Daily Ausaf:
2025-04-25@03:22:20 GMT

بھیڑ بکریوں کی سلطنت

اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT

میں نے بھیڑ بکریوں سے سوال کیا ’’تمہاری راج دہانی کیسی ہے ؟‘‘ آوازوں کا ایک طوفان امڈ آیا،کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کون کیا کہہ رہا ہے ،اس بے ہنگم شور میں کوئی اندازہ بھی لگایا نہیں جاسکتا تھا کہ کان پڑنے والی کس بات کے کیا معنی لئے جائیں ۔ بے معنی لفظوں کی ایک جنگ تھی جس نے سماعت کو شل کردیا تھا ۔تاہم کچھ بھیڑ بکریاں ایسی بھی تھیں جنہوں نے فقط تھوتھنیاں لٹکائی ہوئی تھیں بول کچھ نہیں رہیں تھیں یوں جیسے بے سی اور بے کسی کی گہری چپ کی اسیر ہوں ،میں ان کی طرف لپکا اس احساس کے ساتھ کہ ان کی پیٹھ پر پیار بھرا ہاتھ پھیروں کا تو بپتا بول دیں گی ۔ایک ذرا لانبی چوڑی مگر دبلی پتلی غصیلی بھیڑ پر پہلا سوال کیا ،وہ جیسے بھری بیٹھی تھیں ۔وہ نر بھیڑ یعنی مینڈھا (عام سرائیکی زبان میں جسے گھٹا کہا جاتا ہے)تند لہجے میں بولا’’تم بے بس دھرتی کے واسی سے کیا بیان کروں جو خود بولنے کے دستور کی قدغن کی زنجیروں میں جکڑا ہے ،جو سچ کہنے پر قادر نہیں تو سچ سننے کی کیا سکت رکھتا ہوگا ؟‘‘
میں نے پل بھر کے لئے اپنے گریبان میں جھانکا ،ایک بالکل ہی بس بس انتہائی گئے گزرے حالات میں کسم پرسی کی حالت میں ضمیر کے قید خانے کا باسی ،مگر میں اس احساس سے عاری نہیں کہ سچ اور جھوٹ کے بیچ فرق سے نا آشنا ہوں،سو اس سے اس کی کتھا گت جاننے پر مصر ہوا ،اس نیبصد مشکل کہاکہ ’’میں اس راج دھانی کا راجا تھا ،ایک خود سر اور خود نگر ،اپنے آپ کو عقل کل گردانتا تھا ،ہر پل بھاشن دینے کو تیار ،کسی ،وزیر مشیر کی بات سننے سے عاری ،ہاں اگر کسی کی آواز میرے کان میں پڑ بھی جاتی تو دوسرے کان سے نکال دیتا تھا۔ میں کچھ عزائم لے کرآیا تھا ،میں سمجھتا تھا میں خودمختار حاکم ہوں گا مکرمیرے اوپر کچھ اور اختیار والے تھے جو اپنی بات منواتے جو مجھے ناگوار گزرتا مگر مجھے آہستہ آہستہ خو د کو اپنے سے اوپر والوں کی بات سننے ہی نہیں اس پر عمل کرنے کی عادت پڑگئی،مگر میرا اندر مجھے کوسٹا رہتا ،تب میں غصے میں اپنے وجود کے درودیوار سے سر پٹخنے لگتا اور پھر ایک روز میری زور کی ٹکر نے میرا اپنا سب کچھ پاش پاش کرکے رکھ دیا‘‘ پھر انجانے میں ایک کونے میں سرنیوہڑائی ایک بھیڑکی طرف اشارہ کیا ۔وہ بھی ایک نربھیڑ تھی مگر گر کسی کرانک مرض کی وجہ سے اس کی ساری صلاحیتیں معدوم و مفقود ہوچکی تھیں اور وہ روہنے سے منہ سے ایک ہی سمت کو تکے جارہی تھی ،اس نے دور ہی سے اشارہ کیا کہ میری طرف مت آنا ،میں نے اس کے اردگرد مٹھی چانپی پر مامور ایک کو اپنی اور بلا کر کچھ پوچھنے پر اصرار کیا تو بصد مشکل اس نے بتایا کہ ’’یہ ہمارا سابق راجہ ہے جسے کہ غم لاحق ہے کہ اسے اس کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا حالانکہ اس کی اپنی غلطی زیادہ تھی کہ اس نے قومی خزانے کو ہم سب پر ایسے قربان کرنا شروع کردیا تھا جیسے اس کے باپ کی جاگیر ہو،اور ملکوں ملکوں خود بھی جاگیریں بنائیں اتنی کہ لگتا تھا یہ اپنا سنگھاسن بھی بیچ کھائے گا اور خود کوئی بستی جابسائے گا‘‘مجھے گھن سی آنے لگی ،میں ایک بڑے سینگوں والی بھیڑ کی جانب بڑھا وہ بھی اتفاق سے نربھیڑ ہی نکلا ۔وہ تو میری بات سننے کو تیار نہیں تھا ،بہت منت سماجت کے بعد کچھ سننے سنانے پر آمادہ ہوا تو راز طشت ازبام ہوا کہ وہ بھیڑوں کی سلطنت کا سب سے بڑا منصف تھا ،وہ کسی بڑے کی بات ٹالتا ہی نہیں تھا کہ آس میں ضمیر نام کی کوئی شے نہیں تھی مگر پھر بھی اس پر سے یقین اٹھ گیا اور وہ بے یقینی کے ہاتھوں مارا گیا ۔
میں سوچ رہا تھا یہ سلطنت تو کوئی اپنی جیسی ہی سلطنت تھی جس کے سب ہی پردھانوں کی وہی کہانی ہے جو ہماری کہانی رہی ہے تو پھر مجھے اپنا قیمتی وقت بے وقعتی کی بھینٹ نہیں چڑھاناچاہیئے۔میں دیکھ رہا تھا ان میں سے ہر ایک کی نظریں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں، ان میں سے کچھ بھیڑیں تو استہزائیہ نگاہوں سے میری جانب دیکھ رہی تھیں اور کچھ استفہامیہ نظروں سے بھی ۔میں بھیڑوں کے اس ہجوم بے کراں سے باہر نکلنا شروع ہوا ،میں اس ریوڑ سے نکل کر باہر ہوا تو اندر سے بے ہنگم قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں ،میں حیران پریشان، مگر جب میں نے خود پر نظر ڈالی تو ہکہ بکا رہ گیا کہ میں خود بھی ایک بھیڑ کے روپ میں تھا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

رشتہ ایک سرد مہری کا

وہ کڑیل جوان اچانک پسینے سے شرابور، دل کی دھڑکن قابو سے باہر، گھر میں کہرام، بھاگم بھاگ اسپتال پہنچے۔ دوا دی گئی، کوئی اثر نہیں ہوا، دوسری دوا دی گئی۔ دھڑکن کچھ تھمی اور رگوں پر خون کا پریشر کچھ کم ہوا۔ لیکن یہ کیا، تھوڑی دیر بعد الٹیاں شروع ہوگئیں، تازہ تازہ خون سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ اور دواؤں کے پے در پے ادوار شاید زندگی پر چلنے والے کلہاڑے کے وار ثابت ہوئے۔

وہ کل جو اس وقت زندگی کے شور میں ہنس اور دوسروں کو ہنسا رہا تھا، آج سرد پڑا ہے۔ آنکھیں ٹنگی ہیں، ہر طرف خاموشی ہے۔ اس کا مردہ جسم شفا خانے میں رسمی کاروائی کا منتظر ہے۔ انسانی مشاہدات تو درکنار، ڈاکٹر یا نرس کے کہنے پر بھی اسپتال کے کاغذات اس بے جان جسم کو مردہ نہیں کہتے۔ دل کی بند دھڑکنوں کو مشینوں پر چیک کرکے روح کے نکل جانے کا اعلان باقی ہے۔ اس چیکنگ کی فیس اور لاکھوں کے تاوان ادا کرکے احساس کے قید خانے میں ضبط کی ہوئی لاش لے جائی جاسکتی ہے۔

کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا؟ کیا اس جوان کو بچایا جاسکتا تھا؟ معلومات اور خیالات کی زنجیر میں کیا کیا خلا ہیں۔ علم سے دانشمندی کی کشید میں کہاں کہاں آلودگی ہے، کہاں کہاں ملاوٹ ہے۔ اس سفر میں کہاں کہاں سیاہ دھبے ہیں، راستوں میں کہاں کہاں پر گھپ اندھیرا ہے۔ کہاں کہاں خندقیں بنائی گئی ہیں، کہاں کہاں گڑھے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پہلی دوا نے اثر نہیں کیا، کہیں دوا نے مہلک اثر تو نہیں کیا۔ راقم عہد وفا میں خاموش ہے۔

امریکا دنیا کا طاقتور ملک، سائنس کے افق پر حکومت کرنے والا ملک، جہاں سر توڑ کوشش کے باوجود سال 2024 میں 900 سے کم جنیرک ادویات استعمال کےلیے منظور ہوئیں۔ وہاں ادویات کے لیبل پر لکھے گئے وعدوں کی نگہبانی حکومت کے ادارے کرتے ہیں۔ دواؤں سے منسلک دعووں کو پرکھنے کےلیے ہزاروں پیشہ ور افراد مامور ہوتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ 2024 میں کسی آزاد وطن میں 15000 سے زائد جنیرک ادویات رجسٹرڈ کی گئیں۔ ان میں سے ایک بھی ترقی یافتہ ملک میں منظور نہیں ہوئیں۔ نہ ہی کسی نے منظوری کی درخواست جمع کرانے کی ہمت کی اور نہ ہی کسی دنیا کے ضامنوں نے اس قابل سمجھا کہ ان تک پہنچے۔

ترتیب پانے والی غیبی آواز سے بے اعتنائی کا حوصلہ نہیں۔ اس دشت کی سیاحی میں زندگی گزر گئی، اپنے مسقبل سے بے نیاز ہمارے خیالات میں جارحانہ پن حاوی رہا اور انصاف کی پیروی میں لوٹ مار کے خلاف ہمارے خواب صف آرا ہی رہے۔ ہر طرف خاموشی ہے، سناٹا ہے، گم صم ہیں۔ میسنے اور گھنے کا ہجوم ہے۔ سچ کہنے پر دشمنی پر اتر آتے ہیں، کردار کشی کرنے کےلیے محاذ بناتے ہیں۔ مجرے کراتے ہیں، پیسے لٹاتے ہیں، کوئی نہیں کہتا کہ ادویات اگر ناقص ہوں تو کسی کی روح ایسے نکلتی ہے جیسے سڑک پر آوارہ کتے کی لاش تڑپ رہی ہو اور گاڑیوں میں موسیقی کی دھن اور اپنی دھن میں مست رواں دواں۔ دواؤں کی اور جنیرک دواؤں کی بھرمار، مگر جان کی قیمت کون پوچھے؟

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
  • اولاد کی تعلیم و تربیت
  • سابق آسٹریلوی کرکٹر کیتھ اسٹیک پول دنیا سے رخصت
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • کوچۂ سخن
  • رشتہ ایک سرد مہری کا
  • کوہ قاف میں چند روز
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • تین سنہرے اصول
  • ’اداکارہ نہیں بننا چاہتی تھی‘، خوشبو خان اس فیلڈ میں پھر کیسے آئیں؟