رمضان کے پہلے دس دنوں کی برکات و فضائل
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں، مغفرتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس ماہ کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا:
والہ رحمۃ، واوسطہ مغفِرۃ، وآخِرۃ عِتق مِن النارِاس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔
پہلے عشرے کی خصوصیات، پہلے دس دن رحمت کے دن ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خصوصی فضل و کرم فرماتا ہے۔ ان دنوں میں مسلمان کو زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے، عبادات میں اضافہ کرنے اور اللہ کی رحمت کے حصول کی کوشش کے لئے دعا اور استغفار کرنا چاہیے۔پہلے عشرے کی برکتوں کا قرآن و حدیث میں ذکر،رحمتِ الٰہی کی وسعت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، تو میں وہ رحمت ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں۔(سورہ الاعراف: 156)
روزے کا اجر اللہ کے ذمے ،
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ابنِ آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے، کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔(بخاری: 1904، مسلم: 1151)
رمضان میں نیکیوں کی زیادتی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ِ
جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں۔(بخاری: 1899، مسلم: 1079)
نبی اکرم ﷺ کی عبادات اور معمولات، رسول اللہ ﷺ رمضان کے آغاز ہی سے عبادت میں اضافہ فرما دیتے تھے۔ خاص طور پر پہلے عشرے میں درج ذیل اعمال کا اہتمام فرماتے تھے:کثرتِ عبادت، نمازوں کا اہتمام، نوافل اور تہجد کی باقاعدگی۔تلاوتِ قرآن،آپ ﷺ رمضان میں حضرت جبرائیل ؑ کے ساتھ قرآن کا دور فرماتے تھے۔
سخاوت اور خیرات، عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں
رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے، اور رمضان میں ان کی سخاوت سب سے زیادہ ہوتی تھی۔(بخاری: 1902، مسلم: 2308)
استغفار اور دعا،نبی ﷺ رمضان کے پہلے عشرے میں بکثرت دعا اور استغفار فرماتے، کیونکہ یہ رحمت کے دن ہیں۔بہترین اعمال جو پہلے عشرے میں کرنے چاہئیں۔نمازوں کی پابندی فرائض کے ساتھ نوافل اور تہجد کا اہتمام کریں۔کثرت سے قرآن کی تلاوت اللہ کی رحمت حاصل کرنے کے لیے روزانہ قرآن کی تلاوت کریں۔صدقہ و خیرات محتاجوں، یتیموں اور مسکینوں کی مدد کریں۔ دعا و استغفاراللہ تعالیٰ سے بخشش اور رحمت مانگیں، کیونکہ رحمت کے دروازے کھلے ہیں۔ درود شریف کی کثرت نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجیں، اس سے اللہ کی رحمت حاصل ہوتی ہے اور ثواب ملتا ہے۔بھلائی کے کام غریب و نادار لوگوں کو کھانا کھلانا، صدقہ خیرات کرنا، رشتہ داروں سے حسنِ سلوک، غریبوں کی مدد، والدین کی خدمت کرنا،حسن سلوک کرنا اور ان سے دعائیں لینا۔ و الدین کو پیار کی ایک نظر سے دیکھنا حج مقبول ا ثواب ہے۔والدین کی خدمت و خوشنودی سے رمضان میں روزانہ کئی کئی حج اور عمرہ کا ثواب حاصل کریں اور دین و دنیا میں کامیاب ہوجائیں اور مشکلات و پریشانیوں سے نجات پائیں والدین کی دعائوں سے ایک خوبصورت دعاپہلے عشرے میں درج ذیل دعا پڑھنا مفید ہے:
اے اللہ!رمضان کے پہلے حصے میں مجھ پر رحم فرما، درمیانی حصے میں مجھے بخش دے، اور آخری حصے میں مجھے جہنم سے آزاد کر دے۔
رمضان کا پہلا عشرہ اللہ کی رحمت سمیٹنے کا بہترین موقع ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عبادت، تلاوت، دعا، استغفار، صدقہ و خیرات، درود شریف اور نیک اعمال کے ذریعے اللہ کی رحمت حاصل کریں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پہلے عشرے میں اللہ کی رحمت اللہ تعالی نبی اکرم ﷺ رمضان کے رحمت کے
پڑھیں:
غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
وہی ہوا جو منطقی تسلسل میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں باقاعدہ ضم کرنے کی علامتی قرار داد گذرے بدھ تیرہ کے مقابلے میں اکہتر ووٹوں سے منظور کر لی۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر نیتن یاہو حکومت مستقبلِ قریب میں ایسا کوئی قدم اٹھاتی ہے تو پارلیمان اس کے پیچھے کھڑی ہے۔گزشتہ برس نو کے مقابلے میں اڑسٹھ ووٹوں سے دو ریاستی حل کا فارمولا مسترد کرنے کی قرار داد بھی کنیسٹ منظور کر چکی ہے۔
مغربی کنارے کو باقاعدہ ضم کرنے کی قرار داد کی مخالفت میں جو تیرہ ووٹ آئے وہ پارلیمنٹ میں عرب بلاک کے نمایندوں اور بائیں بازو بشمول لیبر ارکان نے دیے۔نام نہاد اعتدال پسند صیہونی جماعتوں ، دائیں بازو کی حکمران لیخود پارٹی اور اس کی حواری متشدد مذہبی پارٹیوں نے مقبوضہ علاقے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے سے اتفاق کیا۔
تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مقبوضہ غربِ اردن کی فلسطینی آبادی کو ضم ہونے کی صورت میں برابر کا اسرائیلی شہری تسلیم کیا جائے گا اور ان پر موجودہ فوجی قوانین کے بجائے وہی سویلین قوانین لاگو ہوں گے جو اسرائیلی شہریوں پر لاگو ہوتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔
اس کا عملی مطلب یہ ہے کہ انضمام کے بعد مسلح یہودی آبادکاروں کے حملے اور تیز ہو جائیں گے ، فلسطینیوں کی باقی ماندہ نجی زمینوں پر فوجی سنگینوں کے سائے میں ’’ دفاعی مقاصد ‘‘ کے نام پر قبضے کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔ان زمینوں پر نئی یہودی بستیاں بسائی جائیں گی۔یعنی ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا کہ لاکھوں فلسطینیوں کا آخری ریلا بھی ’’ رضاکارانہ ‘‘ طور پر اپنی زمین سے نکل جائے اور جوڈیا سماریا (غربِ اردن ) ایک مکمل یہودی خطہ بن جائے۔
یہ قرار داد اسرائیلی کابینہ کے پندرہ وزرا کے بنام سرکار خط کی روشنی میں لکھی گئی۔ خط کے مطابق ’’ ایرانی شیطانی تکون ( حزب اللہ ، بشار الاسد ، یمنی ہوثی ) پر فتح کے بعد اب اندر موجود بقائی خطرے ( مقبوضہ فلسطینی ) سے بھی موثر انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔امریکا اور اسرائیل کی اسٹرٹیجک ساجھے داری اور صدر ٹرمپ کی مکمل حمائیت کے سبب یہی مناسب وقت ہے کہ آیندہ اسرائیلی نسلوں کا جغرافیائی مستقبل محفوظ کیا جائے۔ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے المیے نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست ہر شکل میں اسرائیل کی بقا کے لیے سنگین خطرہ ہے۔لہٰذا جوڈیا سماریا ( مقبوضہ کنارہ ) پر اسرائیل کا مکمل اختیار نافذ کیا جائے ‘‘۔
قرار داد کی علامتی اہمیت اپنی جگہ مگر عملاً اسرائیل بیشتر مقبوضہ علاقے کو پہلے ہی بتدریج ہضم کر چکا ہے۔مغربی یروشلم انیس سو اڑتالیس میں ہی اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا گیا۔فلسطینی اکثریتی مشرقی یروشلم انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد گریٹر یروشلم میونسپلٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔ فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یروشلم کے چاروں طرف آبادکار بستیوں کا جال بچھا دیا گیا۔
حالانکہ اقوامِ متحدہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جو قرار داد منظور کی تھی اور جس کی بنیاد پر چھ ماہ بعد اسرائیل کا وجود عمل میں آیا۔ اس قرار داد کے تحت یروشلم ایک کھلا بین الاقوامی شہر ہو گا۔مگر اسرائیلی پارلیمان نے انیس سو اسی میں متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا تاریخی دارالحکومت قرار دے کے قصہ چکتا کر دیا۔
اسرائیل نے شام سے انیس سو سڑسٹھ میں چھینی گئی گولان پہاڑیوں کو انیس سو اکیاسی میں باقاعدہ ضم کر لیا۔اگرچہ سلامتی کونسل نے اس اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔مگر پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے دو ہزار انیس میں نہ صرف گولان کو اسرائیل کا جائز حصہ مان لیا بلکہ یروشلم پر بھی اسرائیل کی حاکمیت کو قانونی تسلیم کر کے وہاں سفارت خانہ منتقل کر کے عشروں پرانی مبہم امریکی پالیسی ٹھکانے لگا دی۔
غزہ کے المئے نے نہ صرف وہاں کی پوری آبادی کو غذائی و عسکری نسل کشی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے بلکہ مغربی کنارے کی قسمت بھی سربمہر کر دی ہے۔اس بحران کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مغربی کنارے پر اکتیس نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری کی منظوری دی جا چکی ہے۔مزید چالیس ہزار سے زائد فلسطینی خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ فصلیں اور باغات نذرِ آتش ہو چکے ہیں یا اجاڑے جا رہے ہیں ، لگ بھگ ایک ہزار فلسطینی شہید اور چار گنا زخمی ہو چکے ہیں۔
انیس سو چورانوے کے نام نہاد اوسلو سمجھوتے کے تحت مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ ایریا سی کے نام پر اسرائیل کی دفاعی ضروریات کے لیے مختص ہے۔یہاں کوئی فلسطینی باشندہ کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتا۔اکیس فیصد علاقہ ایریا بی کے نام سے اگرچہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مشترکہ کنٹرول میں ہے۔ عملاً اسرائیلی فوج مسلح آباد کاروں کو آگے رکھ کے ایریا بی کو بھی مقامی آبادی سے صاف کر رہی ہے۔
اب رہ جاتا ہے انیس فیصد ایریا اے۔کہنے کو یہاں فلسطینی اتھارٹی کی اتھارٹی چلنی چاہیے۔مگر اسرائیلی فوج دھشت گردوں کے قلع قمع کے نام پر ایریا اے کے شہروں اور قصبوں میں جس وقت جہاں اور جب چاہے گھس جاتی ہے ، ناکہ بندی کرتی ہے اور برسوں سے قائم پناہ گزین کیمپوں کو بھی مکمل منہدم کر رہی ہے۔
مسجدِ اقصی کا احاطہ اگرچہ قانوناً غیر مسلموں پر بند ہے اور اس احاطے کی علامتی نگرانی اردن کے ہاتھ میں ہے۔مگر کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی صیہونی جتھہ اس احاطے میں نہ گھسے اور نمازیوں کو بے دخل نہ ہونا پڑے۔
مسجد مسلسل فوج اور پولیس کے محاصرے میں رہتی ہے۔یعنی یروشلم سمیت مغربی کنارہ عملاً اسرائیل میں ضم ہو چکا ہے۔بس باضابطہ اعلان کی کسر ہے تاکہ عرب ممالک ، او آئی سی ، اقوامِ متحدہ اور کچھ غیر عرب ریاستیں بین الاقوامی قوانین کا علم اٹھائے پہلے کی طرح کچھ ہفتے ماتم کر سکیں۔
اگلا منصوبہ یہ ہے کہ اسرائیل کس طرح غزہ سے تمام فلسطینیوں کو زندہ یا مردہ نکالتا ہے ، جنوبی لبنان کی سرحدی پٹی پر مستقل پنجے گاڑنا ہے اور جنوبی شام کے گولان سے متصل کچھ اور علاقے ہڑپ کرنے کے عمل میں قبائلی و علاقائی خانہ جنگی کو ہوا دے کر شام کے چار ٹکڑے ( دروز ، علوی ، سنی ، کرد ) کرواتا ہے۔
علاقے میں بس ترکی آخری طاقت رہ گیا ہے جو اسرائیل کو کبھی منہ دے سکے۔چنانچہ ان سب ہتھکنڈوں کا ہدف اگلے مرحلے میں ترکی کو تنہا کرنا ہے۔
آپ کے علم میں ہے کہ اسرائیلی بچوں کو اسکول میں کیا پڑھایا جاتا ہے ؟
’’ خدا نے دریاِ نیل تا فرات پھیلی زمین بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے بخشی ہے ‘‘۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)