سفارتی رابطوں کے بعد پاکستان اور امریکا کے درمیان وفود کی سطح پر ملاقات کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
کراچی:
پاکستان اور نئی امریکی حکومت کے درمیان اعلی سطح پر سفارتی رابطوں کے آغازکے بعد آئندہ دنوں میں وفود کی سطح پر ملاقات کا امکان ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اعلی حکومتی شخصیات کی ملاقات کاشیڈول اتفاق رائے سے طے کیا جائے گا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق امکان ظاہر کیا جارہا یے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم شہبازشریف کے درمیان جلد رابطہ ہوگا۔ اعلی وفاقی حکومت کے حکام نے ایکسپریس کو بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ ایک پیش رفت ہوئی جب کابل ایئرپورٹ حملے کا ماسٹر مائنڈ داعش کمانڈر کی گرفتاری پر تعاون پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز نے وزیرخارجہ اسحاق ڈار سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔اس کے بعد امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے اس معاملہ پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔
اس معاملے پر وفاق کے حکام نے بتایا کہ یہ اعلی سطح پر ٹرمپ حکومت کے پاکستانی حکام کے ساتھ باضابطہ سفارتی رابطوں کا آغاز ہے۔ اس حوالے سے اعلی سطح پر رابطوں کے بعد امریکا اور پاکستان کی حکومت کے درمیان تمام امور پر بات چیت کے زریعہ رابطوں کو بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔
وفاق کے حکام کا کہنا یے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تمام امور پربرابری کی سطح پر خارجہ پالیسی کے نقطہ کے مطابق بات چیت کو آگے بڑھائے گا۔ سفارتی حلقوں کو امید یے کہ دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح کے علاوہ اعلی حکومتی شخصیات پر رابطوں اور ملاقاتوں کا امکان یے اور جلد اس حوالے سے دونوں ممالک کی وزارت خارجہ اس حوالے سے شیڈول اور رابطوں کو مذید بڑھانے کے حوالے سے بات چیت کریں گی۔
ان رابطوں میں دہشت گردی کے خاتمے تجارتی تعلقات سمیت تمام امور پر بات چیت ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے درمیان حکومت کے حوالے سے بات چیت کی سطح کے بعد
پڑھیں:
امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔
جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“
سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔