(گزشتہ سے پیوستہ)
پاکستان میں زراعت میں پانی کا استعمال 90فیصد سے زائد ہے، لیکن روایتی آبپاشی کے طریقے انتہائی غیر موثر ہیں۔ (ڈرپ ایریگیشن اور سپرنکلر سسٹمز) جدید ڈرپ اور چھڑکاؤ آبپاشی متعارف کروا کر پانی کے استعمال میں 50فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ اسرائیل جیسے ممالک نے اسی طریقے سے صحرا کو سرسبز بنایا ہے۔
تقریباً 40فیصد نہری پانی غیر ضروری لیکج، غیر قانونی نکاسی اور ناقص دیکھ بھال کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر نہروں کی مرمت اور جدید نظام متعارف کروایا جائے تو اس نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔یعنی نہروں کو کنکریٹ سے لائن کرنے اور اسمارٹ میٹرز نصب کرنے سے ضائع ہونے والے پانی کو بچایا جا سکتا ہے۔
ٹیوب ویلوں کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے، جو طویل مدتی خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے لئے مؤثر پالیسی اور نگرانی کی ضرورت ہے۔
ایک خودمختار قومی ادارہ قائم کیا جائے جو صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اور استعمال کی نگرانی کے لئے واٹر گورننس کا جدید نظام تیار کرے اور اس کے لئے ہمارے پاس قابل ترین ماہرین کی وافر تعداد موجود ہے۔ میں امسال کے آغاز میں کانفرنس کے سلسلے میں امریکا میں موجود تھا جہاں میری ایسی پاکستانی ماہرین اور سائنسدانوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے امریکا کے صحرائی علاقوں کو بہترین زرعی فارمز میں تبدیل کرکے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ ملک کا وہ قیمتی سرمایہ ہیں جو یہاں بیوروکریسی کی نااہلی اور زیادتی کی بنا پر اپنے تجربے سے دوسرے کئی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔
سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ڈی سیلینیشن پلانٹس لگا کر سمندری پانی کو قابل استعمال بنا کر ایسے متبادل ذرائع فراہم کئے جا سکتے ہیں جو پانی کی شدید قلت اور زراعت کے لئے مطلوبہ پانی فراہم کیا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف بلوچستان کی لاکھوں ایکڑ زمین نہ صرف زراعت کے قابل بنائی جا سکتی ہے بلکہ ان علاقوں کی غربت و پسمنادگی کو ختم کیا جا سکتا ہے اور ملک کے لئے بے شمار زرِ مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔۔
پانی کی غیر منصفانہ سبسڈی اس کے بے دریغ استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ بڑے زرعی اور صنعتی یونٹس کے لئے مناسب فیس مقرر کی جانی چاہیے تاکہ پانی کا استعمال اعتدال میں رکھا جا سکے اور پانی کے ضیاع پر بھی قابو پایا جا سکے۔
پاکستان میں پانی کے ذخیرے کے منصوبے اکثر سیاسی اختلافات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گریٹر تھل کینال اور دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبے کئی سالوں سے تاخیر کا شکار ہیں، جس سے ملک کی آبی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں۔ جب تک پانی کے منصوبوں کو سیاست سے الگ کر کے قومی مفاد میں فیصلے نہیں کیے جاتے، اس بحران کو حل کرنا مشکل ہوگا۔
پاکستان کو پانی کے بحران سے بچانے کے لئے فوری طور پرمستقبل کی حکمت عملی کو انقلابی انداز میں نافذ کرنے کے لئے درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے۔
سب سے پہلے نئے آبی ذخائر کی تعمیر پر عملدر آمد کرتے ہوئے دیامر بھاشا، مہمند اور کالاباغ جیسے ڈیموں کی تعمیر کو تیز کیا جائے۔
زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا نفاذ کرتے ہوئے ڈرپ ایریگیشن اور جدید آبپاشی نظام متعارف کرائے جائیں تاکہ پانی کا استعمال کم ہو۔
پانی کے بہتر انتظامات کے لئے شفاف نگرانی اور بین الصوبائی تعاون کو فروغ دے کر پانی کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائی جائے۔
کراچی جیسے شہروں میں متبادل ذرائع پر توجہ دیتے ہوئے ڈی سیلینیشن پلانٹس لگا کر سمندری پانی کو قابلِ استعمال بنایا جائے تاکہ اہالیانِ کراچی کو واٹر ٹینک مافیا کے روزانہ کروڑوں روپے کی لوٹ مار سے محفوظ کیا جا سکے۔
کراچی بھر میں بڑے صارفین (انڈسٹریل زونز)کے لئے پانی کی مناسب قیمت مقرر کر کے پانی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے جس سے ملکی صنعتوں کا پہیہ چلنے سے ملکی برآمدات میں جہاں اضافہ ہو گا وہاں ہم غیر ملکی قرضوں سے بھی نجات حاصل کر سکیں گے۔
یاد رکھیں کہ پاکستان اس وقت پانی کے ایک سنگین بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ چولستان کینال کا تنازعہ نہ صرف اس بڑے مسئلے کی ایک جھلک پیش کرتا ہے بلکہ پاکستان کے لئے ایک وارننگ ہے جو مستقبل میں مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اگر 1991ء کے معاہدے کی شق 6 کے تحت اقدامات کیے جاتے تو آج پاکستان کو ان تنازعات کا سامنا نہ ہوتا۔
اگر ملک نے پانی کے تحفظ، ذخیرہ اور جدید انتظام پر فوری توجہ نہ دی تو آنے والے سالوں میں صوبائی تنازعات شدت اختیار کر جائیں گے، زراعت تباہ ہو گی، اور شہری آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی مشکل ہو جائے گی۔ 1991ء کے معاہدے کی روح کو زندہ کرتے ہوئے، اب وقت ہے کہ سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد میں فیصلے کیے جائیں۔ ورنہ پانی کا یہ بحران پاکستان کی معیشت، سماجی استحکام اور وجودی سالمیت کے لئے ایک ناقابلِ تلافی خطرہ بن جائے گا۔ فوری اور مؤثر اقدامات کے بغیر، پانی کی قلت، زراعت کی تباہی اور بین الصوبائی تنازعات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔۔ وقت کم ہے اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو پانی کے وجودی بحران سے بچایا جا سکے۔
یاد رکھیں کہ پانی ہی زندگی ہے۔ اسے ضائع کرنے کا مطلب اپنی نسلوں کو تاریکی کی طرف دھکیلنا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جا سکتا ہے پانی کی پانی کا پانی کے کیا جا کے لئے جا سکے
پڑھیں:
میٹا کا انسٹاگرام صارفین کی عمر کی تصدیق کیلئے اے آئی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا اعلان
میٹا نے انسٹاگرام پر صارفین کی عمر کی تصدیق کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے، یہ اے آئی ٹول صارفین کی اصل عمر کا تعین کرے گا خواہ وہ غلط معلومات ہی کیوں نہ فراہم کریں۔اگر کوئی صارف اپنی عمر کے بارے میں غلط بیانی کرتا ہے تو اے آئی ٹیکنالوجی اس کی اصلی عمر معلوم کر کے 18 سال سے کم عمر صارفین کو خودکار طور پر “ٹین” اکاؤنٹس میں منتقل کر دے گی۔
یہ ٹین اکاؤنٹس جو ستمبر 2024 میں متعارف کرائے گئے 13 سے 17 سال کے نوجوانوں کے لیے ہیں اور ان پر نوجوانوں کے تحفظ کے لیے مخصوص پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔میٹا نے اپنی بلاگ پوسٹ میں بتایا کہ اگر کسی اکاؤنٹ کے کم عمر ہونے کا شبہ ہو تو فوری طور پر عمر کی تصدیق کی جائے گی اور اسے محدود سیٹنگز والے اکاؤنٹ میں منتقل کر دیا جائے گا۔
کمپنی نے تسلیم کیا کہ یہ سسٹم غلطیاں کر سکتا ہے لیکن صارفین ضرورت پڑنے پر سیٹنگز کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں۔میٹا کے مطابق کمپنی کچھ عرصے سے عمر کی تصدیق کے لیے اے آئی ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہے لیکن اب اس میں نمایاں بہتری لا رہی ہے۔پہلے کوئی ایسا طریقہ موجود نہیں تھا جس سے صارفین کی اصل عمر کا درست تعین کیا جا سکے۔
کمپنی نے کہا کہ آن لائن صارفین کی عمر جاننا ایک بڑا چیلنج ہے اور وہ نوجوانوں کے تحفظ اور ان کے لیے بہتر تجربہ یقینی بنانے کے لیے مسلسل اقدامات کر رہی ہے۔اس فیچر کی ابتدائی آزمائش سب سے پہلے امریکا میں کی جائے گی۔