Daily Ausaf:
2025-06-09@21:33:26 GMT

پانی ہی زندگی ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
پاکستان میں زراعت میں پانی کا استعمال 90فیصد سے زائد ہے، لیکن روایتی آبپاشی کے طریقے انتہائی غیر موثر ہیں۔ (ڈرپ ایریگیشن اور سپرنکلر سسٹمز) جدید ڈرپ اور چھڑکاؤ آبپاشی متعارف کروا کر پانی کے استعمال میں 50فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ اسرائیل جیسے ممالک نے اسی طریقے سے صحرا کو سرسبز بنایا ہے۔
تقریباً 40فیصد نہری پانی غیر ضروری لیکج، غیر قانونی نکاسی اور ناقص دیکھ بھال کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر نہروں کی مرمت اور جدید نظام متعارف کروایا جائے تو اس نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔یعنی نہروں کو کنکریٹ سے لائن کرنے اور اسمارٹ میٹرز نصب کرنے سے ضائع ہونے والے پانی کو بچایا جا سکتا ہے۔
ٹیوب ویلوں کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے، جو طویل مدتی خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے لئے مؤثر پالیسی اور نگرانی کی ضرورت ہے۔
ایک خودمختار قومی ادارہ قائم کیا جائے جو صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اور استعمال کی نگرانی کے لئے واٹر گورننس کا جدید نظام تیار کرے اور اس کے لئے ہمارے پاس قابل ترین ماہرین کی وافر تعداد موجود ہے۔ میں امسال کے آغاز میں کانفرنس کے سلسلے میں امریکا میں موجود تھا جہاں میری ایسی پاکستانی ماہرین اور سائنسدانوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے امریکا کے صحرائی علاقوں کو بہترین زرعی فارمز میں تبدیل کرکے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ ملک کا وہ قیمتی سرمایہ ہیں جو یہاں بیوروکریسی کی نااہلی اور زیادتی کی بنا پر اپنے تجربے سے دوسرے کئی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔
سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ڈی سیلینیشن پلانٹس لگا کر سمندری پانی کو قابل استعمال بنا کر ایسے متبادل ذرائع فراہم کئے جا سکتے ہیں جو پانی کی شدید قلت اور زراعت کے لئے مطلوبہ پانی فراہم کیا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف بلوچستان کی لاکھوں ایکڑ زمین نہ صرف زراعت کے قابل بنائی جا سکتی ہے بلکہ ان علاقوں کی غربت و پسمنادگی کو ختم کیا جا سکتا ہے اور ملک کے لئے بے شمار زرِ مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔۔
پانی کی غیر منصفانہ سبسڈی اس کے بے دریغ استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ بڑے زرعی اور صنعتی یونٹس کے لئے مناسب فیس مقرر کی جانی چاہیے تاکہ پانی کا استعمال اعتدال میں رکھا جا سکے اور پانی کے ضیاع پر بھی قابو پایا جا سکے۔
پاکستان میں پانی کے ذخیرے کے منصوبے اکثر سیاسی اختلافات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گریٹر تھل کینال اور دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبے کئی سالوں سے تاخیر کا شکار ہیں، جس سے ملک کی آبی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں۔ جب تک پانی کے منصوبوں کو سیاست سے الگ کر کے قومی مفاد میں فیصلے نہیں کیے جاتے، اس بحران کو حل کرنا مشکل ہوگا۔
پاکستان کو پانی کے بحران سے بچانے کے لئے فوری طور پرمستقبل کی حکمت عملی کو انقلابی انداز میں نافذ کرنے کے لئے درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے۔
سب سے پہلے نئے آبی ذخائر کی تعمیر پر عملدر آمد کرتے ہوئے دیامر بھاشا، مہمند اور کالاباغ جیسے ڈیموں کی تعمیر کو تیز کیا جائے۔
زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا نفاذ کرتے ہوئے ڈرپ ایریگیشن اور جدید آبپاشی نظام متعارف کرائے جائیں تاکہ پانی کا استعمال کم ہو۔
پانی کے بہتر انتظامات کے لئے شفاف نگرانی اور بین الصوبائی تعاون کو فروغ دے کر پانی کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائی جائے۔
کراچی جیسے شہروں میں متبادل ذرائع پر توجہ دیتے ہوئے ڈی سیلینیشن پلانٹس لگا کر سمندری پانی کو قابلِ استعمال بنایا جائے تاکہ اہالیانِ کراچی کو واٹر ٹینک مافیا کے روزانہ کروڑوں روپے کی لوٹ مار سے محفوظ کیا جا سکے۔
کراچی بھر میں بڑے صارفین (انڈسٹریل زونز)کے لئے پانی کی مناسب قیمت مقرر کر کے پانی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے جس سے ملکی صنعتوں کا پہیہ چلنے سے ملکی برآمدات میں جہاں اضافہ ہو گا وہاں ہم غیر ملکی قرضوں سے بھی نجات حاصل کر سکیں گے۔
یاد رکھیں کہ پاکستان اس وقت پانی کے ایک سنگین بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ چولستان کینال کا تنازعہ نہ صرف اس بڑے مسئلے کی ایک جھلک پیش کرتا ہے بلکہ پاکستان کے لئے ایک وارننگ ہے جو مستقبل میں مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اگر 1991ء کے معاہدے کی شق 6 کے تحت اقدامات کیے جاتے تو آج پاکستان کو ان تنازعات کا سامنا نہ ہوتا۔
اگر ملک نے پانی کے تحفظ، ذخیرہ اور جدید انتظام پر فوری توجہ نہ دی تو آنے والے سالوں میں صوبائی تنازعات شدت اختیار کر جائیں گے، زراعت تباہ ہو گی، اور شہری آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی مشکل ہو جائے گی۔ 1991ء کے معاہدے کی روح کو زندہ کرتے ہوئے، اب وقت ہے کہ سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد میں فیصلے کیے جائیں۔ ورنہ پانی کا یہ بحران پاکستان کی معیشت، سماجی استحکام اور وجودی سالمیت کے لئے ایک ناقابلِ تلافی خطرہ بن جائے گا۔ فوری اور مؤثر اقدامات کے بغیر، پانی کی قلت، زراعت کی تباہی اور بین الصوبائی تنازعات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔۔ وقت کم ہے اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو پانی کے وجودی بحران سے بچایا جا سکے۔
یاد رکھیں کہ پانی ہی زندگی ہے۔ اسے ضائع کرنے کا مطلب اپنی نسلوں کو تاریکی کی طرف دھکیلنا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جا سکتا ہے پانی کی پانی کا پانی کے کیا جا کے لئے جا سکے

پڑھیں:

عید پر گوشت کا استعمال اور صحت کا خیال کیسے رکھا جائے؟

عید الاضحیٰ خوشیوں اور قربانی کے جذبے کے ساتھ ساتھ، طرح طرح کے پکوانوں اور گوشت سے بھرپور ضیافتوں کا تہوار بھی ہے۔ تاہم، اس موقع پر گوشت کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے انسانی صحت کو لاحق مسائل بھی ہر سال سر اٹھاتے ہیں۔ قربانی کے گوشت سے بھرے دسترخوان، چٹ پٹے پکوان اور بار بار کھانے کی دعوتیں، سب کچھ بظاہر خوشگوار لگتا ہے، مگر کیا ہم اپنی صحت کا بھی اتنا ہی خیال رکھتے ہیں جتنا ذائقے کا؟

عید کے ان پُرمسرت لمحات میں اکثر لوگ پیٹ کی تکالیف، ہاضمے کی خرابی اور دیگر مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن یہ سب کچھ قابلِ پرہیز اور قابلِ احتیاط ہے، تو آئیے ماہرین سے جانتے ہیں کہ کتنا اور کیسے گوشت کا استعمال زیادہ بہتر ہے؟

اسلام آباد کے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے وابستہ گیسٹرو اینٹرولوجسٹ ڈاکٹر حیدر عباسی کے مطابق ہر سال عید کے پہلے دن یا اگلے دن ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹس میں مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافہ دیکھا جاتا ہے کیونکہ زیادہ گوشت کھانے سے پیٹ میں تکلیف، قے، اسہال اور بلڈ پریشر میں اضافہ جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عیدالاضحیٰ: بلند قیمتوں کے باوجود ڈیپ فریزر کی فروخت میں اضافہ

ڈاکٹر حیدر عباسی نے بتایا کہ ہر فرد کو ایک محدود مقدار میں روزانہ گوشت کھانا چاہیے اور عید کے دنوں میں بھی گوشت اتنا ہی کھانا چاہیے، جس حساب سے ہم سارا سال گوشت کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر معمول کے مطابق گوشت کا استعمال کیا جائے تو انسانی جسم اس کا پہلے سے عادی ہوگا۔

’یہی وجہ ہے کہ نظام انہضام کو اسے ہضم کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ گوشت کی زیادہ مقدار نہ صرف ہاضمے پر بوجھ ڈالتی ہے بلکہ بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بھی بڑھا سکتی ہے۔‘

راولپنڈی میں واقع ہولی فیملی اسپتال کے میڈیکل اسپیشلسٹ ڈاکٹر فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ عید کے دوران گوشت کی زیادتی سے معدے کی بیماریاں، متلی، اسہال اور بلڈ پریشر میں اضافہ ہو سکتا ہے، عوام کلیجی، دل، گردے جیسے اعضا کی مقدار بھی بہت زیادہ بڑھا دیتے ہیں جبکہ اسے بھی محدود رکھنا چاہیے کیونکہ ان میں یورک ایسڈ اور کولیسٹرول زیادہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: افغان ‘چائینکی گوشت’ کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟

’صرف گوشت کھانے کے بجائے اسے سبزیوں، دالوں، سلاد اور دہی کے ساتھ کھائیں تاکہ فائبر اور ہاضمے میں مدد دینے والے اجزا بھی شامل ہوں، اس کے علاوہ کھانے میں لیموں، ادرک، پودینہ جیسے قدرتی اجزا شامل کرنا ہاضمے کو بہتر بناتا ہے۔‘

ماہر غذائیت ڈاکٹر آمنہ فرحان کا کہنا ہے کہ ہر انسان کو مکمل غذائیت سے بھرپور بیلنس ڈائیٹ کا استعمال کرنا چاہیے، چاہے کوئی تہوار ہو یا پھر کسی بھی قسم کا کوئی ایسا موقع جب مرغن کھانوں کی تعداد میز پر زیادہ ہو۔ ’صحت مند زندگی کا یہی اصول ہے، کسی بھی چیز کی زیادتی یا کمی دونوں انسانی جسم کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔‘

ڈاکتر آمنہ فرحان کے مطابق عید الاضحیٰ پر ہمارے ہاں یہ بہت ہی عام بات ہے کہ لوگ گوشت کا استعمال اتنا زیادہ بڑھا دیتے ہیں کہ ان کا پورا نظام ہی درہم برہم ہوجاتا ہے، اس لیے چند چیزوں کا دھیان رکھنا بہت ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:کیا کافی عرصہ چھوڑ دینے کے بعد گوشت دوبارہ کھانا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟

روزانہ گوشت کی مقدار: ایک صحت مند فرد کو روزانہ 60 سے 100 گرام گوشت کی ضرورت ہوتی ہے، یہ مقدار تقریباً 143 کیلوریز، 3 سے 5 گرام چکنائی، 26 گرام پروٹین اور ضروری وٹامنز اور معدنیات فراہم کرتی ہے۔

گوشت کی اقسام: بڑی عمر کے جانوروں کا گوشت زیادہ چکنائی اور کولیسٹرول پر مشتمل ہوتا ہے، جو دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔

پکانے کے طریقے: تلنے کے بجائے گوشت کو اُبالنا، بھوننا یا بھاپ میں پکانا صحت مند طریقہ ہے، جس سے غیر صحت بخش چکنائی کی مقدار کم ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب: حج کے بعد کی گئی قربانی کا گوشت کہاں جاتا ہے؟

 سبزیوں اور سلاد کا استعمال: گوشت کے ساتھ سبزیوں، سلاد اور دہی کا استعمال ہاضمہ بہتر بناتا ہے اور جسم کو ضروری فائبر فراہم کرتا ہے۔

پانی کی مقدار: عید کے دوران پانی کا استعمال بڑھانا چاہیے تاکہ جسم ہائیڈریٹڈ رہے اور ہاضمہ بہتر ہو۔

سافٹ ڈرنکس اور کولڈ ڈرنکس: تمام سافٹ اور کولڈ ڈرنکس سے پرہیز کریں کیونکہ یہ وقتی تسکین تو دیتے ہیں لیکن ہائی شوگر کونٹینٹ رکھنے کی وجہ سے ہاضمے کے مسائل کو بڑھانے کا باعث بن سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ادرک اسہال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پودینہ ڈاکٹر آمنہ فرحان ڈاکٹر حیدر عباسی ڈاکٹر فضل الرحمان عید الاضحی فائبر کولیسٹرول گوشت گیسٹرو اینٹرولوجسٹ لیموں ماہر غذائیت نظام انہضام ہائی بلڈ پریشر ہاضمے ہولی فیملی اسپتال

متعلقہ مضامین

  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلان جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • زراعت میں پیچھے رہنے سے شرح نمو کا ہدف حاصل نہ ہو سکا: عارف حبیب
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلانِ جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • پاکستان میں قابل استعمال پانی کے ذخائر نیچے جانے لگے، 3 لاکھ 62 ہزار ایکڑ فٹ کی کمی ریکارڈ
  • مریخ کی کھوج۔۔۔۔
  • پاکستان میں پانی کے ذخائر میں مزید کمی، تربیلا ڈیم کی سطح 9 فٹ کم
  • امریکا میں سب نے اتفاق کیا کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا خطرناک ہے: شیری رحمٰن
  • عید کے موقع پر استعمال بڑھنے سے کراچی میں پانی کا بحران شدت اختیار کرگیا
  • بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، 24 کروڑ پاکستانیوں کا پانی روکنا جارحیت ہے، بلاول بھٹو
  • عید پر گوشت کا استعمال اور صحت کا خیال کیسے رکھا جائے؟