طالبان میں اختلافات،طاقتور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی مستعفی،ذرائع
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
طالبان میں اختلافات،طاقتور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی مستعفی،ذرائع WhatsAppFacebookTwitter 0 15 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس ) حقانی نیٹ ورک کے سربراہ اور افغان طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے اور اپنا استعفی بین الاقوامی طور پر غیر تسلیم شدہ طالبان حکومت میں افغانستان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخندزادہ کو بھجوا دیا ہے۔افغانستان انٹرنیشنل نے طالبان حکومت کے اندر دو “باخبر ذرائع” کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ حقانی کا استعفی قبول کر لیا گیا ہے۔
اس نے یہ بھی بتایا کہ یہ اقدام “طالبان قیادت کے اندرونی اختلافات” کے ساتھ ساتھ حقانی کی عوامی سرگرمیوں سے طویل عرصے تک غیر حاضری کے بعد کیا گیا ہے۔ان کی غیر موجودگی میں وزارت داخلہ کے فرائض ان کے نائبین نے سنبھالے ہیں۔حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی مرکزی قیادت کے درمیان خاص طور پر خواتین کے حقوق اور گورننس سے متعلق مسائل پر بڑھتے ہوئے تنا ئو کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔
حقانی کی خوست منتقلی، جو اس کے نیٹ ورک کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، طالبان کی صفوں میں مزید تقسیم کا اشارہ دے سکتا ہے۔ابھی تک طالبان نے حقانی کے استعفی یا ان کے اقدام سے متعلق کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
امریکہ تمام یکطرفہ ٹیرف اقدامات مکمل ختم اور اختلافات کو حل کرنے کا راستہ تلاش کرے، چین
چین نے ٹیرف معاملے پر امریکہ کو بات چیت کے ذریعے حل تلاش کرنے کا مشورہ دیدیا۔
ترجمان چینی وزارت خارجہ کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکہ کو چین کے خلاف تمام یکطرفہ ٹیرف اقدامات مکمل طور پر ختم اور مساوی بات چیت کے ذریعے اختلافات کو حل کرنے کا راستہ تلاش کرنا چاہئے۔
ترجمان چینی وزارت خزانہ نے کہا کہ یکطرفہ ٹیرف میں اضافہ امریکہ نے شروع کیا، اگر وہ واقعی مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے تو بین الاقوامی برادری اور ملکی سٹیک ہولڈرز کی بات پر دھیان دیں۔ترجمان چینی وزارت خارجہ نے امریکی اور چینی حکام کے درمیان روزانہ بات چیت کے بیان کی تردید کی اور کہاکہ ٹیرف کے معاملے پر امریکہ سے مذاکرات نہیں کئے۔
واضح رہے گزشتہ روز امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین پر منحصر ہے کہ ٹیرف کتنی جلدی کم ہوسکتے ہیں، اگلے دو تین ہفتوں میں چین کے لئے ٹیرف طے کریں گے، چین پر عائد ٹیرف میں کمی کا انحصار چینی قیادت کے عمل پر ہو گا۔