لیویز فورس کا پولیس میں انضمام: بلوچستان ہائیکورٹ کا سخت نوٹس، اعلیٰ حکام کو توہین عدالت کے نوٹس جاری
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
بلوچستان ہائیکورٹ نے لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق اپنے واضح احکامات کی خلاف ورزی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری بلوچستان سمیت متعدد اعلیٰ افسران کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
عدالت عالیہ کے ڈویژن بینچ نمبر 3، جسٹس اقبال کاسی اور جسٹس ایوب ترین پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے 26 جون اور 17 جولائی 2025 کو جاری کیے گئے عدالتی احکامات کی یاددہانی کرائی، جن میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے عمل کو واضح طور پر روک دیا گیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ان احکامات کے باوجود متعلقہ حکام نے مراسلہ جات جاری کیے، اجلاس منعقد کیے اور دیگر عملی اقدامات کیے، جو صریحاً عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان میں لیویز کا پولیس میں انضمام، تجویز کس کی تھی؟
عدالت نے چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ و قبائلی امور، ڈی جی لیویز، کمشنر ژوب ڈویژن، ڈپٹی کمشنرز قلعہ سیف اللہ، ژوب اور شیرانی سمیت ایس پیز اور دیگر متعلقہ افسران کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر وضاحت طلب کر لی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل باسط شاہ ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی جانب سے حکم امتناع جاری ہونے کے باوجود صوبائی حکومت نے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا عمل جاری رکھا، جس میں میٹنگز، احکامات اور فیلڈ میں عملی اقدامات بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ کے تربت بینچ نے 24 جون 2025 کو حکومت بلوچستان کی جانب سے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق جاری کیے گئے نوٹیفکیشنز کو معطل کر دیا تھا اور لیویز کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے 20 مئی اور 17 جون کو جاری نوٹیفکیشنز پر عملدرآمد روک دیا تھا اور کہا تھا کہ کیس کے حتمی فیصلے تک کوئی پیش قدمی نہ کی جائے۔
لیویز فورس کی قانونی نمائندگی سینئر وکیل طاہر علی بلوچ نے کی، جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ لیویز کو پولیس میں ضم کرنا نہ صرف آئین اور قانون کے منافی ہے بلکہ اس سے عوامی مفاد بھی بری طرح متاثر ہو گا۔
واضح رہے کہ حکومت بلوچستان نے 17 جون کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے 13 اضلاع میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی تھی، جو ’بی ایریا‘ کو ’اے ایریا‘ میں تبدیل کرنے کی سفارشات مرتب کرے گی۔ کمیٹی کو 10 جولائی تک رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
قبل ازیں، جنوری 2025 میں کوئٹہ، گوادر اور لسبیلہ میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا عمل مکمل کیا گیا۔ اس ضمن میں ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ اقدام قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہم آہنگی کو فروغ دے گا اور امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنائے گا۔
یہ بھی پڑھیں پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ بلوچستان میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ 2003 میں بھی نیشنل پبلک سیفٹی پلان کے تحت پورے صوبے کو ’اے ایریا‘ قرار دے کر لیویز کو پولیس کا حصہ بنایا گیا تھا، تاہم بعد ازاں 2008 میں سردار اسلم رئیسانی کی حکومت نے اس فیصلے کو واپس لیتے ہوئے لیویز کو بحال کر دیا تھا۔
لیویز فورس، جو 1860 کی دہائی میں برطانوی دور میں تشکیل دی گئی، اس وقت بلوچستان کے 82 فیصد علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ دار ہے، جبکہ پولیس کا دائرہ صرف شہری علاقوں یعنی 18 فیصد حصے تک محدود ہے۔ لیویز فورس کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے اور یہ ایک باقاعدہ قانون کے تحت خدمات انجام دے رہی ہے۔
بلوچستان میں ’اے ایریا‘ اور ’بی ایریا‘ کی بنیاد پر پولیسنگ کا دوہرا نظام رائج ہے۔ شہری علاقوں میں پولیس، جبکہ دیہی اور قبائلی علاقوں میں لیویز فورس امن و امان کی ذمہ دار ہے۔
بلوچ عوامی حلقوں کی اکثریت لیویز کو ایک مقامی، بااعتماد اور مؤثر فورس سمجھتی ہے۔ اسی وجہ سے لیویز کے انضمام کے خلاف ہر دور میں آواز بلند کی جاتی رہی ہے، اور اب عدالتی احکامات کی روشنی میں اس مسئلے نے ایک بار پھر سنگین قانونی رخ اختیار کر لیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان ہائیکورٹ لیویز فورس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان ہائیکورٹ لیویز فورس
پڑھیں:
کراچی ،ای چالان کے بعد اہلکار تبادلے کرانے لگ گئے
کام نہ کرنیوالے اہلکار ٹریفک پولیس سے ضلعی پولیس میں تبادلے کرا رہے ہیں، ڈی آئی جی ٹریفک
ہمیں انھیں روکنے میں دلچسپی نہیں،اب فورس میں وہی رہے گا جو ایمان داری سے کام کریگا،گفتگو
ڈی آئی جی ٹریفک نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں ای چالان سسٹم کے آغاز کے بعد سے ٹریفک اہلکار تبادلے کرانے لگ گئے ہیں۔وجہ کراچی میں کیمروں کی تنصیب ہو یا چالان کا اختیار واپس لینا، بہ ہر حال محکمہ ٹریفک پولیس سے اہلکار تبادلے کرانے لگ گئے ہیں، ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ کا کہنا ہے کہ کام نہ کرنے والے اہلکار ٹریفک پولیس سے ضلعی پولیس میں تبادلے کرا رہے ہیں۔نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں پیر محمد شاہ نے کہا اپنا تبادہ کام نہ کرنے والے کرا رہے ہیں، اور ہمیں بھی انھیں روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چالان کرنے والے 800 افسران کو ریگولیشن کا حصہ بنا دیا گیا ہے، ٹریفک پولیس کے افسر چالان کے نام پہ اچانک حملہ کرتے تھے، انھیں یہ تعلیم نہیں تھی لوگ اس سے تنگ تھے، اب فورس میں وہی رہے گا جو ایمان داری اور حق حلال کے ساتھ کام کرے گا۔ڈی آئی جی ٹریفک نے کہا ہم ایسا ادارہ بنانا چاہتے ہیں کہ لوگ ٹریفک پولیس کے محکمے سے محبت کریں، اہلکاروں کو پک اینڈ ڈراپ، کھانا اور شاباشی کی مد میں بھی کچھ دینے کا پروگرام بن رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک پولیس فورس میں اب نوجوان لڑکوں کو سامنے لایا جا رہا ہے تاکہ فورس کو نیا خون مل سکے اور تبدیلی آئے۔ انھوں نے کہا کیمروں کی تنصیب سے ٹریفک اہلکاروں پر بھی نظر رکھی جائے گی۔