آئی ایم ایف کا پاکستان پر ریونیو بڑھانے اور اخراجات کم کرنے پر زور
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر ریونیو بڑھانے اور اخراجات کم کرنے پر زور دیا ہے جبکہ پاکستان کی معاشی ٹیم کی جانب سے آئی ایم ایف جائزہ مشن کو بتایا گیا کہ اگلے مالی سال ٹیکس ریونیو کا ہدف 15 ہزار ارب روپے سے زیادہ رکھنے کی تجویز ہے، جبکہ اگلے مالی سال ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بڑھ کر 13 فیصد تک جا سکتی ہے، نان ٹیکس ریونیو کی مد میں اگلے مالی سال 2745 ارب جمع ہونے کا تخمینہ ہے
وزارت خزانہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اقتصادی جائزے کے بارے میں پالیسی سطح کے مذاکرات حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اور آئی ایم ایف جائزہ مشن کے ساتھ اگلے ایک سے دو دن میں مذژاکرات مکمل ہوجائیں گے جس کے بعد توقع ہے کہ آئی ایم ایف جائزہ مشن کی جانب سے ابتدائی اسٹیٹمنٹ جاری کی جائے گی۔
وزارت خزانہ ذرائع کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان موجودہ مالی سال کی کارکردگی اور اگلے مالی سال کے اہداف پر مشاورت ہو رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو رائٹ سائزنگ اقدامات کے تحت خزانے پر بوجھ کم کرنے پر بریفنگ دی گئی جبکہ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام پر ریونیو بڑھانے اور اخراجات کم کرنے پر زور دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف حکام کو بریفنگ میں آگاہ کیا گیا ہے کہ اگلے مالی سال2025-26 میں پاکستان کی معاشی شرح نمو بڑھ کر 4 فیصد سے تجاوز کر جانے جبکہ رواں مالی سال معاشی گروتھ ساڑھے 3 فیصد تک محدود رہنے کا امکان ہے، اگلے سال بھی مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجیٹ تک محدود رہنے کا امکان ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ کہ پاکستان کو بیرونی مالی ضروریات کیلئے 20 ارب ڈالر سے زیادہ درکار ہوں گے، اگلے سال بھی دوست ممالک سے ڈپازٹس رول اوور کرائے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق بریفنگ میں رائٹ سائزنگ اقدامات کے تحت سرکاری خزانے پر مزید بوجھ کم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف کہنا ہے کہ ذرائع کا
پڑھیں:
دریائے نیلم اور جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، ذرائع
دریائے نیلم اور دریائے جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، دریائے نیلم آزاد کشمیر میں ٹاؤ بٹ پر بھی پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دریائے جہلم پر اڑی ون 480 میگا واٹ پراجیکٹ سے بھی پانی کا اخراج معمول کے مطابق ہے، اڑی ٹو 240 میگا واٹ پروجیکٹ سے پانی کا اخراج معمول کے مطابق جاری ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں (Indus Water Treaty ) سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960 کو عمل میں آیا تھا۔
پاکستان نے بھارتی پروازوں کیلئے فضائی حدود ایک ماہ کیلئے بند کردیپاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی پروازوں کو 2 گھنٹوں کا اضافی وقت درکار ہوگا، بھارت کیلئے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کو بھی لاکھوں ڈالر یومیہ کا نقصان ہوگا۔
اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان، مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا، بھارت یکطرفہ معاہدہ معطل یا ختم نہیں کر سکتا، تبدیلی کیلئے رضامندی ضرور ی ،پاکستان ثالثی عدالت جانےکاحق رکھتا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کردیا ہے کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کسی بھی غلط قدم کے خلاف مکمل طور پر تیار ہے۔
پاکستان سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت بھارتی انڈس واٹر کمشنر سے رجوع کرنے پر غور کررہا ہے، معاہدہ معطل کرنے کی وجوہات جاننے کیلئے پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے بھارتی ہم منصب کو خط لکھے جانے کا امکان ہے، یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔
بھارت کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔ بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاؤ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، بھارت کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔