ٹرمپ کے بیان کا براہ راست فائدہ کاروباری طبقے، صنعت کاروں کو ہوگا، گورنر کامران ٹیسوری
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کہا ہے کہ صوبائی قوانین اور وزارت صنعت کے درمیان روابط بہتر ہونے کی ضرورت ہے، کاروباری طبقے کو احساس ہوگیا ہے کہ حکومت اُن کے ساتھ ہے۔
کراچی میں ایف پی سی سی آئی کی لانچ پیڈ سافٹ لانچنگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر سندھ نے کہا کہ میرا تعلق کاروباری خاندان سے ہے اور میری نظر میں لانچ پیڈ کی تشکیل خوش آئند ہے،
انہوں نے کہا کہ کاروباری طبقے کو صنعتی علاقوں کے اطراف اچھا اور امن و امان والا ماحول چاہیے، صوبائی قوانین اور وزارت صنعت کی کوارڈینیشن بہتر ہونی ضروری ہے۔ کاروباری طبقے کو احساس ہو کہ حکومت ان کے ساتھ ہے تو معیشت زیادہ تیزی سے آگے بڑھے گی۔
گورنر سندھ نے کہا کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کام شکریہ ادا کیا، پاکستان کے ساتھ آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں تعاون کے فروغ کی بات کی، انہوں نے صدر بننے کے بعد پاکستان کی تعریف کی اور تعاون کی بات کی، اس کا سب سے بڑا فائدہ کاروباری طبقے معیشت اور سرمایہ کاروں کو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری آنے سے رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ اوپر جاتی ہے، اس خوش خبری کے اثرات آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے، تاجر برادری پلان بنائے کس طرح اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
گورنر سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت وزیر اعظم اور آرمی چیف کا بنیادی مقصد ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنا ہے، یہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں کا وقت ہے جس میں اتحاد کی صورت میں ہی معیشت بہتر ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنوں کا واقع دشمن ممالک کی کوشش ہے جس کا معیشت معاشی اثرات کو دھچکا پہنچانا ہے۔کاروباری طبقہ ملک میں کیسے بھی حالات ہوں سرمایہ کاری جاری رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت میں سندھ کے ٹیکسوں کا حصہ 95 فیصد ہے، اسی بات کے لیے کوشاں ہیں کہ کاروباری طبقے کے لیے سازگار ماحول بنائیں۔
تقریب میں وزیر اعلی سندھ، صوبائی وزراء شرجیل میمن، ناصر حسین شاہ نے بھی شرکت کی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کاروباری طبقے گورنر سندھ
پڑھیں:
ٹرمپ کے تجارتی ٹیرف اور پاکستان کی معیشت پر اثرات
بین الاقوامی معاشی پالیسیوں کا اثر صرف اُن ممالک تک محدود نہیں رہتا جو براہ راست اس پالیسی کا نشانہ بنتے ہیں، بلکہ یہ دنیا بھر کی معیشتوں پر غیر مرئی مگر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں امریکا نے جو تجارتی پالیسیاں اپنائیں، ان میں سب سے نمایاں پالیسی ’’امریکا فرسٹ‘‘ کا نعرہ اور اس کے تحت تجارتی ٹیرف (Tariffs) کا نفاذ تھا۔ ان ٹیرف کا بنیادی مقصد چینی مصنوعات کی حوصلہ شکنی اور امریکی مقامی صنعت کا تحفظ تھا، لیکن اس پالیسی نے عالمی تجارتی توازن کو متاثر کیا اور اس کا دائرہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک تک پھیل گیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے چین، یورپی یونین، میکسیکو اور کینیڈا جیسے بڑے تجارتی شراکت داروں پر اربوں ڈالر مالیت کے ٹیرف عائد کیے۔ گوکہ پاکستان براہ راست ان پابندیوں کا ہدف نہیں تھا، مگر عالمی سطح پر پیدا ہونے والا عدم توازن پاکستان کی معیشت پر کئی زاویوں سے اثر انداز ہوا۔
پاکستان کی معیشت کا انحصار بڑی حد تک برآمدات پر ہے، جن میں ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، چمڑا، اور کھیلوں کا سامان شامل ہیں۔ امریکی ٹیرف نے چین جیسے بڑے برآمد کنندگان کو محدود کیا تو امریکا نے متبادل منڈیوں کی تلاش شروع کی، جس میں پاکستان کو ایک موقع مل سکتا تھا۔ تاہم، پاکستانی صنعت ان مواقع سے مکمل فائدہ نہ اٹھا سکی۔ بنیادی وجوہات میں غیر معیاری پیداوار، برانڈنگ کی کمی، اور برآمدات کےلیے درکار عالمی سرٹیفکیشنز کا فقدان شامل ہیں۔ توانائی کے بحران اور مہنگی لاگت نے بھی پاکستانی برآمدکنندگان کو عالمی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا۔
ٹرمپ کے ٹیرف نے نہ صرف تیار شدہ مصنوعات کی تجارت کو متاثر کیا بلکہ عالمی سطح پر خام مال، خصوصاً کیمیکلز، دھاتوں اور صنعتی مشینری کے نرخوں میں بھی اتار چڑھاؤ پیدا کیا۔ چونکہ پاکستان کئی اشیاء کے لیے درآمدی خام مال پر انحصار کرتا ہے، اس لیے ان قیمتوں میں اضافے نے پیداواری لاگت میں اضافہ کیا۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق 2023 میں صنعتی خام مال کی درآمدی لاگت میں 17 فیصد تک اضافہ ہوا، جس کا براہِ راست اثر مقامی صنعتوں پر پڑا۔
امریکی ٹیرف کی پالیسیوں کے نتیجے میں چین اور دیگر متاثرہ ممالک کی معاشی سست روی نے عالمی سرمایہ کاری کا رجحان بدل دیا۔ جب امریکا میں افراطِ زر میں اضافہ ہوا، تو فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود بڑھا دی، جس کے باعث دنیا بھر سے سرمایہ امریکا کی طرف منتقل ہونے لگا۔ پاکستان جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں سے سرمایہ نکلنے لگا، اور روپے کی قدر دباؤ میں آگئی۔ اس سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوا بلکہ درآمدی اشیاء کی لاگت بھی بڑھی۔
ٹرمپ کی تجارتی جنگ سے عالمی مارکیٹ میں جو خلل پیدا ہوا، اس نے پاکستان میں چھوٹی اور درمیانی صنعتوں (SMEs) کو شدید متاثر کیا۔ ایک طرف برآمدات کی قیمتیں عالمی مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہیں، دوسری طرف خام مال مہنگا ہونے سے منافع کم ہوا۔ ایسے میں متعدد صنعتیں یا تو بند ہوگئیں یا محدود دائرہ کار میں کام کرنے پر مجبور ہوگئیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بحران کے پہلو میں مواقع بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ٹرمپ ٹیرف کے بعد امریکا اور دیگر مغربی ممالک متبادل سپلائرز کی تلاش میں تھے۔ اگر پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھاتا، تو ٹیکسٹائل اور انجینئرنگ کے شعبوں میں اپنی جگہ بنا سکتا تھا۔ لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ حکومت اور نجی شعبہ مل کر برآمدات کے معیار، برانڈنگ، اور سرٹیفکیشن کے نظام کو بہتر بناتے۔ GSP+ جیسے تجارتی معاہدوں پر عمل درآمد کو وسعت دینا بھی نہایت ضروری ہے۔
آگے بڑھنے کےلیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ تجارتی سفارت کاری کو مؤثر بنائے، علاقائی منڈیوں مثلاً افریقہ، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کو ہدف بنائے، اور مقامی صنعت کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ مالیاتی پالیسیاں ایسی ہوں جو برآمد کنندگان کے لیے معاون ثابت ہوں، نہ کہ رکاوٹ۔
ٹرمپ کے تجارتی ٹیرف بظاہر صرف بڑی عالمی طاقتوں کی معاشی جنگ کا حصہ تھے، لیکن ان کی بازگشت پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی سنائی دی۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایسی عالمی پالیسیوں کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے کےلیے طویل مدتی تجارتی اور صنعتی پالیسیوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔ بصورت دیگر، ہر عالمی جھٹکا ہماری ناتواں معیشت کو مزید زک پہنچاتا رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔