UrduPoint:
2025-09-18@12:36:08 GMT

غ‍زہ امن معاہدے کا دوسرا مرحلہ جلد شروع کیا جائے، حماس

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

غ‍زہ امن معاہدے کا دوسرا مرحلہ جلد شروع کیا جائے، حماس

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 مارچ 2025ء) حماس کی جانب سے غزہ جنگ میں امن معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے فوری مذاکرات کے مطالبے کے بعد اسرائیل نے اس پر مزید بات چیت کے لیے پیر کو ایک وفد دوحہ بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ اس مرحلے کی کامیابی کے بعد مستقل جنگ بندی کا راستہ ہموار ہو گا۔

رواں سال 19 جنوری کو امریکی، مصری اور قطری ثالثوں کی کوششوں سے سیز فائر کا پہلا مرحلہ طے پایا تھا جو یکم مارچ کو ختم ہو گیا۔

رواں ہفتے کے آخر میں فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کے نمائندوں نے قاہرہ میں اس معاہدے میں سرگرم ثالثوں سے ملاقات کی۔ حماس کے مطابق اس ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ غزہ میں انسانی امدادی اشیا کی فوری ضرورت ہے اور اس کی بلا روک ٹوک ترسیل کو ممکن بنایا جائے، جس کے لیے امن معاہدے کا دوسرا مرحلہ فوری شروع کیا جانا چاہیے۔

(جاری ہے)

حماس کے سینیئر رہنما محمود مرداوی نے اے ایف پی سے گفتگو کے دوران کہا، "حماس پہلے سے طے شدہ نکات پر اتفاق رائے کے تحت فوری طور پر مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے پر زور دیتی ہے۔

" انہوں نے مزید کہا کہ اس سے جنگ کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار ہو گی۔

مرداوی نے کہا کہ دوسرے مرحلے کے لیے حماس کے اہم مطالبات میں غزہ سے مکمل طور پر اسرائیلی انخلاء، اسرائیلی ناکہ بندیوں کا خاتمہ، فلسطینی سرزمین کی تعمیر نو اور مالی امداد شامل ہیں۔

اسرائیلی وفد کل دوحہ پہنچے گا

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل پیر کو دوحہ میں اپنا ایک وفد بھیجے گا۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق حکومت کی سکیورٹی کابینہ آج اتوار کو اس معاملے پر بات کر رہی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں اپریل کے وسط تک توسیع چاہتا ہے۔

امن معاہدے کا پہلا مرحلے میں اسرائیل میں قید تقریباً 1,800 فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور حماس کی جانب سے 25 یرغمالیوں کو زندہ جبکہ آٹھ یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کی گئی تھیں۔

اس امن معاہدے کی بدولت غزہ میں 15 ماہ سے جاری جنگ کچھ عرصے کے لیے رکی ہوئی ہے۔ یہ جنگ 7 اکتوبر 2023ء کو فلسطینی عسکری تنظیم حماس اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اسرائیل میں ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حماس کے حملے کے نتیجے میں تقریباﹰ 1215 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

حماس نے اس حملے کے دوران 251 افراد کو یرغمال بھی بنایا لیا تھا۔

تب سے اب تک اس غزہ میں جنگ کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں۔ حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جانب سے کی گئی جوابی کارروائیوں میں غزہ میں کم از کم 48,453 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

ٹرمپ کی جانب سے حماس کو وارننگ

گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دی تھی کہ اگر باقی تمام یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا گیا تو غزہ کی مزید تباہی ہوگی۔

امریکی صدر نے غزہ کے رہائشیوں کو ممکنہ نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا، "ایک خوبصورت مستقبل آپ کا منتظر ہے لیکن اگر آپ نے یرغمالی رہا نہ کیے تو موت آپ کا مقدر ہے۔"

حماس نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی دھمکیوں سے اسرائیل کی جنگ بندی کی شرائط کو نظر انداز کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ امریکہ نے 1997ء میں حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے بعد اس سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں رکھا تھا۔

تاہم اب ٹرمپ انتظامیہ نے حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا آغاز کرنے کی بھی تصدیق کی ہے۔

یرغمالیوں میں امریکی شہری بھی شامل

فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے یرغمال بنائے گئے 251 میں سے 58 غزہ میں ہی رہ گئے ہیں جن میں پانچ امریکی بھی شامل ہیں۔ ان پانچ میں سے چار امریکی یرغمالیوں کی ہلاکت کی تصدیق حماس کی جانب سے کی گئی ہے، جب کہ امید کی جارہی ہے کہ ان میں سے ایک ایڈن الیگزینڈر نامی شخص زندہ ہو سکتے ہیں۔

ٹرمپ نے اس سے قبل غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے اور غزہ کے تعمیر نو کا ایک منصوبہ بھی پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کے جواب میں عرب رہنماؤں کی جانب سے ایک متبادل تعمیری منصوبہ پیش کیا گیا۔

اسرائیل کے دہشت گردوں پر حملے جاری

دوسری جانب اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے آج شمالی غزہ میں عسکریت پسندوں پر فضائی حملہ کیا ہے۔ اسرائیلی سکیور‌ٹی فورسز کے مطابق، ''یہ دہشت گرد‘‘ دھماکہ خیز مواد نصب کرنے کی کوشش میں ملوث تھے۔

ر ب/ م ا/ ع ا (ایجنسیا‍ں)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امن معاہدے کی جانب سے کے مطابق حماس کے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

اور عرب حکمرانوں کی رائے بدل گئی

اسلام ٹائمز: قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد عربوں میں ایک بیداری پائی جا رہی ہے۔ عرب حکمرانوں پر واضح ہوگیا ہے کہ واقعاً ’’یہود و نصاریٰ‘‘ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ اس کانفرنس میں ہونیوالی گفتگو کے بعد ایران کے موقف کی تائید آنا شروع ہوگئی ہے۔ کل تک جو عرب اس معاملے میں خاموش تھے، آج انہیں احساس ہوگیا ہے کہ خاموشی خود ان کیلئے خطرناک ہے اور عرب حکمران اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ تحریر: تصور حسین شہزاد

نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد دوحہ میں ہونیوالے ہنگامی اجلاس میں 6 تجاویز پیش کیں، جن میں سے ایک تجویز میں اسرائیل کے عزائم کی نگرانی اور توسیع پسندانہ منصوبوں کو روکنے کیلئے ’’عرب اسلامی ٹاسک فورس‘‘ بنانے کی تجویز بھی شامل ہے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ہنگامی عرب، اسلامی سربراہی اجلاس کی وزرائے خارجہ کی تیاری کے حوالے سے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر یہاں جمع ہیں، تاکہ ایک اور غیر قانونی اسرائیلی حملے پر غور کرسکیں، جو ایک برادر اور خود مختار ریاست پر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محض اس حقیقت سے کہ ہمیں بار بار ایسے اجلاس بلانے پڑ رہے ہیں، یہ واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل عالمی امن اور سلامتی کیلئے ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے، پاکستان سب سے سخت الفاظ میں ریاست قطر کیخلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اشتعال انگیز اور غیر قانونی حملہ قطر کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر سمیت بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔

نائب وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ یہ حملہ بلا جواز ہے اور علاقائی امن و استحکام کو شدید خطرات لاحق کر رہا ہے، اسرائیل نے ایک ایسی ریاست کو نشانہ بنایا، جو امریکا اور مصر کیساتھ مل کر فلسطین میں جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملہ اسرائیل کی جارحانہ سوچ اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کو بے نقاب کرتا ہے، اسرائیل کے یہ اقدامات اس کے جارحانہ عزائم اور عالمی نظام کو تباہ کرنے کے خطرناک ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے گذشتہ دو برس میں فلسطینی عوام پر ڈھائے جانیوالے مظالم اس کی انتہاء پسند پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں، اسرائیلی جارحیت اب خطے کے دیگر ممالک تک پھیل چکی ہے، جسے ہر صورت روکا جانا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ عرب و اسلامی دنیا کو متحد ہو کر اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہوگا، پاکستان نے قطر کے عوام اور حکومت سے مکمل اظہار یکجہتی کیا، قطر کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنی خود مختاری اور شہریوں کے تحفظ کیلئے تمام اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔

اسحاق ڈار نے قطر کے امن مذاکرات اور جنگ بندی کیلئے کردار کو سراہا اور کہا کہ قطر کو نشانہ بنانا دراصل سفارتکاری اور ثالثی کے عمل پر حملہ ہے، پاکستان نے الجزائر اور صومالیہ کیساتھ مل کر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے میں کردار ادا کیا، تاکہ اسرائیل کو کٹہرے میں لایا جاسکے۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بھی او آئی سی کی نمائندگی کرتے ہوئے فوری بحث کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ اسرائیلی جارحیت پر عالمی سطح پر جواب دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو جنگی جرائم اور انسانیت کیخلاف جرائم پر جواب دہ ٹھہرایا جائے، اسرائیلی عزائم کی نگرانی اور اس کے توسیع پسندانہ منصوبوں کو روکنے کیلئے عرب-اسلامی ٹاسک فورس قائم کی جائے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ او آئی سی کی تجویز کے مطابق اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرائی جائے اور اسرائیل کیخلاف اضافی تعزیری اقدامات پر غور کیا جائے، تاکہ اس کے غیر قانونی اقدامات کی حوصلہ شکنی ہو۔

انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل باب ہفتم کے تحت اسرائیل سے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرے، غزہ میں تمام شہریوں تک بلا رکاوٹ انسانی امداد پہنچائی جائے اور طبی عملے اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ دو ریاستی حل کیلئے ایک بامعنی اور وقت مقررہ سیاسی عمل دوبارہ شروع کیا جائے، تاکہ پائیدار امن قائم ہوسکے، پاکستان بطور غیر مستقل رکن سلامتی کونسل، او آئی سی اور عرب ممالک کے ساتھ مل کر عالمی حمایت کو متحرک کرتا رہے گا، تاکہ خطے میں امن قائم ہو اور فلسطینی عوام کو ان کا حق خودارادیت مل سکے۔ اسحاق ڈار نے تجاویز پیش کیں کہ اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائم کیخلاف عرب اسلامی ٹاسک فورس کی تشکیل دی جائے، اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی معطلی کی جائے، رکن ممالک کی جانب سے اسرائیل کیخلاف تعزیری اقدامات کئے جائیں، سلامتی کونسل کی طرف سے مستقل جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی اور قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے۔ غزہ میں انسانی امداد تک بلا روک ٹوک رسائی دی جائے اور اور امدادی کارکنوں کا تحفظ کیا جائے۔

اس سے قبل قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملے کا سخت اور مؤثر جواب دیا جانا چاہیئے، اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری دوہرا معیار چھوڑ دے۔ اجلاس سے خطاب میں قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ عرب ممالک نے قطر میں اسرائیل کے وحشیانہ حملے کی مذمت کی اور قطر کی خود مختاری کے تحفظ کیلئے کیے جانیوالے قانونی اقدامات کی حمایت کی۔ قطری وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو جبری بے دخل کرنے کے مقصد میں کامیاب نہیں ہوگا، اسرائیلی حکومت مسلسل ایک کے بعد ایک جنگ بندی تجویز مسترد کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت جان بوجھ کر جنگ کا دائرہ خطے کے دیگر ممالک تک پھیلا رہی ہے اور اسرائیلی اقدامات غزہ جنگ بندی کیلئے ہماری ثالثی کوششوں کو نہیں روک سکتے۔

دوسری طرف نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے ہنگامی عرب-اسلامی سربراہی اجلاس کی تیاریوں کے سلسلے میں وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے اسرائیل کے قطر اور دیگر مسلم ممالک پر بلااشتعال حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات خود مختاری، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ دونوں فریقین نے اس موقع پر مسلم امہ کو متحد کرنے میں عرب لیگ اور اسلامی تنظیم تعاون (او آئی سی) کے کلیدی کردار کو اجاگر کیا۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے اجلاس کے موقع پر ازبکستان کے وزیرِ خارجہ بختیار سیدوف سے بھی ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے قطر اور خطے کے دیگر ممالک پر اسرائیلی حملوں کو ریاستی خود مختاری اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی۔ فریقین نے فلسطینی کاز کیلئے غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا اور خطے میں امن و استحکام کے فروغ کی فوری ضرورت پر زور دیا۔

نائب وزیرِاعظم و اسحاق ڈار نے پر بنگلہ دیش کے کمشنر امورِ خارجہ محمد توحید حسین سے غیر رسمی ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے اسرائیل کی جانب سے قطر اور دیگر مسلم ممالک پر حملوں کی مذمت کی، فلسطینی عوام کی جدوجہد کیلئے غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کی اہمیت پر زور دیا۔ اسحاق ڈار نے ہنگامی عرب-اسلامی سربراہی اجلاس کی تیاریوں کے سلسلے میں وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر ملائیشیا کے وزیرِ خارجہ داتو سری محمد حسن سے بھی ملاقات کی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے قطر اور دیگر مسلم ممالک پر بلااشتعال حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں خود مختاری، بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس موقع پر مسلم امہ کو متحد کرنے میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے کلیدی کردار پر زور دیا اور فلسطینی عوام کی آزادی و حقِ خودارادیت کی جائز جدوجہد کیلئے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔ دونوں فریقوں نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ عرب-اسلامی سربراہی اجلاس ایک بروقت اور اجتماعی اقدام کیلئے ناگزیر موقع ہے۔

قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد عربوں میں ایک بیداری پائی جا رہی ہے۔ عرب حکمرانوں پر واضح ہوگیا ہے کہ واقعاً ’’یہود و نصاریٰ‘‘ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ اس کانفرنس میں ہونیوالی گفتگو کے بعد ایران کے موقف کی تائید آنا شروع ہوگئی ہے۔ کل تک جو عرب اس معاملے میں خاموش تھے، آج انہیں احساس ہوگیا ہے کہ خاموشی خود ان کیلئے خطرناک ہے اور عرب حکمران اپنے رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اس حملے نے اسرائیلی بربریت اور اصلیت بے نقاب کرکے ایران کے موقف کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔ عربوں نے اس موقع پر غیرت کا  مظاہرہ کرتے ہوئے حق کا ساتھ دیا تو اسرائیل کا خاتمہ یقینی ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
  • نیتن یاہو سے مارکو روبیو کا تجدید عہد
  • اسرائیل نے غزہ سٹی میں زمینی کارروائیاں شروع کردیں
  • قطر نے اسرائیل کو تنہا کر دیا، ایران نے تباہ کرنے کی کوشش کی: نیتن یاہو
  • اسرئیلی وزیراعظم سے ملاقات : اسرائیل بہترین اتحاد ی، امریکی وزیرخارجہ: یاہوکی ہٹ دھرمی برقرار‘ حماس پر پھر حملوں کی دھمکی
  • اسرائیلی وزیراعظم کی حماس رہنماؤں پر مزید حملے کرنے کی دھمکی
  • اسپین نے اسرائیل کے ساتھ 825 ملین ڈالر کے اسلحہ معاہدے منسوخ کر دیے
  • حماس کو عسکری اور سیاسی شکست نہیں دی جاسکتی: اسرائیلی آرمی چیف
  • ہم اپنی خودمختاری کے دفاع کیلئے جوابی اقدام کیلئے پُرعزم ہیں، امیر قطر
  • اور عرب حکمرانوں کی رائے بدل گئی