Express News:
2025-07-26@01:39:08 GMT

روزکھاؤ انڈے

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

پچھلے دنوں ہم نے ایک سیاسی اورمنتخب نمایندوں کی نوکری فروشی کا ذکر کیا تھا جس کا نام آئل اینڈ گیس رکھا گیا، اس ادارے نے تیل اورگیس زمین سے تو نہیں نکالا لیکن بے بیچارے نوجوانوں سے خوب خوب نکالا، جو بیروزگاری کی وجہ سے سب کچھ کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔

اب ہماری بات کی تصدیق آڈیٹر جنرل کی اس رپورٹ نے بھی کردی ہے جو اسی ادارے میں ہونے والی دکانداریوں پر مبنی ہے ، سیکڑوں بے چارے اس میں مطلوبہ قیمت کے عوض بھرتی کیے گئے اور پھر نکالے گئے کہ کوئی اور زیادہ قیمت دینے والا ضرورت مند بھی لوٹا جا سکے ، یوں بیچارے بہت سارے پڑھے لکھے نوجوان آتے رہے۔

ان اور آوٹ ہوتے رہے اور دکانداری زوروں پر چلتی رہی، وہ بدنصیب رقم تو ہارگئے لیکن ساتھ ہی عمر بھی ہار کر اوور ایج ہوگئے،بہت سے بیچاروں نے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا لیکن عدالتوں میں بھی اسی ملک وقوم کے بندے بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ اپنی نوکریاں خرید چکے ہوتے ہیں خیر ان نوجوانوں کی قتل گاہ کے اسرار ابھی اور بھی کھلیں گے ۔

ہم ایک اور مجوزہ ادارے کا ذکر خیر کرنا چاہتے ہیں جس کے قیام کا اعلان وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا نے کیا ہے اورمعاونین اس پر پھلجھڑیاں چھوڑ رہے ہیں۔ جناب وزیراعلیٰ کے اعلان و بیان کے مطابق پولیس کے متوازی یا پولیس کی مدد کے لیے ایسی ہی ایک اورفورس قائم کی جائے گی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس نئی فورس کی زچگی ہوئی ہے یا نہیں یا دوسرے تمام منصوبوں اورمژدہ ہائے جنت الفردوس کی طرح کاغذوں ہی کاغذوں میں زندہ رہ کر فوت ہوجائے گا ،کاغذوں میں زندہ رہنے اور وفات پانے پر ایک لطیفہ دم ہلا رہا ہے جو خالص ہمارا طبع زاد اور ٹی وی پرنشر شدہ ہے ۔

اس لطیفے نما حقیقے میں ایک بوڑھے کی پنشن بند ہوجاتی ہے تو وہ متعلقہ دفتر جاکر پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے، متعلقہ بابو مناسب اورحق حلال فیس لے کر کاغذات میں غوطہ لگاتا اورکافی دیر تک غوطہ خوری کے بعد بڈھے کو یہ مژدہ سناتا ہے کہ تم تو مرچکے ہو، بڈھا حیران ہوکر کہتا ہے ،کیسے مرچکا ہوں ، یہ جو تمہارے سامنے زندہ وپایندہ لیکن شرمندہ کھڑا ہوں ، بابوجی اسے کہتا ہے ،میں کاغذات کی بات کررہا ہوں تم کاغذات میں مرچکے ہو، بڈھا طیش میں آکر بولتا ہے۔

 کیا میں کوئی کیڑا ہوں، دیمک ہوں، مچھر، مکھی ہوں جو کاغذات میں دب کر مرچکا ہوں لیکن اس کا سارا گرجنا برسنا بے کار جاتا ہے ، بابو اسے بس یہی بتاتا ہے کہ تم کاغذات میں مردہ ہو اور مردہ ہونے کی وجہ سے تیری پنشن بھی مردہ ہوچکی ہے، کافی دیر تک بحث مباحثے کے بعد بابوجی مزید تھوڑا سا حلال لے کر اورجیب میں منتقل کرنے کے بعد بتاتا ہے کہ خود کو کاغذات میں زندہ کرنے کے لیے اسے کچھ مسیحاؤں سے رجوع کرنا پڑے گا جس میں گاؤں کے نمبردار ، پٹواری اورتحصیل دار سے لے کر اوپر کے کچھ ہفت خوانوں سے گزرکر آنا ہوگا، بیچارا برسرزمین زندہ لیکن کاغذات میں مردہ بوڑھا چل پڑتا ہے اورجیسا کہ کلرک نے سمجھایا ہوا تھا، دوچار مہینے میں متوقع پنشن سے کئی گنا زیادہ خرچ کرکے کاغذات میں زندہ ہوجاتا ہے لیکن جب متعلقہ بابوجی کے پاس پہنچتا ہے تو وہ اسے صرف تین مہینے کی پنشن دیتا ہے ، بڈھا کہتا ہے کہ تین نہیں بلکہ میری چھ مہینے کی پنشن باقی ہے ۔

بابوجی پھر کاغذات میں غوطہ زن ہوجاتا ہے اورتھوڑی دیر کی غواصی کے بعد بتاتا ہے کہ یہ تو کرنٹ سہ ماہی کی پنشن ہے جس میں تم نے خودکو کاغذات میں زندہ کردیا لیکن اس سے پہلے والی سہ ماہی میں تم بدستور مردہ ہو اس لیے تمہیں الگ سے ثبوت لانا ہوگا کہ موجودہ سہ ماہی سے پہلی والی سہ ماہی میں بھی تم زندہ ہو۔

تو جناب عالی برسرزمین کی دنیا الگ ہے اورکاغذی دنیا الگ ہے بلکہ اب تو ایک تیسری دنیا ’’بیانات‘‘ کی بھی لانچ ہو چکی ہے جس میں جوہوتا ہے وہ ہوتا نہیں اورجو نہیں ہوتا وہ ہی ہوتا ہے ، اگر آپ نے غور فرمایا ہے تو اس تیسری بیانات کی دنیا میں وہی سب کچھ ہوتا ہے جو باقی دو دنیاؤں تک پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے ۔

اس تیسری دنیا میں آج کل عوام جنت الفردوس پہنچ کر قیام وطعام میں مصروف ہیں، پہلی ترجیحات سب کی سب پوری ہوچکی ہیں ہرطرف امن وامان کا دوردورہ ہے ، راوی کے ساتھ ساتھ ، چناب، جہلم، ستلج، بیاس کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ بھی چین ہی چین لکھتا ہے ، شیر اوربکری ایک بوتل سے منرل واٹر پی رہے ہیں ۔

 پی ٹی آئی کی دکان میں ہم نے دیکھا ہے ، دیکھ رہے ہیں اوردیکھتے رہیں گے کہ بکریاں چرانے والے اب بھینس چرارہے ہیں، انڈے بٹورنے والے پولٹری فارم کھولے ہوئے ہیں اور سبزیاں بیچنے والے نوکریاں بیچ رہے ہیں ۔

خیروہ تو اب ہمارا مقدر ہے لیکن اس نئی فورس سے بہتوں کا بھلا ہوجائے گا بشرطیکہ چوزہ انڈے سے نکل آیا کیوں کہ چوزہ وہ واحد آئٹم ہے جسے پیدا ہونے سے پہلے بھی کھایا جاسکتا ہے اورپاکستان میں عموماً اورصوبہ خیر پخیر میں خصوصاً بے تحاشا کھایا جاتا ہے ۔

 منڈے ہو یا سنڈے

خوب کھاؤ انڈے

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کاغذات میں ہیں اور رہے ہیں مردہ ہو کی پنشن سہ ماہی کے بعد

پڑھیں:

’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا

مدین(نیوز ڈیسک) مدین کے پہاڑوں سے اُٹھنے والی ایک معصوم آواز، چودہ سالہ فرحان… جسے والدین نے دین کی روشنی کے لیے سوات کے چالیار مدرسے بھیجا، واپس آیا تو ایک بےجان جسم تھا، چہرے پر نیلے نشانات، کمر پر تشدد کے زخم، اور آنکھوں میں زندگی کے بجائے سناٹا تھا۔

تین دن پہلے پیش آنے والا یہ لرزہ خیز واقعہ آج بھی والد ایاز کے لفظوں میں سسک رہا ہے۔ فرحان کے والد نے بتایا، ’میں نے مہتمم صاحب سے ویڈیو کال پر بات کی، کہا کہ بچہ شکایت کر رہا ہے، تکلیف میں ہے… مگر مہتمم نے یقین دہانی کروائی کہ آئندہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘

والد کے مطابق، شام ساڑھے چھ بجے دوبارہ رابطہ ہوا۔ مہتمم نے اطمینان سے کہا، ’بچہ ٹھیک ہے، خوش ہے۔‘ باپ نے دل کو تسلی دی کہ شاید بیٹے کا دل لگ گیا ہے، مگر اسی وقت وہ بچہ کسی کونے میں ظلم کے پنجوں میں تڑپ رہا تھا۔

ایاز کہتے ہیں، ’میں نے کہا بچہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، مگر پھر سنبھل جاتا ہے… شاید اسی وقت اُن درندوں نے اُسے مار ڈالا تھا۔‘ آنکھوں میں نمی اور آواز میں درد لیے وہ بولے، ’میرے فرحان کو پانی تک نہیں دیا گیا… وہ پیاسا مار دیا گیا!‘

فرحان کے چچا نے جب مہتمم کو فون پر بتایا کہ بچے نے ناپسندیدہ رویے کی شکایت کی ہے، تو مہتمم نے قسمیں کھا کر سب الزامات جھٹلا دیے۔ چچا کے مطابق، ’مہتمم کا بیٹا بھی قسمیں کھا رہا تھا… وہی جس پر میرے بھتیجے کو نازیبا مطالبات کرنے کا الزام ہے۔‘

یہ محض ایک بچے کی موت نہیں، ایک خواب کی، ایک نسل کی، اور والدین کے یقین کی موت ہے۔ تین سال سے فرحان اس مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ہر ماہ پانچ ہزار روپے دے کر والدین یہ سمجھتے رہے کہ ان کا بیٹا دین سیکھ رہا ہے۔ مگر مدرسے کی چھت تلے وہ ظلم سیکھ رہا تھا، مار سہہ رہا تھا، اور آخرکار خاموشی سے دم توڑ گیا۔

پولیس نے دو اساتذہ سمیت 11 افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم مہتمم تاحال مفرور ہے۔ مدرسے کے طلبہ نے انکشاف کیا ہے کہ وہاں مار پیٹ معمول کی بات ہے، اور کئی بچے خوف کے عالم میں جیتے ہیں۔ مقتول بچے کے نانا نے الزام عائد کیا ہے کہ فرحان سے جنسی خواہش کا تقاضا کیا جا رہا تھا، جس پر اُس نے مزاحمت کی۔

واقعے کے بعد خوازہ خیلہ بازار میں عوام کا جم غفیر نکل آیا۔ ہاتھوں میں فرحان کی تصویر، زبان پر ایک ہی نعرہ — ”قاتلوں کو سرعام پھانسی دو!“

ضلعی انتظامیہ نے مدرسے کو سیل کر دیا ہے، مگر سوال اب بھی باقی ہے — کتنے فرحان، کتنی ماؤں کی گودیں، کتنے والدوں کی امیدیں، اس نظام کے درندوں کی بھینٹ چڑھیں گی؟

یہ صرف فرحان کی کہانی نہیں… یہ ہر اُس معصوم کی کہانی ہے جو تعلیم کے نام پر کسی وحشی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • غزہ کی مائیں رات کو اُٹھ اُٹھ کر دیکھتی ہیں ان کے بھوکے بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں
  • پی ٹی آئی کی تحریک سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، عرفان صدیقی
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے، بیرسٹر گوہر
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے: بیرسٹر گوہر
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • دانیہ شاہ کے شوہر حکیم شہزاد نے 3 بیویوں کے ہمراہ ضمنی انتخابات کیلیے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے
  • این اے 175ضمنی انتخاب،دانیہ شاہ کے شوہر 2بیویوں کے ہمراہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے پہنچ گئے
  • ’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
  • مصنوعی ذہانت سے لیس لال بیگ میدانِ جنگ میں اترنے کے لیے تیار
  • ’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘