مارشل لا کے اقدام کی توثیق میں عدلیہ کا بھی کردار ہے، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ میں نومئی واقعات میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا مارشل لاء کے اقدام کی توثیق میں عدلیہ کا بھی کردار ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔سپریم کورٹ بار کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں جمع کرا دی گئیں جن میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ بار کا پانچ مارچ کو اجلاس ہوا.
اجلاس میں جائزہ لیا گیا بار کا فوجی عدالتوں پر موقف کیا ہونا چاہیے، اصولی طور پر عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، آرمی ایکٹ کی شقیں عدالتی تشریحات میں آئینی قرار پا چکیں، آرمی ایکٹ کی شقوں کو اب کالعدم نہیں قرار دیاجا سکتا.
سیکیورٹی، امن اور لااینڈآرڈر بھی بنیادی آئینی اقدار ہیں، دہشتگردی میں شدت آئی، پاکستان کے شہری امن اور ہم آہنگی کے مستحق ہیں، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تمام آئینی و قانونی اقدامات ہونے چاہئیں۔
خبر ایجنسی کے مطابق سپریم کورٹ بار کے جواب میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا مقدمہ نہیں چلنا چاہئے، پھر بھی فوجی عدالتوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ عدالت عظمی کے متعدد فیصلوں میں آرمی ایکٹ کی دفعات کو قوانین کے مطابق درست پایا گیا ہے۔
آرمی ایکٹ کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لاہور بار اور لاہور ہائی کورٹ بار کے وکیل حامد خان نے دلائل میں کہا کہ آرمی ایکٹ مئی 1952 میں آیا، سازش پر پہلا مقدمہ 1951 میں راولپنڈی سازش پر بنا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض جیسے لوگوں کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔
حامد خان نے کہا ملزمان کا ملٹری ٹرائل نہیں بلکہ اسپیشل ٹریبونل کے تحت ٹرائل کا فیصلہ ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل استفسار کیا ان ساری باتوں کا ملٹری ٹرائل کیساتھ کیا تعلق ہے، ملک میں کب مارشل لاء لگا اس کا ملٹری کورٹ کیس سے کیا لنک ہے،آئین میں مارشل لاء کی کوئی اجازت نہیں۔
حامد خان نے کہا مارشل لاء کیلئے کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیا جاتا ہے،سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مارشل لاء کا راستہ بند ہوا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین میں مارشل لاء کے نفاذ کی کوئی اجازت نہیں ہے ، مارشل لاء ماورائے آئین اقدام ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا مارشل لاء کے اقدام کی توثیق میں عدلیہ کا بھی کردار ہے۔ حامد خان نے کہا ملٹری ٹرائل میں دستیاب بنیادی حقوق واپس لے لیے جاتے ہیں، جمہوریت میں ملٹری کورٹس کا کوئی تصور نہیں،سیٹھ وقار نے ملٹری کورٹس سزائیں کالعدم قرار دیں، وہ گریٹ جج تھے۔
خبر ایجنسی کے مطابق جسٹس جمال مندوخیل نے انہیں اس وقت روک دیا جب حامد خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے پی ٹی آئی کے بانی کی گرفتاری کا حوالہ دیتے ہوئے طویل تفصیلات بیان کرنا شروع کردیں۔
جسٹس مندوخیل نے ان سے کہا کہ وہ نقطہ پر آئیں اور عدالت کے سامنے اہم سوال پر بحث کریں۔ عدالت پرانی کہانیاں سننا نہیں چاہتی۔ اصل سوال آرمی ایکٹ کے تحت شہریوں کے ٹرائل کا ہے۔ مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فوجی عدالتوں سپریم کورٹ مندوخیل نے جسٹس جمال مارشل لاء کورٹ بار نے کہا
پڑھیں:
زیر التوا اپیل کی بنیاد پر عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے، سپریم کورٹ
زیر التوا اپیل کی بنیاد پر عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے، سپریم کورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 23 July, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کسی اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کے زیر التوا ہونے کے سبب ازخود چیلنج شدہ فیصلے پر عمل درآمد رک نہیں جاتا، زیر التوا اپیل کی بنیاد پر فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کا تحریر کردہ 4 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا گیا، چیف جسٹس یحیی آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔فیصلہ کے مطابق معاملہ 2010 میں بہاولپور کی زمین سے متعلق تنازع پر شروع ہوا، لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بنچ نے 2015 میں معاملہ ریونیو حکام کو ریمانڈ کیا، ہائیکورٹ نے ریونیو حکام کو ہدایت کی تھی کہ قانون کے مطابق دوبارہ فیصلہ کریں۔
جاری کردہ فیصلہ میں بتایا گیا کہ ایک دہائی گزرنے کے باوجود ڈپٹی لینڈ کمشنر بہاولپور نے فیصلہ نہیں کیا، ہائیکورٹ کے ریمانڈ آرڈر پر عملدرآمد میں 10 سال تاخیر ہوئی، ریونیو حکام نے ہائیکورٹ کے احکامات پر عمل نہیں کیا، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اعتراف کیا ہے کہ کسی عدالت کا سٹے آرڈر نہیں تھا جو فیصلہ پر عمل درآمد سے روکتا۔
چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ریمانڈ آرڈرز کو اختیاری سمجھنا غیر آئینی طرز عمل ہے، اپیل یا نظرثانی کی زیر التوا درخواست فیصلے پر عملدرآمد نہیں روکتی، یہ عمل عدالتی احکامات کی توہین کے مترادف ہے، محض زیر التوا مقدمے کی بنیاد پر عملدرآمد روکنا قابل قبول نہیں۔فیصلہ کے مطابق عدالت نے چیف لینڈ کمشنر کو پالیسی گائیڈ لائنز جاری کرنے کی ہدایت کر دی، چیف لینڈ کمشنر نے عدالت میں تمام ریمانڈ کیسز کی مانیٹرنگ کا وعدہ کیا جس پر عدالت نے تمام پٹیشنز غیر موثر ہونے پر نمٹا دی۔
عدالت عظمی نے فیصلہ دیا ہے کہ تین ماہ میں ریمانڈ کیسز کی تفصیلی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرائی جائے، تمام متعلقہ اتھارٹیز کو ریمانڈ آرڈرز پر فوری عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ تاخیر یا غفلت ناقابل قبول ہوگی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرٹی ٹی پی کے نمبرز اور گروپس بلاک کیے جائیں، وزیر مملکت طلال چوہدری کا واٹس ایپ سے مطالبہ ٹی ٹی پی کے نمبرز اور گروپس بلاک کیے جائیں، وزیر مملکت طلال چوہدری کا واٹس ایپ سے مطالبہ شوگر ملز کی جانب سے 15ارب روپے سے زائد قرضے واپس نہ کیے جانے کا انکشاف آئی ایم ایف نے حکومت سے گیس کے گردشی قرضے ختم کرنے کا مکمل پلان مانگ لیا حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی تو سخت مزاحمت کرینگے ، ملی یکجہتی کونسل عمران خان کے بیٹوں کی ٹرمپ کے ایلچی رچرڈ گرینل سے ملاقات، رہائی کیلئے امریکا میں مہم شروع کر دی پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی بنیادوں پر تجارتی معاہدہ طے پاگیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم