ویب ڈیسک —امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالتا رہے گا۔

یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایران نے جوہری پروگرام پر نئے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔

دوسری جانب ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی اور اس کے ذخیرے پر بین الاقوامی تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے لیے امریکی مشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل نے رپورٹ کیا ہے کہ ایران نے افزودہ یورینیم کی پیداوار تیز کر دی ہے۔


امریکی مشن نے بیان میں مزید کہا کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق تہران یورینیم افزودگی کی اپنی پیداوار کو تیز کر رہا ہے۔

امریکی بیان کے مطابق ایران دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار تو نہیں ہیں۔ لیکن وہ افزودہ یورینیم کی پیداوار کر رہا ہے جس کے لیے اس کے پاس کوئی ایسا قابلِ اعتبار مقصد نہیں ہے کہ وہ پر امن مقاصد کے لیے یہ یورینیم افزودہ کر رہا ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے جب کہ سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کے خدشات کو بھی نظر انداز کر رہا ہے۔




امریکی بیان میں کہا گیا کہ سلامتی کونسل کو ایران کے اس ڈھٹائی پر مبنی رویے سے نمٹنے اور اس کی واضح مذمت کے لیے متحد ہونا چاہیے۔

ایران کئی برس سے جوہری پروگرام پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتا رہا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کے مقاصد فوجی نوعیت کے نہیں ہیں۔

ایران کے ساتھ مغربی ممالک کا 2015 میں جوہری معاہدہ ہوا تھا جس میں طے کی گئی شرائط پر اس نے مئی 2019 سے آہستہ آہستہ عمل کم کرنا شروع کر دیا تھا۔

ایران کے ساتھ ہونے والے 2015 کے اس معاہدے کو جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے جس کے تحت تہران نے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنا تھا اور اس کے بدلے میں ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی کی جانی تھی۔

ایران نے فروری 2021 میں اس معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عمل کرنا مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔ ایران کے اس اقدام کے بعد اس معاہدے کے تحت آئی اے ای اے جوہری پروگرام سے متعلق تصدیق اور نگرانی کی سرگرمیاں روک چکی ہے جس سے ایران کے اقدامات پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔




ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس فریق ہیں۔ صدر ٹرمپ کی صدارت کی پہلی مدت میں امریکہ اس معاہدے سے الگ ہو گیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بدھ کو ایک پرائیوٹ میٹنگ طلب کی گئی تاکہ ایران کے جوہری پروگرام کے لیے اقدامات پر تبادلۂ خیال کیا جا سکے۔

سلامتی کونسل کے ارکان یونان، پاناما اور جنوبی کوریا نے اس اجلاس کو طلب کرنے کی حمایت کی تھی۔

اقوامِ متحدہ میں برطانیہ کے نائب سفیر جیمز کاریوکی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ برطانیہ کو آئی اے ای اے کی ایران کی انتہائی افزودہ یورینیم کی پیداوار کے بارے میں تازہ رپورٹ پر شدید تشویش ہے۔

جیمز کاریوکی کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ سامنے آئی والی رپورٹ میں آئی اے ای اے کے ڈی جی نے کہا ہے کہ ایران اب تک 60 فی صد تک افزودہ 275 کلو گرام یورینیم بنا چکا ہے۔

یہ یورینیم سویلین استعمال کے لیے درکار مقدار سے کہیں زیادہ ہے جب کہ کسی اور غیر جوہری ملک کے پاس اس مقدار میں اتنی یورینیم نہیں ہے۔

نائب سفیر کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے ضروری سفارتی اقدامات کرے گا جن میں اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کا نفاذ شامل ہے۔




تہران سے کیے گئے معاہدے کے تحت اگر ایران وعدوں پر عمل در آمد نہیں کرتا تو اقوامِ متحدہ کی پابندیاں ایک بار پھر اس پر لاگو کی جا سکتی ہیں۔

ایران کے ساتھ کے گئے معاہدے کی میعاد رواں برس اکتوبر میں ختم ہو رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ عالمی قوتوں کو ایران کے ساتھ بامعنی مذاکرات کا وقت کم ہے۔

سیکیورٹی کونسل کی اس پرائیوٹ میٹنگ میں ایران کے اقوامِ متحدہ میں سفیر نے شرکت کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایران کے اقوامِ متحدہ میں مشن نے اس اجلاس پر تنقید بھی کی۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ایران کے مشن کی جانب سے کہا گیا کہ امریکہ سلامتی کونسل کو ایران کے خلاف اقتصادی اقدامات بڑھانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ سلامتی کونسل کو اپنی ساکھ کے لیے اس خطرناک استعمال کو مسترد کرنا چاہیے۔




تہران کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر روس اور چین نے بھی دستخط کیے تھے۔ یہ دونوں ممالک ایران کے اتحادی ہیں۔

چین کے اقوامِ متحدہ میں سفیر فو کانگ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جوہری مسئلہ ویانا میں آئی اے ای اے میں نمٹایا جا رہا ہے جب کہ چین بدھ کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس کی حمایت نہیں کرتا۔

فو کانگ نے گفتگو میں امریکی انتظامیہ کو 2017 میں ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے دستبردار ہونے کی وجہ سے اسے خراب کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ معاہدے کی اکتوبر میں میعاد ختم ہونے سے پہلے ایک نیا معاہدہ ہو سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی مخصوص ملک پر زیادہ دباؤ ڈالنا اہداف کے حصول کا سبب نہیں بنے گا۔

چینی سفیر نے کہا کہ چین جمعے کو بیجنگ میں ایران اور روس کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرے گا تاکہ کسی ممکنہ معاہدے میں سہولت فراہم کرتے ہوئے صورت حال کو مستحکم کیا جا سکے۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: جوہری پروگرام ایران کے ساتھ سلامتی کونسل آئی اے ای اے یورینیم کی ہونے والے اس معاہدے میں ایران کر رہا ہے متحدہ کی کہ ایران میں کہا کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف

غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

غزہ(آئی پی ایس )اردن اور جرمنی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پلان کے تحت فلسطینی پولیس کی معاونت کے لیے متوقع بین الاقوامی فورس کو اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔

یہ نام نہاد بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی جبکہ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔

تاہم اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا، الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزر خارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نا صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے، جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے۔اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو اس وقت لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل بیرون ممالک کا ایجنڈا ہمارے خلاف کام کررہا ہے: مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کی سابق قیادت کا حکومتی وزرا اور فضل الرحمان سے ملاقاتوں کا فیصلہ شاہ محمود قریشی سے سابق رہنمائوں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی پاکستان کے بلال بن ثاقب دنیا کے بااثر ترین کرپٹو رہنما ئوں میں شامل اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • ایران اپنی جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا: صدر مسعود پزشکیان
  • ایران کا جوہری تنصیبات مزید طاقت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان
  • ایران اور امریکہ جوہری معاملے پر دوبارہ مذاکرات شروع کریں، بحرین
  • جوہری تنصیبات دوبارہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تعمیر کریں گے، ایرانی صدر کا اعلان
  • نیوکلیئر پروگرام پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں: ایران
  • جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
  • یورینیم افزودگی روکیں گےنہ میزائل پروگرام پر مذاکرات کریں گے: ایران کا دوٹوک جواب
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا
  • غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
  • جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں ،ایران