جعفر ایکسپریس واقعہ کے بعد بولان ایکسپریس کی سروسز معطل
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
جعفرایکسپریس پر دہشتگردوں کے حملے کے اثرات دوسری ٹرینوں پر بھی پڑنے لگے، کراچی سے کوئٹہ چلنے والی بولان ایکسپریس کی سروسز 14 مارچ تک معطل کردی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جعفر ایکسپریس پر حملہ: بھارتی میڈیا کے سفید جھوٹ کو پاکستان میں کون مزید پھیلا رہا ہے؟
ریلوے حکام کے مطابق کراچی سے کوئٹہ چلنے والی بولان میل ایکسپریس 14 مارچ تک معطل کردی گئی ہے۔
ریلوے نے تمام مسافروں سے گزارش کی ہے کہ وہ متبادل سفری منصوبہ بندی کرلیں جس کے لیے مسافروں کو مکمل رقم واپس کی جائے گی۔
امن وامان کے پیش نظر بولان میل کو 3 دن کے لیے معطل کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ دھماکا، جعفر ایکسپریس اور بولان میل کی سروس کب تک معطل رہے گی؟
یاد رہے گذشتہ روز بلوچستان کے ضلع سبی میں دہشت گردوں نے جعفر ایکسپریس پر حملہ کرکے ٹرین کو مسافروں سمیت یرغمال بنالیا تھا، بزدلانہ حملہ کرنے والے دہشتگرد بیرون ملک ہینڈلرزسے بذریعہ سیٹلائٹ فون رابطے میں ہیں۔
پاک فوج نے کارروائی کرتے ہوئے 30 دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ 190 یرغمالیوں کو بازیاب کرالیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news بلوچستان بولان ایکسپریس بی ایل اے پاکستان جعفر ایکسپریس سروسز معطل کراچی کوئٹہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان بولان ایکسپریس بی ایل اے پاکستان جعفر ایکسپریس کراچی کوئٹہ جعفر ایکسپریس
پڑھیں:
کوئٹہ، بلوچستان کے اخباری صنعت سے وابستہ افراد کا احتجاج عید کے دوران بھی جاری
شرکاء کا کہنا تھا اشتہارات کی BPPRA پر منتقلی روکنے اور مقامیت کو اولیت ملنے، اخبار مارکیٹ کے مسائل کے حل تک بلوچستان کی اخباری صنعت احتجاج ختم نہیں کریگی۔ اسلام ٹائمز۔ اخباری صنعت بلوچستان کی تنظیم کی جانب سے عید الاضحیٰ کے دوران بھی پریس کلب کے سامنے علامتی احتجاج جاری رہا۔ علامتی احتجاجی کیمپ میں اخبارات و جرائد کے مدیران اور اخبار مارکیٹ کے نمائندگان موجود رہے۔ شرکاء کا کہنا تھا اشتہارات کی BPPRA پر منتقلی روکنے اور مقامیت کو اولیت ملنے، اخبار مارکیٹ کے مسائل کے حل تک بلوچستان کی اخباری صنعت احتجاج ختم نہیں کرے گی۔ عیدالاضحیٰ کے روز بھی علامتی احتجاجی کیمپ قائم کرنا ہمارے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ علامتی احتجاجی کیمپ کے شرکاء کا کہنا تھا کہ کسی بھی صوبے کا وزیراعلیٰ صوبے کا سربراہ ہوتا ہے اور ہمارا وزیراعلیٰ اپنے ہی صوبے کی اخباری صنعت کے مسائل سننے کو ہی تیار نہیں۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ چند نام نہاد ارسطو اپنے مفادات کی خاطر بلوچستان کی واحد صنعت کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت اہل قلم سے بھی بات کرنے کو تیار نہیں، بلوچستان کے پرنٹ میڈیا کی بقاء کی جنگ سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔ چند روز میں احتجاجی تحریک کو مزید وسعت دی جائے گی جس کے ذمہ داروہ چند عناصر ہوں گے۔