بھارتی قید سے رہا 67 پاکستانی ماہی گیر وطن واپس پہنچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: بھارتی قید سے رہائی پانے والے67 پاکستانی ماہرگیروطن واپس پہنچ گئے، جنہیں لاہور سے کراچی ایدھی فاؤنڈیشن کے تعاون سے منتقل کیا گیا۔ آزاد ہونے والوں میں سجاول کے 17 ماہی گیر بھی شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق کراچی پہنچنے پر اہلِ خانہ نے اپنے پیاروں کا والہانہ استقبال کیا، جس دوران خوشی کے مناظر دیکھنے کو ملے۔آزاد ہونے والے ماہی گیروں میں غلام نبی رچھو، علی اصغر رچھو، محمد شیخ، یاسین شیخ، علی بخش، صدام حسین اور غلام علی شامل ہیں۔ جبکہ آتھرکی کے ناکھو، احمد، حسن، غلام حسین، عبدالستار کاتیار، احسان، عارب، مقبول اور واحد عرف گڈو پاتنی بھی وطن واپس پہنچے۔
واضح رہے کہ یہ تمام ماہی گیر بھارتی سمندری حدود میں غلطی سے داخل ہونے پر گرفتار ہوئے تھے، جنہیں سفارتی کوششوں کے بعد رہائی ملی۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ساحلی علاقوں میں سمندر کی سبز رنگت، رات کے وقت روشنی کے باعث ماہی گیر تشویش میں مبتلا
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے سمندر کی قدرتی چمک اور پانی کی سبز رنگت کی وضاحت کردی۔
کراچی اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سمندر کی سبز رنگت اور رات کے وقت چمکتی ہوئی روشنی نے ماہی گیروں اور مقامی آبادی میں تشویش پیدا کی ہے، کئی لوگ اس مشاہدے کو زہریلی کائی یا ساحلی آلودگی سے جوڑ رہے تھے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے واضح کرتا ہےکہ یہ مظاہر قدرتی، غیر زہریلے اور موسمیاتی عوامل کے باعث پیدا ہونے والے سی اسپارکل (Noctiluca scintillans) کی موجودگی کا نتیجہ ہیں۔
اس عمل کا سمندری آلودگی یا نقصان دہ کائی سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ چھوٹا سا تیرتا ہوا جاندار بعض اوقات سبز، سرخ، نارنجی یا بے رنگ دکھائی دیتا ہے،پاکستان کے ساحل پر اس کی سبز اور نارنجی رنگت عام ہے۔
اس کا سبز رنگ اصل میں اس کے اندر موجود سمبیونٹ Protoeuglena noctilucae سے آتا ہے جو فوٹو سنتھیسز کرسکتا ہے، یہی جاندار رات کے وقت سمندر میں دکھائی دینے والی چمک/سی اسپارک کا سبب بنتا ہے۔
تیکنیکی مشیرڈبلیو ڈبلیو ایف(پاکستان) محمد معظم خان نے کہا کہ موجودہ بلوم کسی قسم کا زہریلا خطرہ نہیں رکھتا،نہ ہی اس کے سبب مچھلیوں کی اموات کی کوئی اطلاع ہے، سن 2012 سے ساحلی علاقوں میں تقریباً تمام نیکٹولوکا بلومز غیر زہریلے ریکارڈ کیے گئے ہیں، البتہ بلوم کے خاتمے پر وقتی طور پر بدبو پیدا ہونا قدرتی عمل کا حصہ ہے۔
محمد معظم خان نے کہا کہ یہ ایک قدرتی سمندری مظہر ہے جس کا آلودگی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس قدرتی مظہر سے قطع نظر، کراچی کی بے قابو ساحلی آلودگی ایک شدید اور الگ مسئلہ ہے۔
شہر سے روزانہ ہزاروں ٹن صنعتی و گھریلو فضلہ، سیوریج، ٹھوس کچرا اور تیل آلودگی لیاری اور ملیر ندیوں کے ذریعے سمندر میں جاتا ہے، جو سمندری حیات اور ساحلی معاشرت کیلئے بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے۔
حکومت سےمطالبہ ہے کہ سیوریج اور صنعتی فضلے کے مؤثر انتظام، ٹریٹمنٹ پلانٹس کی بہتری، اور ساحلی پانی کے معیار کی نگرانی کو فوری بنیادوں پر یقینی بنایا جائے تاکہ پاکستان کے سمندری ماحولیاتی نظام اور ماہی گیر برادریوں کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔