پچھلے دنوں ہم نے ایک سیاسی اورمنتخب نمایندوں کی نوکری فروشی کا ذکر کیا تھا جس کا نام آئل اینڈ گیس رکھا گیا، اس ادارے نے تیل اورگیس زمین سے تو نہیں نکالا لیکن بے بیچارے نوجوانوں سے خوب خوب نکالا، جو بیروزگاری کی وجہ سے سب کچھ کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔
اب ہماری بات کی تصدیق آڈیٹر جنرل کی اس رپورٹ نے بھی کردی ہے جو اسی ادارے میں ہونے والی دکانداریوں پر مبنی ہے ، سیکڑوں بے چارے اس میں مطلوبہ قیمت کے عوض بھرتی کیے گئے اور پھر نکالے گئے کہ کوئی اور زیادہ قیمت دینے والا ضرورت مند بھی لوٹا جا سکے ، یوں بیچارے بہت سارے پڑھے لکھے نوجوان آتے رہے۔
ان اور آوٹ ہوتے رہے اور دکانداری زوروں پر چلتی رہی، وہ بدنصیب رقم تو ہارگئے لیکن ساتھ ہی عمر بھی ہار کر اوور ایج ہوگئے،بہت سے بیچاروں نے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا لیکن عدالتوں میں بھی اسی ملک وقوم کے بندے بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ اپنی نوکریاں خرید چکے ہوتے ہیں خیر ان نوجوانوں کی قتل گاہ کے اسرار ابھی اور بھی کھلیں گے ۔
ہم ایک اور مجوزہ ادارے کا ذکر خیر کرنا چاہتے ہیں جس کے قیام کا اعلان وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا نے کیا ہے اورمعاونین اس پر پھلجھڑیاں چھوڑ رہے ہیں۔ جناب وزیراعلیٰ کے اعلان و بیان کے مطابق پولیس کے متوازی یا پولیس کی مدد کے لیے ایسی ہی ایک اورفورس قائم کی جائے گی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس نئی فورس کی زچگی ہوئی ہے یا نہیں یا دوسرے تمام منصوبوں اورمژدہ ہائے جنت الفردوس کی طرح کاغذوں ہی کاغذوں میں زندہ رہ کر فوت ہوجائے گا ،کاغذوں میں زندہ رہنے اور وفات پانے پر ایک لطیفہ دم ہلا رہا ہے جو خالص ہمارا طبع زاد اور ٹی وی پرنشر شدہ ہے ۔
اس لطیفے نما حقیقے میں ایک بوڑھے کی پنشن بند ہوجاتی ہے تو وہ متعلقہ دفتر جاکر پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے، متعلقہ بابو مناسب اورحق حلال فیس لے کر کاغذات میں غوطہ لگاتا اورکافی دیر تک غوطہ خوری کے بعد بڈھے کو یہ مژدہ سناتا ہے کہ تم تو مرچکے ہو، بڈھا حیران ہوکر کہتا ہے ،کیسے مرچکا ہوں ، یہ جو تمہارے سامنے زندہ وپایندہ لیکن شرمندہ کھڑا ہوں ، بابوجی اسے کہتا ہے ،میں کاغذات کی بات کررہا ہوں تم کاغذات میں مرچکے ہو، بڈھا طیش میں آکر بولتا ہے۔
کیا میں کوئی کیڑا ہوں، دیمک ہوں، مچھر، مکھی ہوں جو کاغذات میں دب کر مرچکا ہوں لیکن اس کا سارا گرجنا برسنا بے کار جاتا ہے ، بابو اسے بس یہی بتاتا ہے کہ تم کاغذات میں مردہ ہو اور مردہ ہونے کی وجہ سے تیری پنشن بھی مردہ ہوچکی ہے، کافی دیر تک بحث مباحثے کے بعد بابوجی مزید تھوڑا سا حلال لے کر اورجیب میں منتقل کرنے کے بعد بتاتا ہے کہ خود کو کاغذات میں زندہ کرنے کے لیے اسے کچھ مسیحاؤں سے رجوع کرنا پڑے گا جس میں گاؤں کے نمبردار ، پٹواری اورتحصیل دار سے لے کر اوپر کے کچھ ہفت خوانوں سے گزرکر آنا ہوگا، بیچارا برسرزمین زندہ لیکن کاغذات میں مردہ بوڑھا چل پڑتا ہے اورجیسا کہ کلرک نے سمجھایا ہوا تھا، دوچار مہینے میں متوقع پنشن سے کئی گنا زیادہ خرچ کرکے کاغذات میں زندہ ہوجاتا ہے لیکن جب متعلقہ بابوجی کے پاس پہنچتا ہے تو وہ اسے صرف تین مہینے کی پنشن دیتا ہے ، بڈھا کہتا ہے کہ تین نہیں بلکہ میری چھ مہینے کی پنشن باقی ہے ۔
بابوجی پھر کاغذات میں غوطہ زن ہوجاتا ہے اورتھوڑی دیر کی غواصی کے بعد بتاتا ہے کہ یہ تو کرنٹ سہ ماہی کی پنشن ہے جس میں تم نے خودکو کاغذات میں زندہ کردیا لیکن اس سے پہلے والی سہ ماہی میں تم بدستور مردہ ہو اس لیے تمہیں الگ سے ثبوت لانا ہوگا کہ موجودہ سہ ماہی سے پہلی والی سہ ماہی میں بھی تم زندہ ہو۔
تو جناب عالی برسرزمین کی دنیا الگ ہے اورکاغذی دنیا الگ ہے بلکہ اب تو ایک تیسری دنیا ’’بیانات‘‘ کی بھی لانچ ہو چکی ہے جس میں جوہوتا ہے وہ ہوتا نہیں اورجو نہیں ہوتا وہ ہی ہوتا ہے ، اگر آپ نے غور فرمایا ہے تو اس تیسری بیانات کی دنیا میں وہی سب کچھ ہوتا ہے جو باقی دو دنیاؤں تک پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے ۔
اس تیسری دنیا میں آج کل عوام جنت الفردوس پہنچ کر قیام وطعام میں مصروف ہیں، پہلی ترجیحات سب کی سب پوری ہوچکی ہیں ہرطرف امن وامان کا دوردورہ ہے ، راوی کے ساتھ ساتھ ، چناب، جہلم، ستلج، بیاس کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ بھی چین ہی چین لکھتا ہے ، شیر اوربکری ایک بوتل سے منرل واٹر پی رہے ہیں ۔
پی ٹی آئی کی دکان میں ہم نے دیکھا ہے ، دیکھ رہے ہیں اوردیکھتے رہیں گے کہ بکریاں چرانے والے اب بھینس چرارہے ہیں، انڈے بٹورنے والے پولٹری فارم کھولے ہوئے ہیں اور سبزیاں بیچنے والے نوکریاں بیچ رہے ہیں ۔
خیروہ تو اب ہمارا مقدر ہے لیکن اس نئی فورس سے بہتوں کا بھلا ہوجائے گا بشرطیکہ چوزہ انڈے سے نکل آیا کیوں کہ چوزہ وہ واحد آئٹم ہے جسے پیدا ہونے سے پہلے بھی کھایا جاسکتا ہے اورپاکستان میں عموماً اورصوبہ خیر پخیر میں خصوصاً بے تحاشا کھایا جاتا ہے ۔
منڈے ہو یا سنڈے
خوب کھاؤ انڈے
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کاغذات میں ہیں اور رہے ہیں مردہ ہو کی پنشن سہ ماہی کے بعد
پڑھیں:
انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
انسان کو سمجھنا ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں پہلے بھی لوگوں نے انسانی فطرت کو مختلف خانوں میں بانٹنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: کتے انسانوں کے دوست کتنے ہزار سال پہلے بنے؟
شخصیت کو 4 بنیادی اقسام میں تقسیم کرنے کا ایسا ہی ایک قدیم نظریہ جسے ’4 مزاج‘ یا (فور ہیومرز) کہا جاتا ہے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے یونان میں متعارف ہوا لیکن اس کی گونج آج بھی جدید نفسیات میں سنائی دیتی ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نظریے نے صدیوں تک نہ صرف طب، خوراک اور طرز زندگی کو متاثر کیا بلکہ انسان کے جذبات اور رویوں کو سمجھنے کا ایک مستقل ذریعہ بھی بن گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ سائنسی لحاظ سے اس کی بنیادیں اب غلط تسلیم کی جا چکی ہیں لیکن اس نظریے کی جھلک آج کے ماڈرن نفسیاتی ماڈلز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز نے 4 عناصر زمین، پانی، ہوا اور آگ کو کائنات کی بنیاد قرار دیا اور بعد ازاں طبیب ہپوکریٹس نے اس سے متاثر ہوکر انسانی جسم کے اندر 4 مائعات کا نظریہ پیش کیا جو مندرجہ ذیل ہے۔
خون (Sanguine): خوش مزاج اور پُرجوش
بلغم (Phlegmatic): ٹھنڈے مزاج اور نرم طبیعت
پیلا صفرا (Choleric): غصیلا اور ضدی
سیاہ صفرا (Melancholic): افسردہ اور گہری سوچ رکھنے والا
مزید پڑھیے: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟
ان مزاجوں کو جسم کی حرارت اور نمی کے ساتھ جوڑا گیا جیسے گرم و خشک مزاج والے چولیرک (Choleric) سمجھے گئے جبکہ سرد و مرطوب لوگ فلیگمیٹک (Phlegmatic) کہلائے۔
یہ نظام قرون وسطیٰ اور شیکسپیئر کے دور میں بھی رائج تھا۔ مثلاً شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے’دی ٹیمنگ آف دی شریو‘ میں کردار کیتھرین کے بگڑے رویے کو ’پیلے صفرے‘ کی زیادتی سے جوڑا گیا اور علاج کے طور پر اسے گرم کھانوں سے دور رکھا گیا۔
قدیم نظریہ، جدید عکس19ویں صدی میں جسمانی تحقیق، خوردبین کی ایجاد اور جدید طب کے باعث 4 مزاجوں کا نظریہ سائنسی طور پر متروک ہو گیا لیکن اس کے اثرات باقی رہے۔
سنہ 1950 کی دہائی میں معروف ماہر نفسیات ہینس آیزنک نے شخصیت کے 2 بنیادی پہلو متعارف کرائے جن میں ایکسٹروورژن (باہر کی جانب رجحان) اور نیوروٹسزم (جذباتی بےچینی) شامل تھے۔
انہوں نے پایا کہ ان 2 عناصر کو مختلف انداز میں ملا کر جو 4 اقسام بنتی ہیں وہ حیرت انگیز طور پر قدیم مزاجوں سے میل کھاتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں
زیادہ نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = چولیرک
زیادہ نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = میلینکولک
کم نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = سینگوئن
کم نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = فلیگمیٹک
یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انسانی شخصیت میں کچھ مستقل پیٹرن موجود ہیں اب چاہے انہیں مزاج کہیں یا جدید سائنسی اصطلاحات۔
شخصیت کو زمرہ بنانا: فائدہ یا فریب؟جدید ماڈل جیسے کہ ’بگ فائیو‘ جو شخصیت کی 5 بنیادی جہتوں (اوپننس، کانشسنیس، ایکسٹروورژن، اگری ایبلنس، نیوروٹسزم) پر مشتمل ہے۔ اب زیادہ سائنسی طور پر مستند سمجھے جاتے ہیں لیکن ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ’کٹیگریز بنانے کی انسانی خواہش اب بھی موجود ہے جیسا کہ میئرز برگز یا آن لائن کوئزز سے ظاہر ہے۔
مزید پڑھیں: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ نظام بعض اوقات انسانی پیچیدگی کو بہت حد تک سادہ کر دیتے ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر لوگ شخصیتی پیمائش میں اوسط کے قریب ہوتے ہیں اور کٹیگری سسٹم ان اختلافات کو مکمل طور پر نہیں سمجھا سکتا۔
لیکن جیسے شیکسپیئر ’چولیرک‘ اور ’سینگوئن‘ کرداروں سے محظوظ ہوتا تھا ویسے ہی آج کا انسان ’ٹائپ اے‘، ’ای این ٹی جے‘ یا ’ورگو‘ جیسی درجہ بندیوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔
ماہر نفسیات پامیلا رٹلج کہتی ہیں کہ انسانی فطرت میں درجہ بندی کی خواہش فطری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں دنیا کو سمجھنے، سیکھنے اور اس سے تعامل کرنے میں مدد دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اظہار محبت کے خفیہ اشارے: کیا ایموجیز صدیوں پرانے کوڈ ورڈز کا تسلسل ہیں؟
پامیلا کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ ہزاروں سال پرانا ہے لیکن آج بھی ہماری سوچ میں زندہ ہے۔
بہرحال 4 مزاجوں کا یہ قدیم نظریہ آج اگرچہ سائنسی طور پر مستند نہیں رہا لیکن یہ اس انسانی فطرت کی عکاسی ضرور کرتا ہے جو ہر دور میں خود کو، دوسروں کو اور دنیا کو سمجھنے کے لیے چیزوں کو خانوں میں بانٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ خواہ زبان بدلے یا نظریہ انسان کا یہ تجسس اور تلاش اور خود فہمی کی یہ جستجو آج بھی جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
4 مزاج انسانی فطرت چار مزاج یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز