عمران ہاشمی نے نامناسب رویہ اختیار کیا: جاوید شیخ
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
پاکستانی ڈرامہ اور فلم انڈسٹری کے سینئر اداکار اور پروڈیوسر جاوید شیخ نے ایک نجی چینل کے پروگرام میں انکشاف کیا کہ بھارتی اداکار عمران ہاشمی نے ماضی میں ان کے ساتھ نازیبا رویہ اپنایا تھا، جس پر انہوں نے انہیں ان کی حیثیت یاد دلا دی پروگرام کے دوران میزبان نے جاوید شیخ سے عمران ہاشمی کے ساتھ کام کرنے کے تجربے کے بارے میں سوال کیا جس پر انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ جاوید شیخ کے مطابق وہ ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں موجود تھے جہاں عمران ہاشمی بھی پہنچے تاہم انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ فلم میں اور کون سے اداکار شامل ہیں فلم کی شوٹنگ سے کچھ دیر پہلے ہدایت کار نے دونوں فنکاروں کا آپس میں تعارف کرایا جاوید شیخ نے عمران ہاشمی سے ملنے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن بھارتی اداکار نے نہایت بے دلی سے ہاتھ ملایا اور رخ موڑ کر آگے بڑھ گئے اس رویے پر جاوید شیخ کو سخت غصہ آیا مگر انہوں نے خاموشی اختیار کی جاوید شیخ نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد انہوں نے عمران ہاشمی سے 15 دن تک کوئی بات نہیں کی اور اسی دوران بھارتی اداکار کو اپنی غلطی کا احساس ہوا آخر کار عمران ہاشمی نے خود آگے بڑھ کر گفتگو کا آغاز کیا اور تعلقات میں تلخی ختم ہوئی انہوں نے مزید کہا کہ جب شوٹنگ کے دوران ریہرسل کا وقت آیا تو وہ خود عمران کے پاس نہیں گئے بلکہ ہدایت کار انہیں وہاں لے کر پہنچے اس موقع پر جاوید شیخ نے عمران ہاشمی کی بدتمیزی کا جواب اپنی سنجیدگی اور خاموشی سے دیا جس کے بعد دونوں کے درمیان گلے شکوے ختم ہو گئے اور بات چیت بحال ہو گئی
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جاوید شیخ نے عمران ہاشمی انہوں نے
پڑھیں:
عمران خان کا کرشمہ یا شعور کا زوال؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا کی تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے کرشماتی شخصیت، جھوٹے دعووں یا نجات دہندگی کے فریب سے اقوام کو اندھے پیروکار بنا کر تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔ مسیلمہ کذاب، عبداللہ بن سبا، مرزا غلام احمد قادیانی، جم جونز جیسے لوگوں کی فہرست لمبی ہے اور ان کے پیروکاروں کی تباہی کی اصل وجہ بھی ان کے عقیدت مندوں کی اندھی عقیدت، سچائی سے انکار اور نرگسیت زدہ ذہنیت تھی۔ اور یہی وہ روش ہے جو آج پاکستان میں ایک مخصوص سیاسی کلٹ کے اندر پروان چڑھ چکی ہے۔ اس کلٹ کے روح رواں عمران احمد خان نیازی ہیں۔ ایک کرشماتی شخصیت، جنہوں نے پاکستان کے نوجوانوں میں سیاسی جوش جگایا، شوکت خانم اور نمل جیسے منصوبے دیے، لیکن ساتھ ہی ایک پوری نسل کے شعور کو یرغمال بنا لیا۔ ان کے چاہنے والوں نے ایسا اندھا یقین اختیار کر لیا ہے کہ باقی سب سیاسی، مذہبی یا فلاحی ادارے انہیں دشمن نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر جماعت اسلامی جس کے ہر فلاحی و دینی کام، جیسے غزہ کے لیے احتجاج، الخدمت کی قربانی مہم، یا نعیم الرحمن کی الجزائر کے قافلے کے لیے دعا، ان کے فالورز کی گالیوں اور تمسخر کا نشانہ بنتی ہے۔ حالانکہ کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کی بے وفائی اور دھوکا سب کے سامنے ہے اس کے باوجود جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس نے 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں کو مفت قانونی مدد فراہم کی لیکن ان میں شکرگزاری کا جذبہ بالکل نہیں۔ یہ سب سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ کیونکہ عمران خان جانتے ہیں کہ ان کے تمام اسلامی نعرے جماعت اسلامی سے مستعار لیے گئے ہیں، اور اگر ان کا اعتراف کیا جائے تو فالورز اصل منبع کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ ان کے اقتدار کے راستے میں ساتھ دینے والے علیم خان، جہانگیر ترین اور چودھری سرور جیسے لوگوں کی پارٹی سے علٰیحدگی کی وجہ بھی کپتان کی احسان فراموشی ہے۔ جن کے جہاز، کندھے اور سرمایہ استعمال کیا بعد میں اْنہیں ایک طرف کردیا۔
کپتان کی ذاتی زندگی بھی اسی احسان فراموشی کا شاہکار ہے: • ماجد خان نے عمران کو کرکٹ میں متعارف کرایا، اور انہی کے خلاف کپتان سازش کرتے پائے گئے۔ • سیتا وائٹ سے ایک بیٹی پیدا ہوئی، لیکن اسے نہ قبول کیا، نہ کبھی کلمہ سکھایا چونکہ اْن دنوں سیتا وائٹ کی جائداد پر بھائیوں نے قبضہ کرلیا تھا اور وہ اپنے محل نما گھر کے اخراجات بھی اٹھانے کے قابل نہ تھی۔ کپتان اْس مشکل گھڑی میں اپنی محبوبہ اور بیٹی کو تنہا چھوڑ دیا چونکہ جمائمہ جیسی دولت مند خاندان کی بیوی اس کے ہاتھ لگ گئی تھی۔ ریحام خان کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے ٹی وی پر فرمایا: ’’اگر بیوی ایک لاکھ کا پرس مانگے تو طلاق دے دوں گا‘‘۔ کیا ایسا جملہ کسی غیرت مند شوہر کی زبان سے نکلتا ہے؟
یہاں سوال یہ ہے کہ جمائما خان کیوں کپتان کو سپورٹ کرتی ہیں؟ کیا اس کی ممکنہ وجہ کوئی بڑا اور گہرا ایجنڈہ بھی ہے؟
آج جمائما خان، جو کسی زمانے میں کپتان کی شریکِ حیات تھیں، ان کی بیٹی کی کو گود لیا، اور اسے پالا تاکہ عمران خان کے سیاسی مستقبل کو نقصان نہ پہنچے۔
بین الاقوامی معاملات میں بھی یہی دوغلہ پن نظر آتا ہے: • امریکا پر سازش کا الزام لگایا، پھر اسی امریکا سے مدد مانگی۔ • امت مسلمہ کا نعرہ لگایا، لیکن غزہ پر اسرائیلی بمباری پر کبھی ایک مذمتی ٹویٹ نہ کی۔ • ڈاکٹر عافیہ کے نام پر ووٹ لیے، اور جب ٹرمپ سے ملاقات ہوئی، تو ذکر تک نہ کیا۔
عمران خان کے فالورز بھی اْس جیسی ذہنیت کا شکار ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر الخدمت کے پوسٹ کے نیچے بدزبانی، جماعت اسلامی کے ٹویٹس پر گالیاں، اور کسی بھی مثبت کام کو توہین میں بدل دینا ان کا مزاج بن چکا ہے۔
ایک واقعہ یاد آتا ہے: کپتان کے ایک چاہنے والے نے پیٹرول مہنگا ہونے پر لکھا، ’’اگر دس لاکھ کا بھی لیٹر ہو جائے، ووٹ خان صاحب کو دوں گا!‘‘ نیچے کمنٹس میں کسی نے یاد دلایا کہ ’’اگر اتنے امیر ہو تو الخدمت سے ماہانہ وظیفہ کیوں لیتے ہو؟‘‘ یہی تضاد، یہی نفسیاتی الجھن آج کے نوجوان کو شعور سے دور کر رہی ہے۔ سانحہ 9 مئی کے بعد جب انیل مسرت جیسے قریبی ساتھی سے سوال کیا گیا کہ جماعت اسلامی پر حملے کیوں ہو رہے ہیں؟ تو جواب آیا ’’کارکن لاعلم ہیں‘‘۔ میرا سوال تھا کہ اگر لیڈر خود شکریہ ادا کرے تو لاعلمی باقی رہتی ہے؟ یہ اندھی عقیدت، یہ شخصی پرستی، یہ دیوتا سازی ہمیں کسی گمراہ فرقے کی طرح اخلاقی و فکری بربادی کی طرف لے جا رہی ہے۔ فارسی کی ایک کہاوت ہے کہ ’’احسان فراموشی کا انجام بربادی ہے‘‘۔
پی ٹی آئی کے سنجیدہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ آنکھیں کھولیں۔ سچ کو سچ کہیں، جھوٹ کو جھوٹ مانیں۔ شخصیت کی پرستش بند کریں۔ نہ عمران خان فرشتہ ہیں، نہ ان کے مخالفین شیطان۔ نہ کوئی مسیحا، نہ کوئی دیوتا، سب انسان ہیں، اور انسان کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ یہ کالم نہ کسی سیاسی دشمنی کا نتیجہ ہے، نہ کسی جماعت کی وکالت۔ یہ تو ایک فریاد ہے۔ اس معاشرے کے لیے جو شخصیت پرستی کے اندھیرے میں بھٹک رہا ہے۔
کسی کو دے کے وفا، بے وفائی مت کرنا
کہ زخم وقت پہ دے، پھر صفائی مت کرنا