سال 2025 پاکستان میں کپاس کی بحالی کا سال قرار
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
حکومت نے نجی سیکٹر سےمل کر 2025 کو پاکستان میں کپاس کی بحالی کا سال قرار دیے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کپاس کی پیداوار ہدف سے کم مگر گزشتہ برس سے 77 فیصد زیادہ
ملک میں کپاس کی پیداوار کم ہوئی ہے جس کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 40 لاکھ گانٹھیں سالانہ تھی جو اب کم ہو کر50 لاکھ بیلز پر آگئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کپاس برآمد کرنے والا ملک تھا جو اب 4 ارب ڈالر کی کپاس درآمد کر رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ چیزاربوں روپےکے اخراجات والی وزارت اور زرعی اداروں کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
شعبہ زراعت کے ماہرین نے کہا کہ کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جس پر قابو پانا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے نئی ریسرچ اوربہترین سیڈ ضروری ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ 126 فیصد اضافہ
زرعی ماہرین کا کہنا ہےکہ کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے چین سے بیج کی درآمد کی فوری اجازت اور فرسودہ قوانین سے جان چھڑانا ضروری ہے۔
ماہرین نے کہا کہ اگرفی ایکڑ پیداوار نہ بڑھائی گئی تو ٹیکسٹائل سیکٹر اور کسان نقصان میں رہیں گے۔
واضح رہے کہ جنوری 2024 میں سامنے آنے والی پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کپاس کی مجموعی قومی پیداوار 31 دسمبر 2023 تک رواں مالی سال کے پیداواری ہدف سے کم مگر گزشتہ برس کی نسبت 77 فیصد زیادہ رہی۔
مزید پڑھیں: کیا پاکستانی چاول، کپاس اور دیگر فصلیں اپنے اختتام پر ہیں؟
31 دسمبر2023 تک کپاس کی مجموعی قومی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے 77 فیصد اضافے کے ساتھ 81 لاکھ 71 ہزار گانٹھ رہی۔ 31 دسمبر تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں 81 لاکھ 71 ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی کی ترسیل ہوئی جو کہ سال 2023 کے مقابلے میں اگرچہ زائد تھی لیکن ابتدائی پیداواری ہدف کی نسبت تقریباً 43 لاکھ گانٹھ کم تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان میں کپاس کی پیداوار سال 2025 کپاس کا سال کپاس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سال 2025 کپاس کا سال کپاس میں کپاس کی پیداوار
پڑھیں:
نومولود بچوں کی بینائی کو لاحق خاموش خطرہ، ROP سے بچاؤ کیلئے ماہرین کی تربیتی ورکشاپ
ویب ڈیسک: میو ہسپتال لاہور کے شعبہ امراض چشم اور کالج آف آفتھلمالوجی اینڈ الائیڈ ویژن سائنسز کے زیر اہتمام یونیسیف کے اشتراک سے قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی بینائی بچانے سے متعلق اہم تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔
ورکشاپ کا موضوع ریٹینوپیتھی آف پریمیچیورٹی (ROP) – نومولود بچوں کی بصارت کے تحفظ میں نیوناٹولوجسٹ کا کردار تھا۔ اس میں پنجاب بھر کے 13 بڑے تدریسی ہسپتالوں سے 40 سے زائد نیوناٹولوجسٹ، ماہرینِ اطفال، گائناکالوجسٹ اور ماہرینِ امراض چشم نے شرکت کی۔
پنجاب یونیورسٹی کے غیر تدریسی عملے کابطور اسسٹنٹ پروفیسر تعیناتی منسوخی کیخلاف احتجاج کا اعلان
ماہرین نے زور دیا کہ ROP ایک مہلک بیماری ہے جو قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی آنکھ کے پردے (ریٹینا) کی غیر معمولی نشوونما کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ مکمل نابینائی کا باعث بن سکتی ہے۔
اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد معین (پرنسپل، COAVS) نے کہا کہ جدید طبی سہولیات نے بچوں کی بقا کی شرح تو بڑھا دی ہے مگر ROP جیسے نئے چیلنجز تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔ اس بیماری کی بروقت تشخیص کے لیے نیوناٹولوجسٹ کا کلیدی کردار ہے۔
پروفیسر ایمریٹس ڈاکٹر اسد اسلم خان نے زور دیا کہROP اب ایک عالمی چیلنج ہے اور اسے قومی سطح کی نیوبورن پالیسی میں شامل کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ہارون حامد (چیئرمین شعبہ اطفال و سی ای او میو ہسپتال) کا کہنا تھا کہ میو ہسپتال میں ہم نے ROP کے لیے مربوط ریفرل سسٹم قائم کر رکھا ہے اور اس اسکریننگ کو بنیادی ہیلتھ پروگرام کا مستقل حصہ بنانے کے لیے حکومت پنجاب سے تعاون جاری ہے۔
اختتام پر پروفیسر معین نے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ROP سے بچاؤ صرف نیوناٹولوجسٹ، ماہرِ چشم اور والدین کے مشترکہ تعاون سے ہی ممکن ہے۔
اسرائیل نے حضرت ابراہیم کے مقبرے اور مسجدِ ابراہیمی کا کنٹرول سنبھال لیا