جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ کا سرغنہ افغانستان میں، پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مارچ 2025ء) پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے ضلع بولان میں جعفر ایکسپریس ٹرین کے ہائی جیکنگ کے بعد ملک میں دہشت گردی کی لعنت کے خلاف قومی اتحاد اور بات چیت پر زور دیا۔
جمعرات کو ہونے والے اعلیٰ سطحی سکیورٹی اجلاس میں شہباز شریف نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کے ثابت قدم عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ غداری کے ذریعے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کسی بھی کوشش کا ریاست کی پوری طاقت سے مقابلہ کیا جائے گا۔
قبل ازیں وہ کوئٹہ پہنچے جہاں وفاقی وزراء اور دیگر حکام کے ہمراہ سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا۔جعفر ایکسپریس پر قبضہ ختم، تمام حملہ آور مارے گئے، سکیورٹی ذرائع
وزیر اعظم شہباز نے پاکستان کی تمام سیاسی قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کو درپیش چیلنجز پر بات کرنے کے لیے عسکری قیادت کے ساتھ مل بیٹھیں۔
(جاری ہے)
"ایک چیلنج، میری نظر میں، یہ ہے کہ اس (واقعہ) پر مکمل اتحاد ہونا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے، ایک خلاء ہے۔
"ان کا یہ تبصرہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے اس بیان کے چند گھنٹے بعد آیا، جس میں کہا گیا کہ ٹرین پر حملے کی منصوبہ بندی کے لیے افغان سرزمین استعمال کی گئی۔
پاکستان ٹرین حملہ: جعفر ایکسپریس سے پچیس لاشیں نکال لی گئیں
کالعدم علیحدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری لی ہے۔ فوج کے مطابق ایک آپریشن میں 33 باغی مارے گئے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے حملے کے بعد آپریشن کے حوالے سے بتایا کہ تمام '33 دہشت گردوں‘ کو مار دیا گیا ہے جبکہ ان کے مطابق دو روز میں آپریشن کے دوران کل چار سکیورٹی اہلکار جان سے چلے گئے۔
پاکستان دفتر خارجہ کا دعویٰپاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے ماسٹر مائنڈ افغانستان میں ہیں اور یہ معاملہ سفارتی سطح پر کابل کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
شفقت علی خان نے بتایا، "جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے میں ملوث لوگ ملک کے باہر سے آپریٹ کر رہے تھے۔ دہشت گرد افغانستان میں ماسٹر مائنڈ سے رابطے میں تھے۔ جعفر ایکسپریس حملہ بہت بڑی کارروائی تھی۔"
انہوں نے کہا،"افغانستان کے ساتھ معاملہ ابھی سفارتی سطح پر نہیں اٹھایا گیا ہے لیکن ہم مرحلہ وار آگے بڑھیں گے۔
ابھی یہ بتانا مناسب نہیں کہ اس بارے میں سفارتی سطح پر کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں۔"پاکستانی فوج نے بھی ایک بیان میں کہا کہ انٹیلیجنس یہ تصدیق کرتی ہے کہ حملہ افغانستان سے کام کرنے والے دہشت گرد سرغنہ کی ہدایت پر کی گئی اور دہشت گرد مسلسل اس کے رابطے میں تھے۔ فوج نے تاہم انٹیلیجنس کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔
کابل میں افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے پاکستانی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا، "ہمیں افسوس ہے اس واقعے میں بے گناہوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔
"پاکستان اس سے قبل بھی کہتا رہا ہے کہ عسکریت پسند افغانستان کی سرزمین پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں تاہم افغانستان اس کی تردید کرتا آیا ہے۔
ضلع کچھی میں سات مزدوروں کا اغوابلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے شوران سے مسلح افراد نے سات مزدوروں کو اغوا کرلیا ہے۔
کچھی کے ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ مغوی مزدور شوران کے مقام پر ایک ڈیم پر کام کررہے تھے۔
گذشتہ شب وہاں نامعلوم امسلح افراد آئے اور ایک ڈمپر گاڑی کو نذرآتش کرنے کے علاوہ کھدائی کرنے والی مشین سمیت دو گاڑیوں پر فائرنگ کرکے ان کو نقصان پہنچایا۔پولیس افسر کا کہنا تھا کہ اغوا کار فرار ہوتے ہوئے ڈیم پر کام کرنے والے سات مزدوروں کو اغوا کر کے لے گئے۔
خیال رہے کہ تین روز قبل ضلع کچھی کے علاقے بولان میں ہی مسلح افراد نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین پر حملہ کرکے اس کے مسافروں کو یرغمال بنایا تھا۔
ایک دیگر واقعے میں جنوبی وزیرستان کے جنڈولہ میں سکیورٹی فورسز نے دس شدت پسندوں کی ہلاکت کا دعوی کیا ہے۔
آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ شدت پسندوں نے جنڈولہ میں سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں جوابی کارروائی میں فورسز نے دس شدت پسندوں، جن میں خودکش حملہ آور بھی شامل تھے، کو ہلاک کر دیا۔
ج ا ⁄ ص ز (اے پی، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جعفر ایکسپریس کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان استنبول میں امن مذاکرات کا دوبارہ آغاز کرنے پر متفق
— فائل فوٹوافغانستان اور پاکستان نے استنبول میں 6 نومبر سے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے اور جنگ بندی قائم رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
ترکیہ کی وزارتِ خارجہ کے جمعرات کو جاری کیے بیان کے مطابق تمام متعلقہ فریقین نے جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ اب جنگ بندی کے نفاذ کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے گا اور حتمی فیصلہ 6 نومبر 2025ء کو استنبول میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا جائے گا۔
افغان اور پاکستانی حکام کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات کئی روز جاری رہے، جن کی ثالثی انقرہ اور دوحہ نے کی۔
پاکستان اور افغانستان نے مذاکرات کے اختتام پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا اور اس بات کی تصدیق افغانستان کی عبوری انتظامیہ کے ترجمان ذبیح اللّٰہ مجاہد نے بھی کی۔
یاد رہے کہ چند روز قبل دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی ہلاکت خیز جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان مذاکرات دوحہ میں منعقد ہوئے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں یہ بات چیت ایک جنگ بندی کے نفاذ پر منتج ہوئی اور اب بھی جاری ہے۔
استنبول میں ہونے والی حالیہ ملاقات کا مقصد پائیدار امن کے حصول کے لیے مزید پیش رفت کرنا تھا اور مذاکرات کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ پاکستان کی جانب سے کیا گیا جو قطر اور ترکیہ کی درخواست پر عمل میں آیا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستانی وفد، جو گزشتہ شب وطن واپس جانے والا تھا، اسے استنبول میں قیام کرنے کے لیے کہا گیا۔
پاکستان ہمیشہ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے دوران فرنٹ لائن ریاست رہا ہے اور اس نے تقریباً 4 ملین افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کی۔ تاہم، دہشت گرد گروہوں، خاص طور پر تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کی جانب سے پاکستان میں کیے جانے والے پُرتشدد حملوں نے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات میں شدید تناؤ پیدا کیا ہے۔
افغان طالبان 2021ء میں امریکی قیادت میں فورسز کے انخلا کے بعد کابل میں دوبارہ اقتدار میں آئے۔
پاکستانی عسکری حکام کے مطابق اس سال اب تک 500 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں 311 سے زائد فوجی شامل ہیں اور زیادہ تر حملے ٹی ٹی پی کی جانب سے کیے گئے ہیں۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پر ٹی ٹی پی کو پناہ دے رہا ہے جب کہ کابل اس الزام کو یکسر مسترد کرتا ہے۔
یہ پیشرفت نہ صرف خطے میں امن کی بحالی کے لیے اہم قدم ہے بلکہ اس بات کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان تاریخی تنازعات کے باوجود بھی مسائل کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ ترک نہیں کر رہے۔
استنبول میں ہونے والے یہ مذاکرات اس امید کی کرن ہیں کہ شاید اب دونوں ہمسایہ ممالک دیرپا امن اور استحکام کی طرف ایک قدم بڑھا سکیں۔