نوجوانوں کے تعلیم اور روزگار کے مسائل
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی کے فروغ اور ڈیجیٹل انقلاب میں نوجوانوں کا کلیدی کردار ہے، حکومت نوجوانوں کو جدید مہارتوں سے لیس کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کر رہی ہے۔ ہوا وے کی آئی سی ٹریننگ پروگرام سے آئی ٹی برآمدات میں اضافے سمیت نوجوانوں کو روزگار کے حصول میں مدد ملے گی۔
پاکستان کی برآمدات میں اہم شعبہ آئی ٹی سیکٹر ہے۔ ملک کی آئی ٹی برآمدات 28 فیصد اضافے کے ساتھ 1 ارب 86 کروڑ ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی ہے اور مستقبل میں آئی ٹی برآمدات مزید بڑھنے کی توقع بھی ہے۔ بلاشبہ ہوا وے کے تعاون سے مزید تین لاکھ نوجوانوں کے لیے روزگار کی فراہمی یقین دہانی ایک امید افزا پیش رفت ہے۔
دوسری جانب وطن عزیزکی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تعلیمی ترجیحات کا نہ ہونا ہے، ہمیں تعلیم کے سالانہ بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا جو کہ مجموعی بجٹ کا کم ازکم چار فیصد ہونا چاہیے۔ سب سے اہم مسئلہ معیاری تعلیم کا فقدان ہے۔ بدقسمتی سے معیاری اور ہنر مندانہ تعلیم غریبوں کا خواب ہے۔ یہ اعلیٰ اور نچلے طبقے کے درمیان ایک بڑی عدم مساوات ہے۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق، 5۔ 16 سال کی عمر کے 22.
(OOSC) جوکہ اس عمر کے گروپ کی کل آبادی کا 44 فیصد ہے۔ ہمارے تمام تعلیمی اداروں میں بالعموم اور سرکاری اداروں میں بالخصوص غیر معیاری تعلیم دی جا رہی ہے۔ یہ طلباء کی خداداد صلاحیتوں کی نشوونما پر توجہ نہیں دیتی ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا 64 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر 30 سال سے کم ہے جس میں 29 فیصد 15سے 29 سال کی عمر کے افراد ہیں۔ پاکستان نوجوان اکثریت کا حامل ملک ہے اسی طرح ساؤتھ ایشین ریجن میں بھی پاکستان دوسرے نمبر پر نوجوانوں کا حامل ملک ہے۔
ہر حکومت نوجوانوں کے لیے مختلف ترقیاتی اور فلاحی منصوبے پیش کرتی ہے جو بے تدبیری کی وجہ سے دیرپا اثرات مرتب کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ آج کے نوجوان کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزگار کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اکثریت والدین اپنی تمام تر جمع پونجی بچوں کی تعلیم پر لگا دیتے ہیں اور امید بھی رکھتے ہیں کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک بہتر زندگی منتظر ہوگی مگر حالات اس کے برعکس ہوتے ہیں۔
تعلیمی نظام کو بہتر بنانا بے حد ضروری ہے مگر موجودہ حالات میں کسی ایک مرکزی پلیٹ فارم کے تحت ملک بھرکی جامعات کے طلبا کے لیے نجی اور سرکاری شعبے میں شراکت داری کے ذریعے دوران تعلیم نوکری یا تنخواہ کے ساتھ انٹرن شپ پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح کاروباری منصوبہ بندی، مارکیٹنگ اور مینجمنٹ جیسے شعبوں کی جانب رہنمائی کی جاسکتی ہے تاکہ سارا فوکس نوکری کے حصول تک محدود نہ رہے۔ اس مقصد کے لیے موجودہ تعلیمی انفرا اسٹرکچر کو ہی استعمال میں لاتے ہوئے شام کے اوقات میں نوجوانوں کی فنی تربیت کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔
معاشی طور پر بے فکر ذہن ہی اپنی صلاحیت کا بہترین استعمال کرسکتا ہے اور یہی انفرادی سکون سماجی استحکام کا باعث بنتا ہے۔ ماہرین کی زیرِ نگرانی نوجوانوں کے اس مسئلے پر خالص عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ جو بھی منصوبہ شروع کیا جائے وہ مسلسل اور کارآمد ہو۔ مایوسی کا عفریت ہماری نوجوان نسل کو آہستہ آہستہ کھا رہا ہے۔ مایوسی نوجوانوں میں ایک بہت عام بیماری ہے۔ وہ مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ وہ زندگی میں اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ان میں مستقل مزاجی کا فقدان ہے۔
غربت اور زیادہ آبادی نے نوجوانوں کے لیے بھی بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں۔ غریب لوگوں کے پاس اپنی دلچسپی کے شعبے کو آگے بڑھانے کے لیے وسائل کی کمی ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگاری کا شکار ہے۔ یہ نوجوانوں کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے میں حکومتی نا اہلی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامک (PIDE) کا کہنا ہے کہ پاکستان کے 31 فیصد سے زائد نوجوان اس وقت بے روزگار ہیں، 51 فیصد خواتین اور 10 فیصد مرد ہیں جن میں سے اکثر پیشہ ورانہ ڈگریوں کے حامل ہیں۔ بے روزگاری کا یہ بلند تناسب نوجوانوں میں ذہنی انتشار کا باعث بھی ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں طلبا کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے جو ان کی تعلیمی اورکیریئر کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ جس کا طالب علموں کو سامنا ہے وہ ہے ٹیوشن فیس میں اضافہ، جس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم بہت سے افراد کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ یہ آبادی کے ایک اہم حصے کے لیے معیاری تعلیم تک رسائی کی کمی، عدم مساوات کو برقرار رکھنے اور سماجی نقل و حرکت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔
پاکستان میں طلبا کے لیے کیریئرکی منصوبہ بندی کے لیے مناسب رہنمائی کا فقدان ہے، جس کے نتیجے میں طلبا اپنے مستقبل کے امکانات اور کیریئر کے راستوں کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہوتے ہیں۔ رہنمائی کا یہ فقدان طلبا کی مہارتوں اور دلچسپیوں اور روزگارکی منڈی کے تقاضوں کے درمیان مماثلت کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان میں یونیورسٹیوں اور صنعتوں کے درمیان ایک نمایاں فرق ہے، جو بے روزگاری کے مسئلے کو بڑھاتا ہے۔ بہت سے گریجویٹس کے پاس آجروں کے لیے درکار عملی مہارتوں اور تجربے کی کمی ہے، جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں پڑھائی اور افرادی قوت کے درمیان رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں طلبا کو درپیش ایک اور مسئلہ فرسودہ مضامین اور نصاب ہے جو تعلیمی اداروں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں یونیورسٹیوں اور صنعت کے درمیان مضبوط روابط قائم کرنا بہت ضروری ہے۔
یہ انٹرن شپس، رہنمائی کے پروگراموں اور باہمی تحقیقی منصوبوں کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے جو طلبا کو عملی تجربہ حاصل کرنے اور روزگار کے لیے درکار مہارتوں کو فروغ دینے کی اجازت دیتے ہیں۔ انتہا پسندی نوجوانوں میں ایک متعدی بیماری بن چکی ہے۔ ان میں کسی دوسرے گروہ کے لیے رواداری کا فقدان ہے جو اپنے سے مختلف خیالات یا رائے رکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ نوجوانوں کو کیریئر کونسلنگ کی عدم دستیابی ہے۔ اس نے نوجوانوں میں انتشار پھیلایا ہے۔ ہمارا نوجوان زندگی میں اپنی منزل کے بارے میں ابہام کا شکار ہے۔
انٹرپرینیورشپ اور اسٹارٹ اپس کی حوصلہ افزائی طلبا کے لیے اپنے کاروبار شروع کرنے اور قومی معیشت میں حصہ ڈالنے کے مواقعے پیدا کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ پاکستان میں تعلیمی اداروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے نصاب کو صنعت کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔
یونیورسٹیوں اور صنعت کے درمیان مضبوط روابط قائم کرکے، نصاب کو اپ ڈیٹ کرکے، اور انٹرپرینیورشپ کو فروغ دیکر پاکستان اپنے طلبا کو 21 ویں صدی کی معیشت کے چیلنجز کے لیے بہتر طور پر تیار کر سکتا ہے۔ ہمیں مختلف طریقوں سے ان مسائل سے نمٹنا چاہیے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کے سماجی اور مالی مسائل کو حل کر کے انھیں با اختیار بنانا چاہیے۔
ان مسائل کے حل کے لیے والدین، حکومت اور معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ والدین کو اس کمیونیکیشن گیپ کو پر کرنا چاہیے۔ والدین اور بچوں کے درمیان دوستی کی اشد ضرورت ہے۔ انھیں اپنے بچوں کے فرینڈ سرکل اور روزانہ اسکول یا کالج کے کام کو چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز، انھیں دو نسلوں کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہیے۔ انھیں نوجوان نسل کے تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہماری نوجوان نسل کو درپیش ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت کو عملی اقدامات کرنے چاہئیں، کیونکہ نوجوان نسل ملک کا اثاثہ ہے۔ اسے نوجوانوں کی پالیسیوں میں ترمیم کرنا چاہیے اور نوجوانوں سے متعلقہ مسائل کو حل کرنے کے لیے راستے تلاش کرنا ہوں گے اور نوجوانوں کی ترقی کو حاصل کرنے کے لیے ایکشن پلان تیارکرنا چاہیے۔ اسے نوجوانوں کو ایک اچھا ماحول اور بہتر زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنا چاہیے۔
ضروت اس امرکی ہے کہ ان نوجوانوں کو ترقی کے مواقعے فراہم کیے جائیں۔ ان کی صلاحیتوں کو صحیح سمت میں موڑا جائے۔ ان کی تعلیم اور ملازمت وغیرہ پر توجہ دی جائے تاکہ دنیا بھرکی ترقی یافتہ اقوام کی طرح پاکستان کے جوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکے۔ تعلیمی اداروں اور مدرسوں میں نوجوانوں کو سائنسدان، دانشور اور لیڈر بنا کر نکالا جائے۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری کے لیے ماہرین کی رائے پر مبنی لیکچرز اورکورسزکا اہتمام کیا جائے۔
پاکستان کو خودکفیل سائنسدان نوجوانوں،کمپیوٹر ماہرین نوجوانوں اور خلائی علوم کے ماہرین نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح معاشی علوم کے ماہر نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ ترکی، ایران، انڈونیشیا، برونائی دارالسلام، چین کے تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر نوجوانوں کے ریسرچ سینٹرز کھولے جائیں اور انھیں نئی چیزیں اور تخیلات دریافت کرنے کے مواقعے فراہم کیے جائیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تعلیمی اداروں نوجوانوں میں نوجوانوں کی پاکستان میں نوجوانوں کے نوجوانوں کو کا فقدان ہے کرنا چاہیے بے روزگاری نوجوان نسل کے درمیان بے روزگار ضروری ہے ضرورت ہے کے ساتھ کرنے کے طلبا کو کا شکار کی ترقی کا باعث کیا جا کے لیے
پڑھیں:
ایک کمزور پاسورڈ نے 158 سال پرانی کمپنی تباہ کر دی، 700 ملازمین بے روزگار
برطانیہ کی ایک 158 سال پرانی ٹرانسپورٹ کمپنی صرف ایک کمزور پاسورڈ کی وجہ سے ایک خطرناک حملے کا شکار ہو کر مکمل طور پر بند ہو گئی۔ اس واقعے میں کمپنی کا تمام ریکارڈ ضائع ہو گیا اور تقریباً 700 افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کمپنی کے منتظم پال ایبٹ کے مطابق اندازہ ہے کہ حملہ آوروں نے ایک ملازم کا خفیہ کوڈ معلوم کر لیا، جس کے بعد وہ نظام میں داخل ہوئے اور سارا ریکارڈ ہیک کرلیا۔ حملہ آوروں نے کمپنی کے تمام اندرونی نظام کو جام کر دیا اور پیغام دیا کہ اگر ریکارڈ واپس چاہیے تو رقم ادا کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد سیف سٹی سسٹم پر ہیکرز کا حملہ، حساس نوعیت کا ڈیٹا چوری
حملے میں ملوث گروہ کا نام ’اکیرا‘ بتایا جارہا ہے۔ اگرچہ انہوں نے رقم کا واضح مطالبہ نہیں کیا، لیکن ماہرین کے مطابق مانگی جانے والی رقم 5 کروڑ روپے سے زائد ہوسکتی تھی۔ کمپنی کے پاس اتنی رقم نہیں تھی، اس لیے وہ ریکارڈ واپس نہ لے سکی اور مکمل طور پر بند ہوگئی۔
یہ واقعہ برطانیہ میں تیزی سے بڑھتے ہوئے ان حملوں کی ایک مثال ہے۔ حالیہ دنوں میں بڑے ادارے جیسے مارکس اینڈ اسپینسر، کوآپریٹو سوسائٹی اور ہیروڈز بھی ایسے حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ کوآپریٹو کے سربراہ کے مطابق تقریباً 65 لاکھ افراد کا ذاتی ریکارڈ چوری کیا گیا ہے۔
ملک کے قومی مرکز برائے آن لائن تحفظ کے سربراہ رچرڈ ہورن کے مطابق ادارے روزانہ ایسے حملے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اکثر کمپنیاں اپنی معلوماتی حفاظت کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب اداروں کو ہر فیصلے میں معلوماتی تحفظ کو ترجیح دینی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ہیکرز کی کارروائی، بھارت کی حساس معلومات ڈارک ویب پر برائے فروخت
ان حملوں کو روکنے کے لیے ایک اور سرکاری ادارہ مجرموں کو تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ وہاں کام کرنے والی افسر سوزین گرمر کے مطابق یہ حملے پہلے سے دگنے ہو چکے ہیں، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ سال ان حملوں کے لحاظ سے سب سے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
بعض حملہ آور صرف کسی دفتر کو فون کر کے یا مدد کے بہانے معلومات حاصل کر لیتے ہیں، اور پھر نظام میں داخل ہو کر اسے بند کر دیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نوجوان ہوتے ہیں جو کھیل کود کے ذریعے اس راستے پر آتے ہیں۔
ایک بار اندر داخل ہونے کے بعد، یہ لوگ مخصوص پروگرام استعمال کر کے ادارے کے ریکارڈ کو چوری یا بند کر دیتے ہیں، اور بدلے میں رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حملے اب صرف اداروں کا نہیں، بلکہ پورے ملک کی حفاظت کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی اور قومی جانچ کے دفتر نے بھی خبردار کیا ہے کہ ایسے خطرناک حملے کسی بھی وقت بڑے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ملازمت کے متلاشی پیشہ ور افراد ہیکرز کے نشانے پر، احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟
پال ایبٹ، جن کی کمپنی ختم ہو گئی، اب دوسرے اداروں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنی معلوماتی حفاظت کو بہتر بنائیں اور ایسے حملوں سے بچنے کے لیے لازمی اقدامات کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ادارے کو اپنے نظام کی جانچ کروانی چاہیے تاکہ کمزوریاں سامنے آسکیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر ادارے ایسے حملے چھپا لیتے ہیں اور رقم ادا کر کے جان چھڑاتے ہیں، جو مجرموں کو مزید حوصلہ دیتا ہے۔ یہ ایک منظم جرم ہے اور اس کے خلاف مکمل تیاری اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔
برطانیہ کے ایک اور اہم ادارے، قومی جرائم کے ادارے میں کام کرنے والی سوزین گرمر، جو کہ ایک تجربہ کار افسر ہیں، نے ان حملوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سوزین گرمر اُس شعبے کی سربراہ ہیں جو معلوماتی جرائم کی ابتدائی جانچ کرتا ہے، اور انہی کی ٹیم نے مارکس اینڈ اسپینسر پر ہونے والے حالیہ حملے کی جانچ کی تھی۔
سوزین گرمر کہتی ہیں کہ جب سے انہوں نے یہ شعبہ سنبھالا ہے، ہفتہ وار حملوں کی تعداد تقریباً دوگنا ہوچکی ہے اور اب ہر ہفتے 35 سے 40 حملے ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو یہ سال ملک میں معلوماتی بلیک میلنگ کے لحاظ سے بدترین ثابت ہوسکتا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اب ایسے حملے کرنا آسان ہو چکا ہے، کیونکہ بہت سے مجرم کسی خاص مہارت کے بغیر بھی مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کر لیتے ہیں، جیسے کسی دفتر کے مدد مرکز کو فون کر کے اندرونی تفصیلات معلوم کرنا۔
سوزین گرمر نے بتایا کہ یہ جرائم اب نوجوانوں میں بھی عام ہورہے ہیں، جو ویڈیو گیمز کے ذریعے اس طرف مائل ہو رہے ہیں، اور پھر مختلف طریقوں سے اداروں کے نظام میں داخل ہوکر نقصان پہنچاتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news برطانیہ دیوالیہ کاروبار بند کمپنی ہیک کمزور پاسورڈ ملازمتیں ختم ہیکرز