اداکارہ ندا یاسر اور ٹی وی میزبان رابعہ انعم نے ایک دوسرے سے تین سال بعد اختلافات ختم کرکے تعلقات بحال کردیے۔

ندا یاسر نے حال ہی میں رابعہ انعم اور دانش تیمور کی میزبانی میں گرین انٹرٹینمنٹ پر نشر ہونے والے رمضان پروگرام میں شرکت کی، جہاں دونوں ٹی وی میزبانوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا۔

ندا یاسر نے رابعہ انعم کو گلے لگاتے ہوئے ان سے اختلافات اور گلے شکوے پر ختم ہونے کا اعلان کیا۔

رابعہ انعم نے ندا یاسر کی جانب سے شکوے ختم کرنے کے اعلان پر ان کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی ان کے لباس، شخصیت اور ہر وقت کام میں مصروف رہنے کے جذبے کی تعریفیں بھی کیں۔

رابعہ انعم اور ندا یاسر کے درمیان نومبر 2022 میں اس وقت اختلافات شروع ہوئے تھے جب کہ رابعہ انعم نے ندا یاسر کا براہ راست ٹی وی شو چھوڑ دیا تھا۔

رابعہ انعم 8 نومبر 2022 کو ندا یاسر کے مارننگ شو میں بطور مہمان شریک ہوئی تھیں، جس میں ان کے ساتھ اداکار محسن عباس حیدر اور اداکارہ فضا علی بھی شامل ہوئی تھیں۔

ٹی وی پر کچھ ہی دیر پروگرام چلنے کے بعد رابعہ انعم نے میزبان ندا یاسر سے معذرت کرتے ہوئے پروگرام چھوڑ کر جانے کی اجازت مانگی اور ساتھ ہی واضح کیا کہ ان کا مقصد چینل، پروگرام کے پروڈیوسر اور میزبان کی بے عزتی کرنا یا دل دکھانا نہیں۔

رابعہ انعم کی پروگرام چھوڑ کر جانے کی وائرل ہونے والی کلپس میں انہیں میزبان ندا یاسر کو بڑے احترام اور ادب سے پروگرام سے جانے کی اجازت مانگتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

رابعہ انعم نے ندا یاسر، ان کے شو، ٹی وی چینل اور پروڈیوسر سمیت پوری ٹیم کی تعریفیں کی تھیں لیکن ساتھ ہی کہا کہ وہ خواتین پر تشدد کے خلاف ہیں اور انہیں معلوم نہیں تھا کہ پروگرام کے دیگر مہمان کون ہیں۔

رابعہ انعم کی جانب سے براہ راست پروگرام چھوڑجانے پر شوبز شخصیات نے بھی ان پر تنقید کی تھی جب کہ بعد ازاں ندا یاسر نے ایک انٹرویو میں شکوہ کیا تھا کہ رابعم نے ان کا براہ راست شو چھوڑ کر ان کی بے عزتی کی۔

تین سال بعد حال ہی میں رابعہ انعم نے اپنے رمضان شو میں ندا یاسر کو بطور مہمان مدعو کیا، جہاں دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور ندا یاسر نے تمام شکوے ختم کرنے کا اعلان بھی کیا۔

دونوں ٹی وی میزبانوں کی جانب سے ایک دوسرے کو گلے لگانے اور شکوے ختم کرنے پر صارفین نے ان کی تعریفیں بھی کیں۔

View this post on Instagram

A post shared by Green TV Entertainment (@greenentertainment.

official)

Post Views: 1

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ندا یاسر نے ایک دوسرے کو گلے نے ایک

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات کا نیا دور

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ چند برسوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کی بنیادی وجہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہیں جو افغان سرزمین سے آنے والے خوارج کی فتنہ گری کا نتیجہ ہیں۔

پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر افغانستان میں برسر اقتدار طالبان قیادت کو بارہا یاد دہانی کرائی جاتی رہی کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ اس کے جواب میں طالبان حکومت وعدوں اور زبانی کلامی یقین دہانیوں سے آگے عملی طور پر دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ ادھر پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو، جو روسی مداخلت کے بعد کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں واپس بھیجنا شروع کر دیا تو طالبان قیادت نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ کو کابل دورے کی دعوت دی تاکہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے کشیدگی کو کم کرتے ہوئے خوشگوار تعلقات کے قیام کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔

 اس پس منظر میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار پہلے ایک روزہ سرکاری دورے پرکابل گئے جہاں انھوں نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی سے تفصیلی مذاکرات کیے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث شرپسندوں کے افغانستان سے تعلق کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو افغان حکومت کے سامنے رکھا۔ باہمی گفت و شنید کے بعد اس بات پر دونوں جانب سے اتفاق کیا گیا کہ ہر دو جانب سے اعلیٰ سطح پر روابط برقرار رکھے جائیں گے۔

علاوہ ازیں مختلف شعبوں سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون اور عوامی سطح پر رابطوں کو بڑھانے کے حوالے سے متعدد فیصلے کیے گئے۔ سب سے اہم بات یہ طے ہوئی کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اگر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو دونوں ممالک مشترکہ طور پر فوری کارروائی کریں گے۔ افغان حکومت اس سے قبل بھی وعدہ وعید سے کام لیتی رہی ہے۔ حکومتی سطح پر باقاعدہ معاہدے کے بعد یہ توقع کی جانی چاہیے کہ طالبان حکومت اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرے گی۔

پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ملک ہیں جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خطے کے اہم ملک شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور دیرینہ تاریخی، تہذیبی اور مذہبی روابط بھی قائم ہیں۔ محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور ظہیرالدین بابر دونوں کے مشترکہ ہیروز ہیں۔ اس قدر طویل اور مضبوط تاریخی و تہذیبی مشترکہ اقدار کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی و تعاون کے جذبوں کے فروغ پانے کی بجائے تعلقات میں سردمہری، عدم تعاون،کشیدگی، نفرت، عداوت اور دشمنی جیسے رویوں کا پروان چڑھنا نہ صرف افسوس ناک بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی دشمنی کا پہلا اظہار اقوام متحدہ میں 30 ستمبر 1947 کے اجلاس میں کیا گیا۔ جب افغان مندوب حسین عزیز نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے ضمن میں واحد مخالف ووٹ ڈالا۔ تاہم پاکستان تلخیوں کو پس پشت ڈال کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اپنی پالیسی پر اخلاص نیت کے ساتھ کاربند رہا۔ اسی باعث جب دسمبر 1979 میں اس وقت کی سوویت یونین (روس) نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو وہاں برسر اقتدار حفیظ اللہ امین حکومت کا خاتمہ کر کے کابل کے تخت پر ماسکو کی پسند کا آدمی حکمران بنا دیا گیا۔ روسی ہوائی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔

برادر اسلامی ملک اور دیرینہ رشتوں کے احترام میں پاکستان نے کشادہ دلی کے ساتھ افغان مہاجرین کی میزبانی کو صدق دل سے قبول کیا۔ آج بھی جو افغان باشندے قانونی طریقے سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں انھیں حکومت تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کے طول و عرض میں سماجی، معاشرتی اور معاشی سطح پر جو نقصانات ہو رہے ہیں، حکومت انھیں خوش دلی سے برداشت کر رہی ہے۔ تاہم دہشت گردی کے حوالے سے افغان سرزمین کا استعمال کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان کی سلامتی و بقا ہر شے پر مقدم ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ پاک افغان تازہ معاہدے پر اخلاص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے ہر صورت روکے گی، تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی جیسے خوشگوار و برادرانہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو سکے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • مشاہد حسین سید نے پاک بھارت جنگ کے خدشات مسترد کر دیے
  • پورا پاکستان اور گلگت بلتستان افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، یاسر تابان
  • امریکہ تمام یکطرفہ ٹیرف اقدامات مکمل ختم اور اختلافات کو حل کرنے کا راستہ تلاش کرے، چین
  • ندا یاسر کا لائیو شو میں بڑا اعتراف، ساتھی اداکارہ کی شادی سے متعلق خبر جھوٹی تھی؟
  • کافی محنت کر کے یہاں تک آیا ہوں، موقع کا انتظار کر رہا تھا: یاسر خان
  • جے یو آئی ایف نے پی ٹی آئی سے اتحاد سے معذرت کر لی
  • کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
  • ندا یاسر کا کرن جوہر کے وزن میں کمی پر تبصرہ