سیرت سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے بارے میں حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’جب لوگوں نے مجھ پر ایمان لانے سے انکار کیا تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب لوگوں نے مجھے معاش سے محروم کر دیا تو انہوں نے مال سے میری مدد کی، جب خدا نے دوسری بیویوں سے مجھے اولاد سے محروم رکھا تو ان سے مجھے اولاد عطا فرمائی۔‘‘
حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو عورتوں میں سے سب سے پہلے حضور ﷺ پر ایمان لانے اور حضور ﷺ کی پہلی بیوی ہونے کی سعادت بھی حاصل ہے، عمر میں بڑی ہونے کے باوجود حضور ﷺ نے آپؓ سے نکاح فرمایا اور آپؓ کے ہوتے ہوئے حضور ﷺ نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا، آپؓ نے 25 پچیس برس حضور ﷺ کی رفاقت و خدمت میں بیوی کی حیثیت سے گزارے اور اپنی تمام دولت حضور ﷺ کے قدموں پر نچھاور کر دی۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ حسنِ سیرت، اعلیٰ اخلاق، بلند کردار، عزت و عصمت اور شرافت و مرتبے کی وجہ سے مکہ مکرمہ اور اردگرد کے علاقوں میں طاہرہ کے پاکیزہ لقب سے مشہور تھیں۔ آپؓ کا سلسلۂ نسب قصی پر پہنچ کر حضور ﷺ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کے والد خویلد کا شمار مکہ کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا جو بڑے اور کام یاب تاجر تھے۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں، آپؓ کی تربیت و پرورش انتہائی ناز و نعم میں ہوئی۔ آپؓ کے اعلیٰ اخلاق، بلند کردار، دولت و شرافت اور عزت کی وجہ سے قریش کے بڑے سرداروں نے آپؓ کو کئی بار نکاح کا پیغام بھیجا لیکن آپؓ نے بڑی حکمت سے رد کر دیا۔ آپؓ کے پاس مال و دولت اور سامان تجارت کی کثرت تھی، آپؓ خود لکھنا پڑھنا جانتی تھیں جس کی وجہ سے آپؓ اپنے کاروبار اور سامان تجارت کی خود نگرانی کیا کرتی تھیں، جس کی وجہ سے آپؓ کا تجارتی کاروبار شام اور یمن تک پہنچ گیا تھا۔ آپؓ کا تجارتی قافلہ سب سے بڑا ہوتا تھا اور آپؓ اپنا سامان تجارت مختلف لوگوں کے ذریعے شام اور یمن تجارت کی غرض سے بھیجا کرتی تھیں اور ان کو بھی منافع میں شریک کر لیتیں۔ آپؓ کے تجارتی قافلوں کی نگرانی آپؓ کا قابل اعتماد اور معاملہ فہم غلام مسیرہ کیا کرتا تھا۔
ابن ہشام اور دیگر روایات کے مطابق ایک روز آپؓ کے غلام مسیرہ نے آپؓ سے حضرت محمد بن عبداﷲ (ﷺ) کی امانت و دیانت، شرافت اور عالی نسبی کا ذکر کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اس مرتبہ تجارتی قافلہ کا نگران اور شریک حضرت محمد بن عبداﷲ (ﷺ) کو بنا کر بھیجا جائے۔ اس دوران آپ ﷺ دیانت اور امانت دار کی حیثیت سے مشہور اور صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ نے مسیرہ کے مشورے کو مانتے ہوئے مسیرہ کو حضور ﷺ سے بات چیت کرنے کے لیے کہا۔ حضور ﷺ نے اپنے چچا اور سرپرست جناب ابوطالب کے مشورے سے ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کی اس پیش کش کو قبول کرتے ہوئے حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے غلام مسیرہ کے ہم راہ تجارتی قافلہ کو لے کر شام کے سفر پر روانہ ہوگئے۔
دو ماہ بعد جب تجارتی قافلہ واپس آیا تو حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے غلام مسیرہ نے حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ کو ان الفاظ میں شام کے تجارتی قافلہ اور سفر کے حالات و واقعات بیان کرتے ہوئے حضور ﷺ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں کافی عرصہ سے آپؓ کی خدمت میں ہوں اس دوران ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ میرا واسطہ پڑا لیکن محمد بن عبداﷲ (ﷺ) کی رفاقت میں جو کچھ میں نے دیکھا وہ عجیب تر ہے، میں نے محمد بن عبداﷲ (ﷺ) کو مشکلات میں بلند حوصلہ، مصائب میں پرسکون، ہجوم میں باوقار اور خرید و فروخت میں انتہائی ذہین و فہیم اور دور اندیش دیکھا ہے، وہ بردبار اور متحمل مزاج نوجوان ہیں، ان کی خاموشی میں وقار اور گفت گُو میں دل کشی ہے، ان کے منہ سے کوئی فضول بات نہیں نکلتی، لوگ اگر ان کو صادق و امین کہتے ہیں تو حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔
ان کے موتی جیسے دانتوں سے نور کی شعاعیں نکلتی ہیں، پسینہ انتہائی خُوش بُو دار ہے، وہ دن کی روشنی میں حسین اور رات کی روشنی میں حسین تر نظر آتے ہیں، ان کی سوچ بہت وسیع اور کردار میں تنہا و یکتا وہ لاکھوں میں ایک اور اپنی مثال آپ ہیں، آپؓ تجارت ان کے سپرد کر دیں بس کاروبار چمک اٹھے گا۔ غلام مسیرہ نے مزید کہا کہ جب دوران سفر بصرٰی کے مقام پر پہنچے اور ایک درخت کے سائے میں ٹھہرے تو اس خانقاہ کے راہب نسطورا نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ میں نے جواب میں کہا کہ یہ بنو ہاشم کے گھرانے کے ایک پاک باز نوجوان ہیں، تو نسطورا نے کہا کہ اس درخت کے نیچے نبی کے سوا کوئی نہیں ٹھہرتا پھر اس نے مجھ سے محمد بن عبداﷲ ﷺ کی آنکھوں میں سرخی کے بارے میں دریافت کیا اور جب میں نے بتایا کہ ان کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ہر وقت موجود رہتے ہیں تو نسطورا بولا کہ وہ یقیناً نبی آخرالزماں ہیں۔ دوسرے روز حضور ﷺ نے شام کے تجارتی سفر کا حساب کتاب پیش کیا، اس دفعہ حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ کو توقع سے بڑھ کر نفع ہوا تھا۔
(بہ حوالہ: کتاب خدیجۃ الکبرٰیؓ)
کاروبار و تجارت میں حضور ﷺ کی دیانت و امانت اور آپ ﷺ کی سچائی نے حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ کی طبیعت پر گہرا اثر ڈالا۔ حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ نے اپنی عزیز ترین سہیلی کے ذریعے حضور ﷺ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ حضور ﷺ نے اپنے چچا اور سرپرست جناب ابوطالب کی اجازت و رضا مندی کے بعد نکاح کے اس پیغام کو قبول کیا۔ مقررہ تاریخ پر آپ ﷺ کے چچا جناب ابو طالب نے ملت ابراہیمی کے مطابق آپ ﷺ کا نکاح پڑھایا، نکاح کے وقت حضور ﷺ کی عمر مبارک 25 پچیس برس اور حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ کی عمر 40 چالیس برس تھی۔
دعوت ولیمہ میں گوشت اور روٹی کا انتظام تھا، شادی کے دو اڑھائی سال کے بعد اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اولاد جیسی نعمت سے نوازتے ہوئے فرزند سعید عطا کیا، جس کا نام قاسمؓ رکھا گیا جس کی نسبت کی وجہ سے حضور ﷺ ابُوالقاسم کہلانے لگے اور ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ بھی آپ ﷺ کو ابُوالقاسم کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھیں۔ جب حضور ﷺ کی عمر مبارک 39 برس سے زاید ہوگئی تو حضور ﷺ مکہ مکرمہ سے اڑھائی میل دور غار حرا میں عبادت کے لیے تشریف لے جاتے۔ ابن ہشام کی ایک روایت کے مطابق ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ بھی کبھی کبھی آپ ﷺ کے ساتھ وہاں عبادت کے لیے جایا کرتی تھیں۔
غار حرا میں آپ ﷺ پر وحی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور آپ ﷺ نبوت و رسالت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو جاتے ہیں اور دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرماتے ہیں۔ دوسری طرف کفار نے آپ ﷺ اور آپؐ پر ایمان لانے والے صحابہ کرامؓ کو مختلف انداز میں ستانا اور تکلیفیں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ شعب ابی طالب میں تین سال کا عرصہ مسلمانوں نے انتہائی دکھ، تکلیفوں، اذیتوں اور مصیبتوں میں گزارا۔ ان قیامت خیز لمحات اور آزمائش کی گھڑیوں میں ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ نے بھی بڑے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور اس دوران ہر ممکن حضور ﷺ کی خدمت اور آرام کا خیال کیا، جب کہ اپنا تمام مال و دولت پہلے ہی اﷲ کے راستے میں قربان کر چکی تھیں اور شعب ابی طالب میں ہی آپؓ کی صحت تیزی سے گرنے لگی، ناقص خوراک اور تفکرات کے ہجوم کی وجہ سے آپؓ کی طبیعت خراب رہنے لگی۔
حضور ﷺ کے پیارے چچا کی وفات کے چند روز بعد ہی آپ ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون اور رفیقہ حیات بن کر آپ ﷺ کی رفاقت میں 25 پچیس برس گزارنے کے بعد ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ 10 دس رمضان المبارک کو 65 برس کی عمر میں وفات پا گئیں۔ حضور ﷺ نے خود قبر میں اتر کرام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ کو دفن فرمایا اور ہمیشہ ان کو یاد کر کے آپ ﷺ آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ چچا جناب ابو طالب کی وفات کے بعد رفیقہ حیات حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ کی وفات کی وجہ سے غمگین رہنے لگے اور آپ ﷺ نے اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ (غم کا سال) قرار دیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ام المو منین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبر ی ام المو منین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبری حضرت خدیجۃ الکبر تجارتی قافلہ غلام مسیرہ ایمان لانے کرتی تھیں حضور ﷺ کی کرتے ہوئے اﷲ تعالی کی وجہ سے پر ایمان کا سلسلہ اور ا پ کی عمر کہا کہ کے بعد
پڑھیں:
قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251019-03-1
جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال کو رائیگاں کر دیا۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اْس چیز کو مان لیا جو محمدؐ پر نازل ہوئی ہے اور ہے وہ سراسر حق اْن کے رب کی طرف سے اللہ نے ان کی برائیاں اْن سے دور کر دیں اور ان کا حال درست کر دیا۔ یہ اس لیے کہ کفر کرنے والوں نے باطل کی پیروی کی اور ایمان لانے والوں نے اْس حق کی پیروی کی جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے اِس طرح اللہ لوگوں کو اْن کی ٹھیک ٹھیک حیثیت بتائے دیتا ہے۔ (سورۃ محمد:1تا3)
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن انہوں نے اس وقت فرمایا جب کہ ایک شخص (وعظ کہنے یا خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوا اور اپنی فصاحت و بلاغت کے اظہار کی خاطر) بہت لمبی تقریر کی یہاں تک کہ سننے والے اکتا گئے چنانچہ اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص سے فرمایا کہ اگر تم اپنی تقریر میں اعتدال و میانہ روی سے کام لیتے تو بے شک وہ تقریر سننے والوں کے حق میں بہت بہتر ہوتی ہے میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے سمجھ لیا ہے یا یہ فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تقریر میں گفتگو میں اختصار کروں حقیقت یہ ہے کہ مختصر تقریر بہتر ہے۔ (ابوداؤد، مشکوٰۃ)