کراچی:

سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال میں لیتھوٹریسی مشین استعمال کیے بغیر ناکارہ ہوگئی۔

صوبائی محکمہ صحت کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسپتال میں 15 سال قبل خریدی جانے والی لیتھوٹریسی مشین استعمال کیے بغیر خراب ہوگئی، جس سے عوام کے لاکھوں روپے ضائع ہو گئے۔ یہ مشین گردے میں شعاعوں کے ذریعے پتھری توڑنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ محکمہ صحت کے افسران نے مشین تو خرید لی، لیکن اسپتال میں اسے آپریٹ کرنے کے لیے تربیت یافتہ عملہ تعینات نہیں کیا، جس کے باعث مشین ناکارہ ہو گئی۔  

ضلع وسطی میں 45 لاکھ افراد پر مشتمل سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال وہ واحد اسپتال ہے جو عوام اور ٹریفک حادثات میں زخمی ہونے والوں کے علاج کے لیے ٹراما اسپتال بنایا گیا تھا، لیکن محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کی عدم توجہی کی وجہ سے اسے ٹراما اسپتال میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق اسپتال کی حدود تین ہٹی سے ال آصف اسکوائر، بشمول ناظم آباد اور حیدری تک واقع ہے۔ اس اسپتال کے لیے حکومت سندھ سالانہ صرف 4 کروڑ 75 لاکھ روپے کا بجٹ فراہم کرتی ہے، جبکہ یہاں مریضوں کے داخلے کے لیے صرف 200 بستر مختص ہیں۔ او پی ڈی میں روزانہ ساڑھے تین سے چار ہزار مریض آتے ہیں۔  

داخل مریضوں کی ادویات، طبی ٹیسٹوں اور او پی ڈی میں فراہم کی جانے والی دواؤں کے لیے فراہم کردہ بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے اسپتال میں مختص بجٹ کے مطابق فی مریض ہر تین ماہ میں محض 41 پیسے رکھے گئے ہیں۔ اگر اس بجٹ کو ضلع وسطی کی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو یہ نا ہونے کے برابر ہے، لیکن حکومت سندھ جب بجٹ ظاہر کرتی ہے تو یہ تاثر دیتی ہے کہ خطیر رقم فراہم کی جا رہی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔  

سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد سمیت دیگر اسپتالوں کو مختص کردہ بجٹ ہر تین ماہ بعد قسطوں کی صورت میں فراہم کیا جاتا ہے۔ سندھ کے تمام سرکاری اسپتال عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم سے چلائے جا رہے ہیں، لیکن حکومت یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ خود اس مد میں رقم فراہم کر رہی ہے۔ ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد کو ہر تین ماہ بعد 1 کروڑ 17 لاکھ روپے ادویات اور دیگر طبی سہولیات کے لیے دیے جاتے ہیں، جبکہ ضلع وسطی کی آبادی 45 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔  

اسپتال کا شعبہ حادثات صرف 8 بستروں پر مشتمل ہے، جبکہ یہاں روزانہ 1500 مریض رپورٹ ہوتے ہیں۔ بعض شعبوں میں کنسلٹنٹس اور پروفیسرز بھی تعینات نہیں ہیں۔ 2009 میں اسپتال کو ٹراما سینٹر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ٹراما سینٹر کے لیے علیحدہ عمارت بھی تعمیر کی گئی تھی، لیکن وہاں ٹراما سینٹر قائم کرنے کے بجائے ایک منزل پر نرسنگ اسکول، دوسری پر پیرامیڈیکل اور مڈوائفری اسکول جبکہ دیگر حصے میں اسپتال انتظامیہ کے دفاتر بنا دیے گئے۔  

اسپتال میں کارڈیک یونٹ، ڈینٹل یونٹ، بزنس سینٹر اور ارتھوپیڈک یونٹ موجود ہیں، لیکن تربیت یافتہ عملہ نہ ہونے کے باعث یہاں آنے والے مریضوں کو سول یا جناح اسپتال ریفر کر دیا جاتا ہے۔ اسپتال میں میڈیکو لیگل شعبہ اور پوسٹ مارٹم کی سہولت بھی میسر نہیں۔  

اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عتیق قریشی نے بتایا کہ اسپتال میں ماہانہ ایک لاکھ مریض مختلف او پی ڈی میں آتے ہیں اور گائنی سمیت دیگر امراض کے مکمل علاج کی سہولت موجود ہے، مگر مریضوں کے لحاظ سے بجٹ ناکافی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں اسپتال کے دو آپریشن تھیٹرز، جو گزشتہ پانچ سال سے بند تھے، اپنی مدد آپ کے تحت فعال کر دیے گئے ہیں۔  

لیتھوٹریسی مشین سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ مشین 15 سال قبل خریدی گئی تھی، لیکن اسے چلانے کے لیے عملہ تعینات نہ ہونے کی وجہ سے یہ بغیر استعمال کے ناکارہ ہوگئی۔ تاہم، اسپتال میں لیپروسکوپی مشین کے ذریعے پتے کی سرجری شروع کر دی گئی ہے۔  

اسپتال میں ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی کمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ٹراما سینٹر کے لیے 2009 میں عمارت تو بنائی گئی، لیکن عملہ اور بجٹ مختص نہ ہونے کے باعث اسے فعال نہیں کیا جا سکا، اور اب اس عمارت میں نرسنگ اسکول سمیت دیگر تعلیمی ادارے قائم کر دیے گئے ہیں۔  

اسپتال میں آنکھوں کی او پی ڈی سمیت تمام شعبوں کی او پی ڈی باقاعدگی سے ہوتی ہے، جبکہ ڈائیلاسز، بلڈ بینک، فزیو تھراپی اور لیبارٹری سمیت دیگر سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ یہاں جنرل اور ارتھوپیڈک سرجری بھی ہوتی ہے، تاہم ای این ٹی اور ارتھوپیڈک اسپیشلسٹ کی کمی ہے جبکہ فیکو مشین بھی دستیاب نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سندھ گورنمنٹ استعمال کی اسپتال میں لیاقت آباد سمیت دیگر او پی ڈی کیا جا کے لیے

پڑھیں:

دریاؤں میں آنیوالے سیلابی پانی کے استعمال پر کسی ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں، عظمیٰ بخاری

لاہور:وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ دریاؤں میں آنے والے سیلابی پانی کے استعمال پر کسی ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے واضح کیا کہ دریاؤں سے آنے والے سیلابی پانی کے استعمال پر صوبے کو کسی اور کی ہدایات کی ضرورت نہیں اور نہ ہی سندھ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں پر اعتراض کرے۔

انہوں نے کہا کہ زیرِ غور کینالز منصوبے میں صرف سیلابی پانی استعمال کیا جائے گا، جو ضائع ہونے کے بجائے فائدے میں لایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی کوئی نہر تعمیر نہیں ہوئی، مگر اتفاق رائے کی کوششیں جاری ہیں، تاہم مذاکرات دھمکیوں سے نہیں، بات چیت سے آگے بڑھتے ہیں۔

عظمیٰ بخاری نے سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی گزشتہ 16 سال سے سندھ میں اقتدار میں ہے، مگر کسانوں کے مسائل آج بھی وہیں کے وہیں ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی گمراہ کن بات کرے گی تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ہر بیان کا جواب دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے مجوزہ منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج جاری ہے۔ سکھر بائی پاس پر وکلا کا دھرنا تاحال جاری ہے، جس سے سندھ اور پنجاب کے درمیان آمد و رفت متاثر ہوئی ہے۔

اس معاملے پر وفاقی سطح پر بھی ہلچل دیکھنے میں آئی ہے اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ اور سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے درمیان مذاکرات پر اتفاق ہو چکا ہے۔ دونوں جانب سے رہنما پریس کانفرنس بھی کررہے ہیں جب کہ وزیراعظم نے معاملے کہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • سندھ کے عوام کے اعتماد کے بغیر نہری منصوبہ قبول نہیں، حافظ حمد اللّٰہ
  • کینالز منصوبے میں سیلاب کا پانی استعمال ہوگا، اس پر سندھ ہمیں ڈکٹیشن نہیں دے سکتا، عظمی بخاری
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • چین میں سونے کے زیورات کی اے ٹی ایم کے ذریعے فروخت ممکن
  • اسٹیبلشمنٹ فیڈریشن کو ون یونٹ نظام نہ بنائے: لیاقت بلوچ
  • دریاؤں میں آنیوالے سیلابی پانی کے استعمال پر کسی ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں، عظمیٰ بخاری
  • تحریکِ انصاف کا اندرونی انتشار اسٹیبلشمنٹ کی طاقت بن گیا، جماعت اسلامی
  • سونا بیچنے کی اے ٹی ایم مقبول
  • وفاقی دارالحکومت میں نجی سیکورٹی کمپنیز اور گارڈز کی انسپکشن ، نجی سیکورٹی کمپنی کا منیجر ،بغیر لائسنس اسلحہ استعمال کرنے والے گارڈزگرفتار
  • سرکاری اسپتالوں میں قواعد کیخلاف تعیناتیاں، مریضوں کو دشواریاں