ہو رہا ہے۔
ہم ایک ایسی اچیومنٹ سوسائٹی اور نظام کا حصہ ہیں جو آزادیوں کے نام پر ہمیں اپنا ہی استیصال کرنے پر مجبور کررہا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرہ میں رہ رہے ہیں جہاں بنیادی خطرہ بیرونی دشمن یا بیرونی چیز سے نہیں بلکہ اندرونی مثبت چیزوں کی زیادتی سے ہے جن سے سسٹم اپنے ہی بوجھ تلے دب کر اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔
اپنے خود پیدا کردہ جس تشدد سے ہم ٹوٹ رہے ہیں ستم یہ ہے کہ وہ ہمیں آزادیوں جیسا محسوس ہوتا ہے۔ یہ تشدد ہمیں محروم نہیں کررہا بلکہ سیر کرکے اور بھر کے تھکا رہا ہے۔ جس سے ہم ایک تھکی ہوئی روحوں کا معاشرہ بن گئے ہیں۔ الگ تھلگ، ہر وقت متحرک اور اندر ہی اندر دبائو سے ٹوٹتے ہوئے لوگ۔
کنٹرول کی ہر شکل ہمیں آزادی کے نام پر دی جارہی ہے۔ ہم آزاد ہیں کیونکہ کوئی ہمیں نہیں، نہیں کہہ رہا ہے۔ سب مسلسل خود کو ہاں کہہ رہے ہیں پیداوار کے لیے، مثبت رہنے کے لیے، کارکردگی دکھانے کے لیے چاہے اس کی قیمت ہماری ذہنی اور جسمانی صحت ہی کیوں نہ ہو۔ اب خطرہ بیرونی نہیں بلکہ ہمارے نظام کی، ہماری کامیابیوں کی دوڑ کی زیادتی ہے، جس کے نتیجے میں تھکاوٹ ہمارے دور کی اہم علامت بن گئی ہے۔
پہلے کہا جاتا تھا ’’تمہیں یہ کرنا چاہیے، تمہیں یہ کرنا ہوگا‘‘ ایک حکم تھا۔ آج کہا جاتا ہے ’’تم یہ کرسکتے ہو‘‘ یہ بظاہر مثبت مکالمہ ایک نیا دبائو پیدا کرتا ہے، بہتر سے بہتر کرنے کا، خود کو نکھارنے کا، مسلسل کچھ نہ کچھ حاصل کرتے رہنے کا دبائو۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان دبا یا ہوا نہیں، تھکا ہوا ہے، خود اپنے استیصال کے خاموش مطالبات سے تھکا ہوا۔ وہ نظام جو آزادیوں کا علمبردار ہے کیسے ہمیں تھکا رہا ہے، کیسے ہمیں کمزور کرکے چھوڑ رہا ہے۔
پہلے اسپتال تھے، جیلیں اور فیکٹریاں تھیں اب فٹنس کلب ہیں، اسٹوڈیوز ہیں، آفس ٹاورز ہیں اور شاپنگ مالز۔ یہ فرمانبردار رعایا سے کامیاب فرد بننے کا سفر ہے جو خود اپنا کاروباری ہے۔ کنٹرول کی منطق بدل گئی ہے۔ منفی سے مثبت ہو گئی ہے۔ پہلے ’’نہیں کرسکتے‘‘ یا ’’کرنا چاہیے‘‘ پر زور تھا اب زور ہے ’’کرسکتے ہو‘‘ پر۔ ’’ہاں ہم کرسکتے ہیں‘‘۔ مقصد وہی ہے پیداوار کا زیادہ سے زیادہ کرنا۔
’’کرنا چاہیے‘‘ کی ایک حد ہوتی ہے لیکن ’’کرسکتے ہو‘‘ کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ مسلسل اکساتا ہے کہ ’’اور کرو‘‘، ’’اور بہتر کرو‘‘۔ ایک نا ختم ہونے والی دوڑ جو اندرونی دبائو پیدا کرتی ہے جو بوجھ آپ آزادی سے خود اپنے اوپر ڈالتے ہیں۔ اس لیے پیداوار بڑھانے کے لیے یہ زیادہ کارگر ہے۔ یہی سرمایہ دارانہ نظام کا ہدف ہے۔
کارکردگی دکھانے کی مجبوری، معاشرے میں بڑھتی ہوئی انفرادیت، جس سے سماجی تعلقات کمزور پڑجاتے ہیں یہ کامیاب ہونے کا وہ پھل ہے جو بیمار کر دیتا ہے۔ روح کی تھکاوٹ پیدا کر دیتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب کامیابی کا عادی فرد مزیدکچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ وہ اندر سے ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ ایک تخلیقی تھکاوٹ ہے۔ افسردہ فرد کو شکایت ہوتی ہے کہ کچھ بھی ممکن نہیں۔ یہ شکایت ہی ایسے معاشرے میں پیدا ہوسکتی ہے جو سمجھتا ہے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ جب فرد اس ’’سب کچھ ممکن ہے‘‘ والے معیار پر پورا نہیں اترتا تب وہ خود کو ملامت کرتا ہے، خود پر غصہ کرتا ہے۔ افسردہ ہو جاتا ہے۔ یہ ایک اندرونی جنگ ہے۔
افسردگی حد سے زیادہ مثبت سوچ والے معاشرے کی بیماری ہے۔ کامیاب معاشروں میں آزادی اور مجبوری ایک ہو جاتے ہیں۔ فرد بظاہر آزاد ہے لیکن وہ خود کوکامیابی سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کرنے کی ایک نا ختم ہونے والی مجبوری میں جھونک دیتا ہے۔ یوں یہ جبری آزادی اپنی ذات کا استیصال بن جاتی ہے۔ ہم خود ہی ظالم خود ہی مظلوم بن جاتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے آپ اپنی مرضی سے کررہے ہیں، اپنے مالک آپ ہیں۔ لیکن آپ ہر وقت خود کو کامیاب بنانے، خود کو ایک برینڈ بنانے کی غیر محسوس مجبوری میں جکڑ دیے گئے ہیں۔
مسلسل کام اور محنت۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کا جنون اور پیداواریات کی دوڑ، ایک بے چینی، اوپر اوپر کی بھاگ دوڑ، بس ہر وقت کچھ کرنا ہے، خود کو بہتر بنانا ہے، ان کوششوں میں قدر، وجود اور غورو فکر اپنی اہمیت کھو رہے ہیں۔ قدر اب صرف کارکردگی میں ہے، استعداد میں ہے اور اس میں کہ آپ کتنے مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ لامتناہی سرگرمیاں اندرونی خالی پن کو چھپا رہی ہیں۔
ہر انسان میں وہ جو کچھ نیا کرنے کا جذبہ تھا، وہ انسانیت کا جوہر تھا۔ جدید معاشرے نے انسان کو ایک محنت کش حیوان بنادیا ہے۔ جو نیا اور کچھ منفرد کرنے کی صلا حیت کھو رہا ہے۔ سوچ بس حساب کتاب بن کر رہ گئی ہے۔ اس لحاظ سے جدیدیت کا انجام بڑا مایوس کن ہے۔ آج کا محنت کش حیوان بہت زیادہ فعال ہے اور شدید ذہنی دبائو اور بے چینی کا شکار۔
یہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ خدا اور آخرت پر ایمان نہیں رہا۔ یہ عقیدے اور حقیقت پر یقین کا بحران ہے۔ اب زندگی بہت زیادہ عارضی لگنے لگی ہے۔ ہر لمحہ بدل رہی ہے۔ کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ وجود میں ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ یہی کمی ہے جو بے چینی اور گھبراہٹ پیدا کرتی ہے۔ جب زندگی سے بڑی کہانیوں اور معنویت کا خاتمہ ہوجائے تو پیچھے کیا بچتا ہے؟ بس زندہ رہنا اور کام کرنا۔
جب مذہب اور روایات جو موت کے خوف کو قابو میں رکھتی تھیں، کمزور پڑ گئیں تو صرف ایک جنون باقی رہ گیا۔ زندگی کو ہر قیمت پر صحت مند رکھنا۔ اسی لیے آج کل صحت اور تندرستی یہ سب کچھ بہت اہم بلکہ مقدس ہو گیا ہے۔ زندگی ہی اب سب سے مقدس شے ہے جسے بچانا ہے اور اس کو بچانے کا ردعمل وہی ہے شدید مصروفیت، بے چینی اور ہیجان۔
آزاد معاشرے نے نئی قسم کی مجبوریاں پیدا کردی ہیں۔ اب ہمیں کنٹرول کرنے اور کام لینے کے لیے کسی بیرونی نگران کی ضرورت نہیں۔ ہم خود ہی اپنے نگران ہیں۔ خود ہی قیدی، خود ہی نگران، خود ہی شکار اور خود ہی شکاری۔ ہم ٹھیرنے اور غور کرنے کی صلاحیت کھو رہے ہیں۔ معاشروں پر ایک پژ مردگی اور تھکاوٹ طاری ہے۔ (بیونگ چل ہان کی کتاب: The burnout Society سے متاثر ہوکر لکھی گئی تحریر)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بہت زیادہ سے زیادہ پیدا کر رہے ہیں بے چینی نہیں ہے خود کو رہا ہے کے لیے خود ہی گئی ہے
پڑھیں:
نریندر مودی اور ٹرمپ کے درمیان "آپریشن سندور" کے چلتے کوئی فون کال نہیں ہوئی، ایس جئے شنکر
اپنی تقریر کے دوران بھارتی وزیر خارجہ نے واضح لفظوں میں کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کوئی ثالث نہیں تھا، جنگ بندی کی پیش قدمی پاکستان کی طرف سے ہوئی۔ اسلام ٹائمز۔ پارلیمنٹ میں "آپریشن سندور" پر جاری بحث کے دوران برسر اقتدار طبقہ کی طرف سے مرکزی وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جئے شنکر جب اپنی بات رکھ رہے تھے، تو اپوزیشن کی طرف سے کئی سوالات اٹھائے گئے۔ اس درمیان ہنگامے کی صورت بھی بنتی ہوئی دیکھی گئی اور ایک وقت تو ایسا بھی آیا جب مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ انتہائی ناراض ہوگئے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اپوزیشن کو وزیر خارجہ پر بھروسہ نہیں ہے، بلکہ کسی دوسرے ملک پر بھروسہ ہے۔ دراصل مرکزی وزیر خارجہ جئے شنکر آپریشن سندور اور اس کے بعد پیدا حالات پر اپنی بات رکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی۔ پاکستان نے ٹی آر ایف (دہشت گرد تنظیم) کا دفاع کیا۔ پھر 7 مئی کی صبح پیغام دیا گیا اور پاکستان کو سبق سکھایا گیا۔ ایس جئے شنکر کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو سخت پیغام دیا، اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا ہندوستان کا حق ہے اور ہندوستان اب جوہری بلیک میلنگ نہیں برداشت کرے گا۔
اپنی تقریر کے دوران وزیر خارجہ نے واضح لفظوں میں کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کوئی ثالث نہیں تھا، جنگ بندی کی پیش قدمی پاکستان کی طرف سے ہوئی، پاکستان نے جنگ بندی کی گزارش کی۔ وہ مزید جانکاری دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 9 مئی کی صبح امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے فون پر کہا کہ پاکستان بڑا حملہ کر سکتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ان سے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ ہندوستان منھ توڑ جواب دے گا۔ جئے شنکر نے ایک بار پھر کسی بھی طرح کی ثالثی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی کی پیش قدمی پاکستان کی طرف سے ہوئی تھی۔ ایسے میں ہم نے صاف کہہ دیا تھا کہ پاکستان اگر جنگ روکنا چاہتا ہے تو اس کے ڈی جی ایم او ہمارے ڈی جی ایم او سے بات کریں۔
مرکزی وزیر خارجہ نے نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان "آپریشن سندور" سے متعلق کسی بھی بات چیت سے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان 22 اپریل سے 17 جون تک کوئی فون کال نہیں ہوئی۔ اس بیان پر پارلیمنٹ میں ہنگامہ شروع ہوگیا۔ اپوزیشن لیڈران ٹرمپ کے بیانات کا حوالہ دینے لگے۔ اس ہنگامہ کے درمیان وزیر داخلہ امت شاہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہندوستان کا وزیر خارجہ یہاں بول رہا ہے، ان (اپوزیشن لیڈران) کو وزیر خارجہ پر بھروسہ نہیں ہے بلکہ کسی اور ملک پر بھروسہ ہے، اسی لئے یہ وہاں (اپوزیشن میں) بیٹھے ہوئے ہیں، اگلے 20 سال تک وہیں بیٹھنے والے ہیں۔