حکومت کیخلاف پھرمظاہرے پھوٹ پڑے، 24گھنٹے کی ڈیڈ لائن دیدی
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
بنگلہ دیش(نیوز ڈیسک)8 سالہ بچی سے جنسی زیادتی کے واقعے کے خلاف ڈھاکا یونیورسٹی میں طلباء کا احتجاج کا آغاز کردیا بنگلا دیشی اخبار“ڈیلی سٹار “ کے مطابق ڈھاکا یونیورسٹی کے طلباء نے مغورہ میں ایک 8 سالہ لڑکی کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی میں انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کا آغاز کردیا ہے۔انہوں نے حکام کو 24 گھنٹوں کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کی تحقیقات کو ا انجام تک پہنچانے کے لیے خصوصی ٹربیونل قائم کیا جائے۔
یہ احتجاج اتوار کی نصف شب سے شروع ہوا جس میں خواتین طلباء مختلف ہاسٹلز سے چلتے ہوئے راجو یادگار مجسمے پر پہنچیں۔ کابی صوفیہ کمال ہال اور ڈاکٹر محمد شاہداللہ ہال سے بھی طلباء نے ایک دھرنا شروع کیا، جس میں بعد میں بیگم رقیہ ہال، فضل الحق مسلم ہال، امر ایکم چھے ہال اور شمس النہار ہال کے طالب علموں نے شمولیت اختیار کی۔ ’ہمیں انصاف چاہیے‘ اور ’ریپ کو پھانسی دو‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین نے جنسی تشدد کے معاملے میں لاپرواہی پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے ہوم افیئرز کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) جہانگیر عالم چوہدری پر بھی تنقید کی، اور انہیں قانون و نظم کے برقرار رکھنے میں ناکامی کے لیے مورد الزام ٹھہرایا۔ بنگلہ دیش ڈیموکریٹک سٹوڈنٹ کونسل (بی ڈی ایس سی) کے مرکزی کمیٹی کے کنوینر ابو بکر مجمدار نے انصاف فراہم نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم طویل عرصے سے لاپرواہی کےگواہ رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔
انہوں نے ہوم افئیرز کے مشیر سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کی سیکیورٹی صورتحال سنبھالنے میں ناکام ہیں۔ مگورہ میں 8 سالہ بچی سے جنسی زیادتی کا واقعہ ہفتے کے روز پیش آیا تھا جس پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے 4 افراد کو حراست میں لیا ہوا ہے۔
تمام تعلیمی ادارے بند،حکومت نے بڑا ا علان کردیا
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کرتے ہوئے
پڑھیں:
لیاقت آباد،فرنیچر اور کپڑا مارکیٹ کے دکانداروں کا لوڈ شیڈنگ کیخلاف احتجاج،مرکزی شاہراہ بند
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-02-25
کراچی (اسٹاف رپورٹر) لیاقت آباد کے فرنیچر اور کپڑا مارکیٹ کے دکانداروں اور فرنیچر فیکٹری مالکان نے بجلی کی طویل اور بار بار ہونے والی لوڈ شیڈنگ کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے ڈاکخانہ چورنگی سے لیاقت آباد نمبر 10 جانے والی مرکزی شاہراہ بند کردی، جس سے علاقے کی تجارتی زندگی اور ٹریفک بدستور معطل رہی۔ احتجاجی رہنماؤں اور دکانداروں کا مؤقف ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے بجلی کی غیر متوقع بندش نے فروخت، پیداواری عمل اور ملازمین کی موجودگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ فرنیچر فیکٹریاں پیداوار روکنے پر مجبور ہیں اور کپڑے کے تاجروں نے کہا کہ گاہک بازار آنے سے خوفزدہ ہیں جس کے باعث روزانہ کا کاروبار دھڑام سے کم ہو گیا ہے۔ ایک نام ظاہر نہ کرنے والے دکاندار نے کہا ہم روزانہ کے اخراجات اور مزدوروں کی تنخواہوں کا حساب لگا کر چلتے ہیں۔ طویل لوڈ شیڈنگ کے سبب ہماری زندگیاں گُھٹ کر رہ گئی ہیں۔ مظاہرین نے انتظامی ٹیم کو متنبہ کیا کہ اگر مسئلے کا فوری حل نہ نکالا گیا اور نقصانات کا ازالہ نہ کیا گیا تو احتجاج کو مزید تیزی سے وسعت دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی دکاندار جنریٹر چلانے کی استطاعت نہیں رکھتے، جب کہ جنریٹر چلانے والوں پر ایندھن کا بوجھ بڑھ گیا ہے اور گاہکوں کی آمد نہ ہونے کے باعث سرمایہ کاری کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔ پولیس نے احتجاج کے دوران مرکزی شاہراہ پر نفری تعینات کی اور راستے کو خالی کرانے کی کوششیں کیں، تاہم چند گھنٹوں تک اہم راستہ بند رہا جس سے شہریوں کو جدوجہد کرنا پڑی۔ علاقہ مکینوں نے احتجاج کی حمایت بھی کی اور کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر لوڈ شیڈنگ کی طوالت بچوں، بزرگوں اور کاروبار کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ دکانداروں نے مطالبہ کیا کہ بجلی کی مستقل اور شیڈولڈ فراہمی کو یقینی بنایا جائے، متاثرہ تاجروں کو وقتی مالی امداد یا ریلیف پیکج دیا جائے۔ جن علاقوں میں فریکوئنسی/ٹرانسفارمر مسائل ہیں‘ ان کی فوری مرمت ہو، طویل مدتی حل کے لیے حکام اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات ہوں۔ حکومتی یا بجلی فراہم کرنے والے محکمے کی جانب سے تاحال احتجاج کے حوالے سے باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔ پولیس نے کہا ہے کہ ہفتے کے اندر اگر حکام کو کوئی حل نہ ملا تو حالات کے مطابق احتجاج کو منطقی شکل دی جائے گی۔ شہریوں نے متبادل راستے اختیار کیے اور حکومتِ سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین اور دکانداروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ متعلقہ محکموں سے باضابطہ میٹنگ کا انتظار کریں گے، بصورتِ دیگر احتجاج کو بڑھائیں گے۔