صحافی تنظیموں کا سندھ بلڈنگ میں رشوت ستانی کے شواہد عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ
مشتاق درانی کا ڈی جی ایس بی سی اے کو نوٹس بھیج کر صحافیوںکو ہراساں کرنے کا مشورہ

حقائق پر مبنی خبریں روکنے کے لئے ڈی جی ایس بی سی اے محمد اسحاق کھوڑو دھونس دھمکیوں پر اتر آئے اور مختلف اخبارات کو نوٹس بھیجنے کا واویلا سوشل میڈیا پر شروع کردیا، دوسری جانب اس معاملے میں صحافی تنظیموں اور مختلف فلاحی اداروں نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں جاری رشوت ستانی کے معاملات کے شواہد خود عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، تفصیلات کے مطابق ڈی جی ایس بی سی اے محمد اسحاق کھوڑو نے تیسری بار اپنا عہدہ سنبھالتے ہی اپنے ماتحت افسران کے سامنے مختلف ذرائع ابلاغ کے اداروں اور ان سے منسلک صحافیو ںکو لگام ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا ، جس کے بعد جب ڈی جی ایس بی سی اے نے اپنے ماتحت افسران کو کراچی بھر میں غیر قانونی تعمیرات کروانے کا ٹاسک دیا تو اس معاملے میں صحافیوں کی جانب سے غیر قانونی تعمیرات کی نشاندہی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس پر گھبرا کر ڈی جی ایس بی سی اے نے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر مختلف اخبارات کو قانونی نوٹس بھیجنے کا واویلا شروع کیا ، ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سارا کھیل مشتاق درانی نامی افسر کا رچایا ہوا ہے جس نے ڈی جی ایس بی سی اے کو نوٹس بھیج کر صحافیوںکو ہراساں کرنے اور انہیں دبائو میں لینے کا مشورہ ڈی جی کو دیا ہے ، اس وقت کراچی کے تمام ہی علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات دھڑلے سے جاری ہیں جنہیں روکنے میں ڈی جی ایس بی سی اے مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ ان کا مقصد مال جمع کرنا ہے جو کہ موصوف ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں ، مشتاق درانی غیر قانونی اپروول کروانے کا ماہر کھلاڑی سمجھا جاتا ہے جس کے حوالے سے روزنامہ جرأت شواہد اور حقائق جمع کر رہا ہے جو کہ جلد منظر عام پر لائے جائیں گے ، جبکہ ڈی جی ایس بی سی اے پر بھی اپنی پہلی تعیناتی کے دوران چیف سیکریٹری کی جانب سے ڈیمولیشن کے نام پر جاری کئے جانے والے خطیر فنڈ میں خرد برد کرنے سمیت ادارے سے لون لینے جیسے کئی الزامات عائد ہیں جن کے شواہد بھی جلد معزز عدالت کے سامنے پیش کئے جائیں گے ، اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کراچی کی صحافی تنظیموں اور انسان دوست ماحول پر کام کرنے والی مختلف نجی فلاحی تنظیموں نے خود معزز عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس حوالے سے تیاریاں کی جاری ہیں جہاں تمام شواہد اور حقائق پیش کئے جائیں گے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی جی ایس بی سی اے کی ایمانداری کا یہ عالم ہے کہ ہفتے کے روز ڈیمولیشن میں شامل کئے جانے والے دو پلاٹوں 4/16بلاک 2Aناظم آباد اورپلاٹ نمبر2/3بلاک1Eکو ڈی جی ایس بی سی اے نے خود اچانک اور پراسرار وجوہات سے ڈیمولیشن لسٹ سے نکلوا دیاجن پر خلاف ضابطہ تعمیرات کھلے عام کی جا رہی ہیں، اس حوالے سے ڈی جی ایس بی سی اے کا موقف جاننے کے لیے متعدد بار رابطوں کی کوشش کی گئی مگر اُنہوں نے کسی رابطے کا کوئی جواب نہیں دیا۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

اپیلز کورٹ: ٹرمپ کا پیدائشی شہریت ختم کرنے کا صدارتی حکم غیر آئینی قرار

وفاقی اپیلز کورٹ نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیدائشی شہریت (birthright citizenship)  ختم کرنے سے متعلق صدارتی حکم نامے کو آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے۔

یو ایس نائنتھ سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے 2 کے مقابلے میں ایک جج کے اکثریتی فیصلے سے حکم جاری کیا۔

اگرچہ اس حکم نامے کو پہلے ہی عدالتوں نے معطل کر رکھا تھا، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی اپیلز کورٹ نے اس صدارتی حکم کے قانونی جواز کا باقاعدہ جائزہ لیا ہے۔

تین رکنی بینچ نے فیصلے میں لکھاکہ’ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ صدارتی حکم نامہ 14ویں آئینی ترمیم کی واضح زبان سے متصادم ہے، جو کہ امریکا میں پیدا ہونے والے اور امریکی دائرہ اختیار میں آنے والے تمام افراد’ کو شہریت دینے کی ضمانت دیتا ہے‘۔

فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے جج پیٹرک بوماتائے، جو کہ ٹرمپ کے نامزد کردہ ہیں، نے کہا کہ ’ریاستوں کے پاس یہ مقدمہ دائر کرنے کا قانونی اختیار (standing) ہی نہیں تھا‘۔

پس منظر: صدارتی حکم اور اس کے خلاف مقدمات

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے ہی دن 20 جنوری کو یہ صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے بعد متعدد ریاستوں اور شہری حقوق کی تنظیموں نے عدالت میں اسے چیلنج کیا۔

14ویں آئینی ترمیم 1868 میں خانہ جنگی کے بعد منظور کی گئی تھی، جس کا مقصد امریکا میں پیدا ہونے والے تمام افراد کو شہریت دینا تھا،چاہے ان کے والدین غلام رہے ہوں یا غیر شہری۔

لیکن ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف رہا کہ اس ترمیم کی تنگ تشریح ہونی چاہیے، اور اگر بچے کے والدین غیر قانونی تارکین وطن ہوں یا عارضی ویزوں (مثلاً ورک یا اسٹوڈنٹ ویزا) پر ہوں تو ایسے بچوں کو پیدائشی شہریت نہ ملے۔

ٹرمپ، جنہوں نے انتخابی مہم میں امیگریشن کے خلاف سخت مؤقف اپنایا تھا، اس پیدائشی حق کو ختم کرنے کا وعدہ کرتے آئے ہیں — حالانکہ قانونی ماہرین نے ہمیشہ اس اقدام پر تحفظات ظاہر کیے۔

ریاستوں کا مؤقف اور قانونی پیش رفت

واشنگٹن، اوریگن، ایریزونا اور الی نوائے نے 21 جنوری کو صدارتی حکم نامے کے خلاف درخواست دائر کی، جس پر فروری میں ابتدائی حکم امتناعی جاری ہوا۔

گزشتہ ماہ ایک علیحدہ مقدمے میں سپریم کورٹ نے ایک محدود فتح ٹرمپ کو دی، جب اس نے فیصلہ دیا کہ ضلع عدالتیں صدر کے خلاف قومی سطح پر حکم امتناعی جاری نہیں کر سکتیں، البتہ اجتماعی مقدمات (class action) میں یہ ممکن ہے۔

اسی بنیاد پر نیو ہیمپشائر کی ایک وفاقی عدالت نے مقدمے کو اجتماعی حیثیت دے دی اور ٹرمپ کے حکم پر دوبارہ ابتدائی حکم امتناعی نافذ کر دیا۔

واشنگٹن کے اٹارنی جنرل کا ردعمل

واشنگٹن کے اٹارنی جنرل نِک براؤن نے اپنے بیان میں کہا کہ عدالت اس بات سے متفق ہے کہ ایک صدر محض قلم کی جنبش سے امریکی شناخت کی تعریف تبدیل نہیں کر سکتا۔

وہ ان بچوں کے حقوق، آزادیاں اور تحفظات ختم نہیں کر سکتا جو ہماری سرزمین پر پیدا ہوئے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • حکومت آزادی صحافت اور اخبارات کے کردار کی معترف ہے، شرجیل میمن
  • فلم جوائے لینڈ کرنے پر ثروت گیلانی کو پچھتاوا؟ اداکارہ نے خاموشی توڑ دی
  • لیویز فورس کا پولیس میں انضمام: بلوچستان ہائیکورٹ کا سخت نوٹس، اعلیٰ حکام کو توہین عدالت کے نوٹس جاری
  • عافیہ صدیقی کیس؛ وزیراعظم اور کابینہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے کا معاملہ رُک گیا
  • اپیلز کورٹ: ٹرمپ کا پیدائشی شہریت ختم کرنے کا صدارتی حکم غیر آئینی قرار
  • امریکی صدر کا مختلف ممالک پر 15 سے 50 فیصد تک ٹیرف عائد کرنے کا اعلان
  • (سندھ بلڈنگ ) ڈائریکٹر جنرل شاہ میر بھٹو ،کھوڑو سسٹم کا مہر ہ ثابت
  • سندھ حکومت بارشوں کے بڑے اسپیل سے نمٹنے کیلئے تیار(غیر قانونی تعمیرات کیخلاف کارروائی جاری)
  • انفارمیشن کمیشن نے شہریوں کو معلومات فراہم نہ کرنے پر متعدد افسران کو شوکاز نوٹس جاری کر دیئے
  • کے پی میں دو روز کے دوران بارشوں اور فلش فلڈ سے 13افراد جاں بحق