غیراستعمال شدہ درآمدی آرایل این جی پاکستان کو مہنگی پڑ رہی ہے . ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 مارچ ۔2025 )آرایل این جی کی بدانتظامی کی وجہ سے پاکستان میں گیس کا بحران مزید سنگین ہو گیا ہے جس نے توانائی کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات اور سٹریٹجک منصوبہ بندی کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا.
(جاری ہے)
ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے توانائی کے ماہر ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ پاکستان میں گیس کا جاری بحران تیزی سے شدید ہوتا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ درآمد شدہ ری گیسیفائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس کی بدانتظامی اور بجلی کی مانگ میں کمی ہے انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آر ایل این جی پاور پلانٹس کو بنیادی طور پر زیادہ بوجھ کے دوران، خاص طور پر گرمیوں میں کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے تاہم قطر جیسے سپلائرز کے ساتھ طویل مدتی معاہدوں کے لیے ضروری ہے کہ ذخیرہ کرنے کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے باوجود پاکستان آنے والی تمام آر ایل این جی شپمنٹس کو آف لوڈ کرے اس کے نتیجے میں جب بجلی کی طلب میں کمی آتی ہے تو گیس پائپ لائن نیٹ ورکس پر دبا وبڑھتا ہے، طویل مدت میں توانائی کی پالیسی کو مستحکم کرنے کے لیے آر ایل این جی معاہدوں کی دوبارہ جانچ اور اسٹوریج کے بنیادی ڈھانچے کی فوری ترقی کی ضرورت ہوتی ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایل این جی کی توانائی کے گیا ہے کے لیے گیس کی
پڑھیں:
روس، چین تعلقات میں پیش رفت: توانائی، ٹیکنالوجی اور خلائی تعاون کے متعدد معاہدے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روس کے وزیراعظم میخائل میشوستین نے کہا ہے کہ عالمی سیاست اور معیشت میں غیر یقینی حالات کے باوجود ماسکو اور بیجنگ کے درمیان تعاون مضبوط سے مضبوط تر ہورہا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق چینی شہر ہانگزو میں چین روس وزرائے اعظم کے 30ویں باقاعدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے میشوستین نے کہا کہ دونوں ممالک نے حالیہ عرصے میں بڑے پیمانے پر مشترکہ منصوبوں کا آغاز کیا ہے، جن میں تیل و گیس کے ذخائر کی ترقی، ہائی ٹیک آلات کی تیاری، توانائی، جوہری توانائی اور خلا و چاند کی تحقیق کے منصوبے شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ روس اور چین ہوا بازی، گاڑیوں کی تیاری، ٹرانسپورٹ راہداریوں کی تعمیر اور آرکٹک کے شدید موسمی حالات میں بھی مشترکہ کام کر رہے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی لین دین میں ڈالر اور یورو کا استعمال اب اعدادوشمار کی غلطی کے درجے تک گر چکا ہے، جو ان کے قریبی مالی تعاون کی علامت ہے۔
روسی وزیر اعظم نے کہا کہ ماسکو اور بیجنگ کے درمیان سیاحت کے شعبے میں تعاون بڑھایا جا رہا ہے اور روسی شہریوں کے لیے چین کا ویزا فری نظام نافذ ہوچکا ہے۔ ان کے مطابق صدر ولادیمیر پوٹن کی ہدایت پر روس بھی چینی شہریوں کے لیے اسی طرح کا اقدام کرنے پر کام کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین میں روسی غذائی مصنوعات کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور روس ان مصنوعات کی فراہمی مزید بڑھانے کا خواہاں ہے۔
چینی وزیراعظم لی چھیانگ نے ملاقات میں کہا کہ بیجنگ ماسکو کے ساتھ اسٹریٹجک روابط کو مضبوط بنانے، مشترکہ مفادات کے تحفظ، اور ترقی و سلامتی کے میدان میں تعاون بڑھانے کے لیے پُرعزم ہے، دونوں ممالک کو نئے دور کے جامع اسٹریٹجک اشتراک کو مزید آگے بڑھانا چاہیے۔
اجلاس کے اختتام پر دونوں ممالک کے درمیان متعدد اہم معاہدوں اور ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے گئے۔ روسی وزیراعظم نے لی چھیانگ کو ماسکو میں 17 اور 18 نومبر کو ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی۔