Daily Ausaf:
2025-11-05@02:24:50 GMT

رمضان کے پہلے دس دنوں کی برکات و فضائل

اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT

رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں، مغفرتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس ماہ کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا:
والہ رحمۃ، واوسطہ مغفِرۃ، وآخِرۃ عِتق مِن النارِاس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔
پہلے عشرے کی خصوصیات، پہلے دس دن رحمت کے دن ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خصوصی فضل و کرم فرماتا ہے۔ ان دنوں میں مسلمان کو زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے، عبادات میں اضافہ کرنے اور اللہ کی رحمت کے حصول کی کوشش کے لئے دعا اور استغفار کرنا چاہیے۔پہلے عشرے کی برکتوں کا قرآن و حدیث میں ذکر،رحمتِ الٰہی کی وسعت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، تو میں وہ رحمت ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں۔(سورہ الاعراف: 156)
روزے کا اجر اللہ کے ذمے ،
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ابنِ آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے، کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔(بخاری: 1904، مسلم: 1151)
رمضان میں نیکیوں کی زیادتی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ِ
جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں۔(بخاری: 1899، مسلم: 1079)
نبی اکرم ﷺ کی عبادات اور معمولات، رسول اللہ ﷺ رمضان کے آغاز ہی سے عبادت میں اضافہ فرما دیتے تھے۔ خاص طور پر پہلے عشرے میں درج ذیل اعمال کا اہتمام فرماتے تھے:کثرتِ عبادت، نمازوں کا اہتمام، نوافل اور تہجد کی باقاعدگی۔تلاوتِ قرآن،آپ ﷺ رمضان میں حضرت جبرائیل ؑ کے ساتھ قرآن کا دور فرماتے تھے۔
سخاوت اور خیرات، عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں
رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے، اور رمضان میں ان کی سخاوت سب سے زیادہ ہوتی تھی۔(بخاری: 1902، مسلم: 2308)
استغفار اور دعا،نبی ﷺ رمضان کے پہلے عشرے میں بکثرت دعا اور استغفار فرماتے، کیونکہ یہ رحمت کے دن ہیں۔بہترین اعمال جو پہلے عشرے میں کرنے چاہئیں۔نمازوں کی پابندی فرائض کے ساتھ نوافل اور تہجد کا اہتمام کریں۔کثرت سے قرآن کی تلاوت اللہ کی رحمت حاصل کرنے کے لیے روزانہ قرآن کی تلاوت کریں۔صدقہ و خیرات محتاجوں، یتیموں اور مسکینوں کی مدد کریں۔ دعا و استغفاراللہ تعالیٰ سے بخشش اور رحمت مانگیں، کیونکہ رحمت کے دروازے کھلے ہیں۔ درود شریف کی کثرت نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجیں، اس سے اللہ کی رحمت حاصل ہوتی ہے اور ثواب ملتا ہے۔بھلائی کے کام غریب و نادار لوگوں کو کھانا کھلانا، صدقہ خیرات کرنا، رشتہ داروں سے حسنِ سلوک، غریبوں کی مدد، والدین کی خدمت کرنا،حسن سلوک کرنا اور ان سے دعائیں لینا۔ و الدین کو پیار کی ایک نظر سے دیکھنا حج مقبول ا ثواب ہے۔والدین کی خدمت و خوشنودی سے رمضان میں روزانہ کئی کئی حج اور عمرہ کا ثواب حاصل کریں اور دین و دنیا میں کامیاب ہوجائیں اور مشکلات و پریشانیوں سے نجات پائیں والدین کی دعائوں سے ایک خوبصورت دعاپہلے عشرے میں درج ذیل دعا پڑھنا مفید ہے:
اے اللہ!رمضان کے پہلے حصے میں مجھ پر رحم فرما، درمیانی حصے میں مجھے بخش دے، اور آخری حصے میں مجھے جہنم سے آزاد کر دے۔
رمضان کا پہلا عشرہ اللہ کی رحمت سمیٹنے کا بہترین موقع ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عبادت، تلاوت، دعا، استغفار، صدقہ و خیرات، درود شریف اور نیک اعمال کے ذریعے اللہ کی رحمت حاصل کریں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پہلے عشرے میں اللہ کی رحمت اللہ تعالی نبی اکرم ﷺ رمضان کے رحمت کے

پڑھیں:

تجدید وتجدّْ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-9

 

4

مفتی منیب الرحمن

اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔

معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔

ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔

قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔

اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔

ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ
  • حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے لبنان حکومت کو 16 ارب ڈالر کی پیشکش
  • مالی سال کے پہلے 4 ماہ، تجارتی خسارے میں 38 فیصد کا ریکارڈاضافہ
  • مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں تجارتی خسارے میں 38 فیصد اضافہ ریکارڈ
  • ایمان و عقیدت سے مزین کارنامہ؛ ہاتھ سے لکھا ہوا دنیا کا سب سے بڑا قرآنِ پاک
  • نومبر ختم ہونے سے پہلے 27 ویں آئینی ترمیم پاس ہو جائے گی، فیصل واوڈا
  • حکومت سے درخواست ، اس بار ترمیم کو پہلے سینیٹ میں لایا جائے،اسحاق ڈار
  • 27ویں آئینی ترمیم نومبر کے اختتام سے پہلے پاس ہو جائے گی: فیصل واؤڈا
  • پہلا ون ڈے: جنوبی افریقا کا پاکستان کو 264 رنز کا ہدف
  • تجدید وتجدّْ